انقلاب ،جمہوریت اور اقبال

گذشتہ کافی دنوں سے پاکستانی عوام کو کچھ الفاظ بڑی کثرت سے سننے کو مل رہے ہیں جن میں سے انقلاب اور جمہوریت جیسے الفاظ کی بازگشت بہت ہی بار کانوں میں سنائی دیتی ہے ملک میں دو قسم کے طبقات جنم لے چکے ہیں ایک کو آپ انقلابی اور دوسرے کو جمہوری کہہ سکتے ہیں لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ ان دونوں کا ذرا سی گہرائی میں جا کر مطالعہ کریں تو بہت دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں جیسے میرا تعلق چکوال کی تحصیل تلہ گنگ سے ہے جس کو ضلع بنانے کا جھانسہ دے کر ہز ہائی نس نے ہماری سادہ لوح عوام سے ووٹ بٹورے تھے مگر بعد میں وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا یا پھر بقول زرداری صاحب وعدہ قرآن یا حدیث نہیں ہوتا اس لیئے اس وعدہ کو وفا کرنے کے کم سے کم اب تک تو کوئی آثار نظر نہیں آتے اب ہمارے حلقہ پی پی 23 سے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی بھی ہیں جوکہ کافی عرصہ سے بیمار ہیں اور منظر سے غائب ہیں لیکن سنا ہے کہ انہوں نے ایک جانشین مقرر فرما رکھا ہے جو ظاہر ہے اسمبلی میں ان کی نمائندگی کرنے سے قاصر ہے اور دوسرے نمائندہ صاحب ایک ایسے بزرگ ہیں جو اب اپنی پیرانہ سالی اور پہلے تعلیمی قابلیت کی وجہ سے آج تک تیسری بار ممبر قومی اسمبلی ہونے کے باوجود اسمبلی فلور پرایک لفظ تک نہ بولنے کا ریکارڈ قائم کر چکے ہیں اطلاعات کے مطابق حلقہ کے امور کے لیئے انہوں نے ایک سیکرٹری مقرر کر رکھا ہےجو "آئے گئے " بھگتا رہا ہے اس لحاظ سے موجودہ جمہوری نظام میں ہماراحلقہ یتیم و یسیر کا منظر پیش کر رہا ہے اکثر سوچتا ہوں کہ ملک تو علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر تھا تو کیوں نہ ان سے ہدایت لوں کہ وہ موجودہ جمہوریت کو کس نگاہ سےدیکھتے تھے تو علامہ کی صدا سنائی دی کہ ؎ جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے یقین کریں آپ سوچ سکتے ہیں کہ اگر جانشینوں اور سیکریٹریز نے ہی کام کرنے ہیں تو انہی کو الیکشن کیوں نہیں لڑایا جاتا ؟توجواب علامہ کے شعر کی صورت میں ان کی زبانی پہلے ہی دے چکا ہوں یہاں سائنسدان ، فلاسفر ،پروفیسر ،انجینئر اور ڈاکٹر کا ووٹ بھی ایک ہے اور نیم پاگل شناختی کارڈ ہولڈر کا ووٹ بھی ایک ہے اس لیئے تھانے کچہری اور ذات برادری والے جاہل بوڑھے اور بیمار کو ان کے تمام تر مسائل کے باوجود ٹکٹ آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں لیکن قابلیت یا پارٹی سے وفا داری کی کو قابل قدر جنس ہی نہیں سمجھا جاتا پھر میں نے اقبال سے پوچھا کہ چلو یہ تو ٹھیک ہے کہ تولنے پر گنتی کو فوقیت ملنا نامناسب ہے لیکن تمام تہذیب یافتہ ممالک میں یہی نظام رائج ہے تو جواب فوری طور پر حاضر تھا ؎ تہذیب نو کے منہ پہ وہ تھپڑ رسید کر جواس حرام زادی کا حلیہ بگاڑ دے میں پھر پریشان ہو گیا کہ یہ تہذیب کیا ہے جس کے لیئے اتنے سخت الفاظ کا استعمال کیا جا رہا ہے تو اقبالِ لاہوری نے مسکرا کر فرمایا ؎ اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے الیکشن ممبری کونسل صدارت بنائے خوب آزادی نے پھندے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کیا مفکر پاکستان کی فکر میں کوئی کمی تھی یا امراض کی تشخیص میں کسی قسم کی علت نظر آتی ہے وہ خود ہی ہمارے لیئے انگریز کے بنائے ہوئے نظام انتخاب سے مطمئن نہیں تھے یہ سب چونچلے اس جگہ اچھے لگتے ہیں جہاں امیر اور غریب کو انتخاب لڑنے کے لیئے بدمعاشی نہیں معاشی پالیسی کی ضرورت ہو تھانیدار کی نہیں قانون کی بالادستی کی ضرورت ہو ذات برادری کی بجائے اس کی فکری اور ذاتی خوبیوں کو دیکھا جائے مال و دولت کی جگہ اس کی قابلیت کا میابی کی ضمانت ہو پارٹی سربراہ کی بجائے ملک اور ملت سے اس کی وفاداری پیمانہ بنے یہ وہ سب کچھ ہے جس کا ذکر آئین کا دیباچہ کرتا ہے جب کالے ،گورے اور امیر، غریب کا فرق مٹ جائے اور فوقیت کا میعار تقویٰ ہو تو اس کو جمہوری معاشرہ کہا جاتا ہے ورنہ اس جنگل اور درندوں کے معاشرے کو جمہوری کہنا قوم کے غریب اور مجبور و مقہور افراد کے ساتھ ہی نہیں خود جمہوریت کے ساتھ بھی بھیانک مذاق ہے اور اس مثالی جمہوریت کو حاصل کرنے کا خواب ہی در اصل سچا اورحقیقی انقلاب ہے اور اسی کی صدا کو لے کر جو بھی علم و عمل اور فکر و نظر کی دولت تقسیم کرے گا وہ ہی سچا قائد انقلاب ہے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ڈاکٹر قادری اور عمران خان کے مشکور ہیں جن کی محنت اور ڈاکٹر قادری کی خا ص علمی اور فکری راہنمائی نے عوام کو آئین قانون اوراپنے حق سے آگاہی دی ہے ورنہ تو ہم ساری زندگی سیکرٹری اور جانشین عطا کرنے پر اپنے حکمرانوں کے ساری زندگی مشکو ر ہی رہتے لیکن آج میں بھی یہ کہنے کی جرات رکھتا ہوں کہ اگر عوام کی نمائندگی تم خود نہیں کر سکتے تو اس منصب سے ہٹ جاؤ اور اہل لوگوں کو سامنے آنے دو اور تلہ گنگ ضلع بناؤ تحریک کے قائدین کو بھی عرض کرتا چلوں جب تک آپ ان کی اس بدمعاشی کے خلاف تحریک نہیں چلاتے تو حقیقت کو شاعر نے بتا دیا ہے کہ ؎زندگی بھیک میں نہیں ملتی آگے بڑھ کر ہی چھینی جاتی ہے
Noman Umar
About the Author: Noman Umar Read More Articles by Noman Umar: 5 Articles with 3100 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.