کیا برف پگھل رہی ہے
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
آج کے اخبارات میں کچھ ایسی
خبریں شائع ہوئیں ہیں جس سے موجودہ بحران کے ختم ہونے کی کچھ امید ہو چلی
ہے ایک خبر یہ ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے
جوڈیشنل کمیشن کے قیام پر اتفاق کیا ہے جو انتخابات میں ہونے والی دھاندلی
کی تحقیقات کرے گا ۔ذرائع کے مطابق تحریک انصاف نے حکومت کو جوڈیشنل کمیشن
کے قیام کے طریقہ کار کے حوالے سے ترمیمی مسودہ بھی بھیج دیا ہے ۔پی ٹی آئی
دھاندلی کی تحقیقات 45روز میں کیے جانے پر بھی آمادہ ہوئی ہے جب کہ پہلے
تحریک انصاف نے دھاندلی کی تحقیقات 30روز کے اندر کرنے کا مطالبہ کیا تھا ۔تحریک
انصاف کے ترمیمی مسودہ میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف دھاندلی کی تحقیقات
سے متعلق حلقوں کی فہرست جوڈیشنل کمیشن کو دے گی تاہم تحقیقات کے لیے حلقوں
کا انتخاب جوڈیشنل کمیشن کرے گا تحریک انصاف کی جانب سے جو تجاویز دی گئی
ہیں ان میں تحقیقات میں نادرا کی انگوٹھوں کی تصدیق سے متعلق رپورٹ شامل
کرنے ،انتخابات میں میٹریل کی کمی ،پولنگ ریکارڈ کے غائب ہونے ،عوامی
نمائندگی کے ایکٹ 1976کی خلاف ورزی کی تحقیقات کرانا بھی شامل ہے ۔اس کے
علاوہ یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ کسی بھی ذرائع سے جوڈیشنل کمیشن کو ملنے
والی معلومات کو بھی تحقیقات کا حصہ بنایا جا سکتا ہے ۔مسودہ میں وزیر اعظم
کے استعفے کی کوئی بات نہیں ہے ۔جوڈیشنل کمیشن سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل
ہو گا جیسے ہی اس حوالے سے حکومت کوئی فائنل جواب دے گی تحریک انصاف دھرنا
ختم کردے گی ۔
دو دن قبل عمران خان کے دھرنے میں ان کا خطاب سننے کا موقع ملا تو زیادہ تر
وہی پرانی باتیں جو وہ اول دن سے کہہ رہے ہیں دہرائی جارہی تھیں ۔جس چیز کو
خاص طور پر نوٹ کیا وہ شرکائے دھرنا کے کسی بھی قسم کے جذبات سے عاری چہرے
تھے اس سے قبل جوش خروش نظر آتا تھا ویسے تو ہمارے کیمرہ مین تحریک انصاف
کے دھرنے میں صرف خواتین شرکاء کو خصوصی طور پر دکھاتے ہیں مرد حضرات اب
شاید نہ ہونے کے برابر ہیں عمران خان کو چاہیے کہ اب اپنے دھرنے کو اگر وہ
ختم نہیں کرتے تو موبائل دھرنوں میں تبدیل کردیں جوڈیشنل کمیشن کے قیام کے
بعد وہ 45دن تک اپنے دھرنوں کو صوبوں میں تقسیم کر دیں ایک ہفتہ سندھ صوبے
میں دوسرا کے پی کے میں تیسرا بلوچستان میں اور چوتھا صوبہ پنجاب کے شہر
لاہور میں اور آخری بقیہ دن پھر اسلام آباد میں ۔اگر اس درمیان جوڈیشنل
کمیشن کا یہ فیصلہ آگیا کہ 2013کے انتخاب میں دھاندلی ہوئی تھی تو جرگہ کی
تجویز کے مطابق نواز شریف صاحب کو وزارت عظمیٰ سے استعفا دے دینا چاہیے اور
مڈ ٹرم انتخاب کے لیے ٹیکنو کریٹس پر مشتمل حکومت تشکیل دی جائے جو فوج کی
نگرانی میں انتخاب کرائے اور اگرجوڈیشنل کمیشن یہ فیصلہ دیتا ہے کہ 2013کے
انتخابات میں کوئی منظم دھاندلی کے ثبوت نہیں ملے کہیں اگر کوئی شکایت ہے
تو وہ مقامی اور انفرادی نوعیت کی ہے تو جیسا کہ عمران خان نے بیان دیا ہے
کہ اگر دھاندلی ثابت نہ ہوئی تو وہ نواز شریف صاحب سے معافی مانگ لیں گے ۔اصولی
اعتبار سے عمران خان کو وزیر اعظم سے معافی مانگ کر اپنے استعفے واپس لینا
چاہیے اور اسمبلیوں میں اپنا پارلیمانی رول ادا کرنا چاہیے ۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہر سیاسی لیڈر اور ان کی جماعت حالات کے بھنور
میں پھنس چکے ہیں عمران خان اگر وزیراعظم کا استعفا لیے بغیر دھرنا ختم
کرتے ہیں تو یہ ان کے لیے اگر سیاسی موت نہیں تو ایک بہت بڑا سیاسی دھچکہ
ضرور ہوگا اور اگر اسی طرح وہ دھرنے کی ضد پر اڑے رہے تو اس سے ان کی سیاسی
پوزیشن دن بدن متاثر ہو رہی ہے۔ دوسری طرف علامہ طاہر القادری بھی اپنے ہی
دھرنے میں پھنسے ہوئے ہیں جہاں خیموں اور بدبو کے سوا اب کچھ نہیں بچا ویسے
وہ تو اب خود ہی اسے ختم کرنے کا اعلان کردیں گے ۔دیگر سیاسی جماعتوں میں
پیپلز پارٹی اس لیے پھنسی ہوئی ہے کہ وہ صاف طریقے سے یہ بھی نہیں کہہ
پارہی ہے کہ 2013کے الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوئی تھی اور دوسری طرف یہ بھی
کہتی ہے کہ اس دھاندلی سے تو تحریک انصاف سے زیادہ پی پی پی کو نقصان پہنچا
ہے وزیر اعظم کے استعفے کی کبھی یہ کہہ کر حمایت کی کہ اسے تحریک انصاف کے
مطالبات کی فہرست میں سب سے آخر میں رکھا جائے اور کبھی یہ بھی کہتی ہے کہ
ہم جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے ۔آج ہی کا بیان ہے کہ وزیر اعظم
رضاکارانہ اپنے عہدے سے دستبردار ہو جائیں اے این پی کی صورتحال بھی دلچسپ
ہے کہ وہ پچھلے یعنی 2013کے انتخاب میں قومی سطح پر بالکل صاف ہو گئی اسے
تو سب سے زیادہ دھاندلی کا شکوہ ہونا چاہیے لیکن چونکہ اسے کے پی کے میں
تحریک انصاف کے ہاتھوں شکست ہوئی ہے اس لیے اس تعصب میں وہ تحریک انصاف کے
دھرنے کی حمایت نہیں کرہی بلکہ اس کی مخالفت کر کے وہ ایک طرح سے ن لیگ کا
ساتھ دے رہی ہے -
اب چونکہ عمران کے جلسے بھی کامیاب جارہے ہیں اس لیے دیگر جماعتیں بھی
جلسوں کی طرف آرہی ہیں کہ انھیں بھی خدشہ ہے کہ کہیں اچانک کوئی غیبی ہاتھ
آئے اور شاید مڈٹرم انتخابات کا اعلان ہو ہی جائے تو ہمیں بھی اب بڑے بڑے
جلسے کرنا چاہیے چنانچہ انھوں نے 18اکتوبر کو کراچی میں اپنا جلسہ رکھا ہے
جس میں ان کا دعویٰ ہے کہ حاضری کے لحاظ سے یہ تمام جلسوں کے ریکارڈ توڑ دے
گا -
جماعت اسلامی نے اس پوری سیاسی گہما گہمی میں اپنا موقف بالکل واضح اور غیر
مبہم رکھا ہے ۔نو منتخب امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق صاحب نے
بہترین انداز میں حکومت اور دھرنا دینے والی پارٹیوں کے درمیان ثالث کا رول
ادا کیا ہے ۔پہلے وہ انفرادی طور سے کوششیں کرتے رہے پھر تمام سیاسی
جماعتوں کا اجلاس بلا کر انھوں نے سیاسی جرگہ تشکیل دیا جس نے حالات کی
بہتری کے لے متحارب فریقوں سے مسلسل رابطہ رکھا اور انتہائی متوازن تجاویز
ترتیب دے کر دونوں فریقوں کے سامنے پیش کیا جسے اگر دونوں فریقین قبول کر
لیتے تو ملک میں اچھاسیاسی ماحول بن جاتا اور تمام سیاسی جماعتیں بند گلی
سے نکل کر کھلی شاہراہ پر آجاتیں ۔ |
|