آج پاکستانی حکمرانوں کو ’’گو
نوازگوــ‘‘کے نا پسندیدہ نعرے کا سامناہے وہ جہاں بھی جاتے ہیں لوگ ان کو
دیکھ کرحلق پھاڑ کرنعرے لگاتے ہیں انہی نعروں کی وجہ سے وزیرآبادمیں ایم پی
اے نے مظاہرین کو گھونسوں پر رکھ لیا،اسلام آباد میں طلبا تنظیموں کے
درمیان گولیاں چل گئیں لیکن ماضی میں کئی حکمران اس سے بھی بدترین صورت ِ
حال سے دو چارہو چکے ہیں سابق امریکی صدر جارج بش، برطانوی وزیر ِ اعظم
ڈیوڈکیمرون، امریکہ کی سابق خاتون ِ اول ہیلری کلنٹن، ایرانی صدر احمدنژاد،
مقبوضہ کشمیرکے کٹھ پتلی وزیر ِ اعظم عمر عبداﷲ، بھارتی عام آدمی پارٹی کے
رہنما اروندکیجریوال،سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم ،سابق صدر پرویز
مشرف اور وزیر ِاعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف بھی اس صورت ِ حال سے دو
چارہوچکے ہیں جب ان پر جوتے اچھالے گئے اس کے علاوہ کچھ عرصہ قبل معروف
قانون دان احمد رضا قصوری کے چہرے پرکسی نے کالے رنگ کا سپرے کردیا تھا
سابقہ وزیر مرحوم شیر افگن نیازی اورسینیٹر طارق عظیم کی بھی پٹائی ہو چکی
ہے۔۔۔یہ سب واقعات معاشرہ میں عدم برداشت کی نشان دہی کرتے ہیں کچھ عرصہ
قبل وزیر ِاعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ انتہائی
سنگین کہا جا سکتاہے ساؤتھ ایشیاء لیبرکانفرنس کی تقریب میں آنے والے ملکی
بالخصوص غیر ملکی مندوبین کو ہم نے کیا میتتج(Message) دیاہے اس سے عالمی
سطح پر پاکستان کا امیج خراب نہیں ہوا بلکہ شدید بدنامی بھی ہوئی ہے
سوچتاہوں کاش یہ واقعات نہ ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا ۔۔ماضی میں کسی سیاسی
جلسے یا جلوس کو ناکام بنانے کیلئے گندے انڈے یا ٹماٹر مارنے کا رواج تھا
اسے بھی بڑا واقعہ شمار کیا جاتا تھا اب تو جوتے مارنے کا کلچر فروع
پارہاہے جو انتہائی خوفناک رویے کا عکاس ہے میں تو اسے انتہا درجے کی
بدتمیزی سے تعبیر کرتاہوں ویسے سوچنے کی بات بہ ہے کہ مذکورہ صحافی نے جوتا
اچھال کرصحافت کی کون سی خدمت کی ہے؟ غالب نے تو کہا تھا
ہر اک بات پہ کہتے ہو تو کیا ہے؟
تمہی کہو ۔۔یہ انداز ِ گفتگوکیاہے؟
آج غالب زندہ ہوتے تو اس بدتمیزی اور بد تہذیبی پر نہ جانے کتنے شعر لکھ
ڈالتے لیکن بیشترلوگوں نے تواس واقعہ کو یقینا چٹخارے لے لے کر بیان کیا
ہوگالیکن اس سے صحافیوں کی سبکی ہوئی ہے ایسے واقعات سے ظاہرہوتاہے کہ
برداشت ،تحمل ، مروت ،بردباری اوردرگذرکرنا شاید پرانے زمانے کی باتیں ہیں
اب تو زیادہ تر لوگوں میں قوت ِ برداشت کم ہوتی جارہی ہے جس کے باعث بات بے
بات پر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں معمولی’’ تو تو میں میں‘‘پر اسلحہ نکل
آتاہے ۔۔ کبھی۔ برداشت ،تحمل ، مروت سیاستدانوں،صحافیوں ،سرکاری و
غیرسرکاری افسران اوربیوروکریٹ کا خاصا ہوتا تھا دور ِ حاضر میں لوگ مرنے
مارنے پر تل جاتے ہیں اس ماحول میں جب وزیر ِاعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے
ضبط کاامتحان بھی تھا موصوف نے جوتا اچھالنے والے صحافی کو معاف کرکے یقینا
ایک اچھی روایت قائم کی ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے میری دانست
میں صحافی کو ایک آئینہ کا کردار اداکرنا چاہیے کہ یہی ایک ایسی چیزہے جو
کبھی جھوٹ نہیں بولتی آئینے کے سامنے جو کچھ بھی ہوتاہے سچ ہوتاہے صحافی کا
پرسنل ہونا اس کے عظیم پیشہ کے وقار کے منافی ہے۔۔۔مرحوم غلام حیدروائیں
کہا کرتے تھے قوت ِ برداشت نہ ہو تو سیاست چھوڑتا زیادہ بہترہے ۔۔ہم نے کئی
پریس کانفرنسوں میں مزاج کے خلاف سوال کرنے پر کئی سیاستدانوں کو سیخ
پاہوتے دیکھاہے کئی اس قدر غصے میں آجاتے ہیں کہ وہیں کھڑے کھڑے صحافیوں کو
بے نقط سنا دیتے ہیں۔پاکستان میں صحافیوں نے آزادی ٔ صحافت کیلئے بہت
قربانیاں دی ہیں اب تلک درجنوں صحافی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو بجالاتے
ہوئے شہیدہو چکے ہیں۔ آزادی ٔ صحافت کیلئے قربانیوں کا تقاضاہے کہ صحافی
اپنی ذمہ داریوں سے انصاف کریں محض خبر بنانے کے چکرمیں کوئی ایسا کام نہ
کیا جائے جس سے اس شعبہ کی سبکی ہو۔بہرحال مملکت ِ خدادادپاکستان میں
برداشت کے کلچرکو فروغ دینے کی ضرورت ہے ،مخالفین کو گو۔۔گو۔۔ اور نو ۔۔نو
کہنے کی بجائے ان کی پالیسیوں کو تنقیدکا نشانہ بنایا جائے ہر سیاستدان
اپنے پروگرام کو عام آدمی تک پہچائے ۔۔۔کسی کی رائے کو برداشت نہ کرنا بھی
انتہائی خوفناک ہے ۔۔یہ اظہارِ رائے کی آزادی کا بھی دشمن ہے۔خوفناک بات یہ
ہے کہ گو۔۔گو کی رسم چل نکلی تو کل کلاں کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا
مذہبی رہنما، سیاستدان،سماجی شخصیات،صحافی یاپھرکوئی بھی اس کلچر کا
شکارہوسکتاہے ۔لوگ اپنے کسی بھی مخالف کو جوتے مارکر ذلیل کرسکتے ہیں اس
صورت میں اتنی انارکی پھیلے کی جس کا اس وقت اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔آج
پاکستانی حکمرانوں کو ’’گو نوازگوــ‘‘کے نا پسندیدہ نعرے کا سامناہے عمران
خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا کہناہے کہ ایسے نعرے لگانا جمہوریت کے عین
مطابق ہے اسے اظہار ِ رائے کی آزادی سے تعبیر بھی کیا جاسکتاہے لیکن یہ
تحمل،برداشت کا امتحان بھی ہے اس میں کوئی شک نہیں ’’گو نوازگوــ‘‘کے نعروں
سے حکمرانوں کے اعصاب چٹخ رہے ہیں ۔۔۔قوت ِ برداشت جواب دے رہی ہے۔۔ کا
چاچا شیدا۔۔ میدے کو کہہ رہا تھایہ صورت ِ حال زیادہ دیر تک برقراررہی تو
حکمرانوں کے حامیوں اور مخالفین کو چھترو چھتری ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ |