کرپشن ۔۔ایک آ فت؟

کسی بھی ملک کی ترقی کا ضامن اُس میں مقیم لوگ ہیں خواہ وہ ملک کا وزیر ہو یا ایک عام بندہ ۔ ملک کی ترقی اور بر بادی ، بد حالی و خوش حالی کی ذمہ دار صرف ملک کا صدر ، وزیر اعظم ، وزراء یا لیڈران نہیں بلکہ صدر سے لیکر عام عوام کے سر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ اگر ان میں سے کوئی اپنے ذمہ داریوں کو محسن طریقے سے سر انجام نہ دے تو ملک کا نظام در ہم بر ہم ہو جاتا ہے پھر اُس ملک میں کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔اور اس وقت ملک ِ اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی کئی مسائل کا شکار ہے ۔ ان مسائل میں سے بڑا مسئلہ کر پشن ہے ۔ اس وقت کرپشن سر توڑ کر بول رہا ہے ۔ ہمارے ملک حکمران سے لیکر عوام تک سب کرپشن میں ملوث اور عادی ہو چکے ہیں ۔لیڈر ان، وزراء ، ،مشیر ، ایم این اے ، ایم پی ایز ، بیو رو کریسی اور عوام سمیت کرپشن میں ملوث ہیں ۔

اگر دیکھا جائے تو پولیس تھانہ و پولیس چوکیاں رشوت کا اڈہ بن چکے ہیں جہاں پیسے کے بل بوتے پر مجرم آ زاد اور ملزم مجرم بن جاتے ہیں ۔ قاتل آ زاد اور بے گناہ جبکہ ان کی جگہ کئی بے گناہ اور معمولی چور جیل کے سلاخوں میں ٹرپ رہے ہیں ۔ عمران خان کی بات درست ہے چھوٹا چور جیل میں اور بڑا وزیر بن کر بڑے بڑے چوریاں کر رہا ہے ۔ یہ پولیس کی رشوت کی وجہ سے ہے ۔ پولیس والا رشوت لیکر اپنی بیان بازیاں بدلتے ہیں ۔ ہاں پولیس والے بھی بیان بازی اور ایف آئی آر میں ضرور کرپشن کرتے ہیں ۔

دودھ والا دودھ کم دودھ میں پانی زیادہ ڈال کر بیچ رہا ہے ۔ان دودھ فروشوں کے لئے ایمان کی کوئی قیمت نہیں ہے ۔دکان دار ناپ تول میں بھی کافی گھپلا کرتے ہیں ناپ تول میں کمی کر کے اپنی کمائی میں اضافہ کرتا ہے ۔سبزی فروش آ دھے سے زیادہ گلے سڑے اور ناقابل استعمال سبزیاں بیچتا ہے ۔ لوگوں بیماریاں بیچ رہا ہے ۔رکھے بھی ایسے ہوتے ہیں کہ دور سے اسپیشل اور گھر میں( ہائے شامت ) بد بو دار شکل بھی سبز کے بجائے پیلا دکھائی دیتا ہے ایسا لگتا ہے کہ پچھلے سال کا سبز ی ہے جو کئی عرصوں سے تحہ خانے میں مکھیوں کے لئے پڑا تھا۔خراب چیز خریدتے کم قیمت میں ہیں جہاں ان کو بیچنے کے بعد بہت منافع ہوتا ہے تو اچھی چیز بیچنے کے بجائے خراب چیز بیچنے کی عادی ہوئے پھرتے ہیں ۔ اب بندہ لیتا ہے تو بھی غلط اور نہ لیتا ہے تو گھر میں مار پیٹ ہوتا ہے ۔اور یہ دہشت گردانہ حملے آ ئے روز ہو رہے ہیں ۔ کئی قیمتی جانیں ضائع ہوتے ہیں یہ سب کرپشن کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔ یہ کرپشن ہی تو ہے جس نے حکمران ، عدلیہ ، انتظامیہ اور بیو رو کریٹس کو اندھا گونگا اور بہرا بنایا ہے ۔ اور جب بھوک افلاس غریبی اور لاچاری ھد سے زیادہ بڑ ھ جائے اور جائز ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ناجائز طریقے استعمال کرتے ہیں اسی چور ، ڈاکو ، قاتل اور جسم فروشی و ایمان فروشی کا راستہ اختیار کرنے پر بندہ مجبور ہوتا ہے ۔اور جس ملک میں چوری ، ڈکیتی ، قتل و غارت عام ہو وہ ملک کبھی مضبوط و مستحکم نہیں ہو سکتا ہے ۔ اگر ہمیں اپنے ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں لانا ہے تو تمام تر مسائل کا حل کرپشن ہے کرپشن کا خاتمہ کیا جائے تو راستہ ہموار ہو سکتا ہے ۔اگر کرپشن کاخاتمہ ہو جائے تو ملک دن دگنی رات چگنی ترقی کر سکتا ہے ۔

قارئین حضرات : کہانی مختصر کہ پاکستانی قوم دلیرانہ کام کرکے کرپشن کو ملک سے باہر دور پھینک دیں تو ملک میں کرپشن کاکاتمہ سے انقلاب پر پا ہو سکتا ہے ۔ تو کرپشن اپنی بربادی کا ذکر پوری دنیا میں در بدر پھرے۔ اپنی داستان دنیا کو سنائے کہ کس طرح پاکستانی قوم نے مشترکہ اسے زلیل وخوار کیا اور اپنے خطے سے باہر نکال پھینکا ۔ کیسے اس نے اپنے بستر باندھ کر ملک سے باہر در بدر ہوگیا ، محل و گھر کی کچرہ دان میں بھی اس کے لئے جگہ نہ بچ سکا ،کیسے ہمارے ملک کے لئے لیڈر اس سے ہمکنار ہوئے ،ایم پی انے ، ایم این اے اور بیو رو کریسی و پولیس نے کیسے اپنے گاڑیوں کے نیچے اسے کچل دیااور عوام کی خدمت کو ترجیح دی، ججو ں اور کالم نگاروں کیسے اپنے قلم کے نیچے اس کا سینہ چیر دیا، کیسے دودھ والے کے آ گے اس کی ایک نہ چلی دودھ والے نے پانی ملانا چوڑدیا، کیسے حکیموں و ڈاکٹروں نے اس کا استعمال کرنا چوڑ دیا اور عوام کی خدمت شروع کر دی، کیسے ترازوں والوں نے میزان کرنا شروع کر دیا ، کیسے سبزی فروش نے گلے سڑے سبزیوں کو کچرہ دان میں پھینک دیا اور تازہ سبزی بیچنا شروع کر دیااور میڈیا نے کس طرح اس کو بے نقاب کیا ہے ؟ شعر دنیا کو سنا دے کہ
کبھی بہت ہم جس ملک میں عام تھے
وہاں تومیں ہمارے جیالے بے حساب تھے
پھر آ فت ایسی آئی ہم پر اچانک لانگو
ہم تو نہ تھے پر ہر شہ پر وہاں حساب تھے

کاش! اسی طرح ہمارے ملک میں حکمرانوں سے لیکر عوام تک کرپشن سے نفرت کرے لگے توہمارے ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا اور انقلاب انقلاب اور انقلاب خود بخود نافذہو جائے گا۔ انقلاب مارچ اور لانگ مارچ کا راستہ رک سکتا ہے ۔ لوگ پر امن ہو سکتے ہیں ۔ اس سے کرپشن کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ والسلام
Asghar Langove
About the Author: Asghar Langove Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.