آج جب کہ وطن عزیز ایسے حالات سے دوچار ہے کہ کسی نئے
چیلنج کا متحمل نہیں ہو سکتا مگر ایسے میں حالات مڈ ٹرم الیکشن کا مژدہ سنا
رہے ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے دبے دبے الفاظ میں یہی صدا آرہی
ہے کہ مڈ ٹرم الیکشن کے سوا کوئی راستہ نہیں کیونکہ موجودہ حکومت عوام کی
منتخب کردہ حکومت نہیں ہے بلکہ دھاندلی کے ساتھ برسر اقتدار آئی ہے
اورحالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی سیاست
چمکانے میں برسر پیکار ہو چکی ہیں۔ آغا حشر کاشمیری نے کیا خوب کہا تھا کہ
میرے وطن کی سیاست کا حال نہ پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کے وعدے ہمیشہ پانی پر لکھی ہوئی تحریر
کی طرح دکھاوا اور دھوکہ ثابت ہوئے ہیں ‘دلکش وعدوں اور ماوارائی خوابوں
میں الجھا کر اقتدار حاصل کرنے اور من مرضیاں کرنے کی روش پرانی ہے ‘اگر آج
اس ملک کے سیاستدان ان میں سے نصف وعدوں کو بھی پورا کر دیتے تو آج وطن
عزیز فنا و بقا کی کشمکش سے دوچار نہ ہوتا ۔مگر افسوس کہ ’’یہ ہو نہ سکا
اور اب یہ عالم ہے کہ تو نہیں تو تیرا غم بھی نہیں ‘‘ کہ مصداق گھمبیر
حالات دیکھ کر بھی ہماری عوام اپنی آنکھیں بند کر لیتی ہے کیونکہ احسا س
زیاں وقت اور حالات کی بھینٹ چڑھ چکا ہے ۔
دھرنا پارٹیوں نے جس نظام حکومت کے خلاف علم بلند کیا تھا وہ بدقسمتی سے
اسی کرپٹ نظام حکومت کے عہدے داروں سے ہاتھ ملا کر اس مقام تک آگئے ہیں
جہاں خواہش اقتدار نے انھیں اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ وہ صحیح اور غلط سب
فراموش کر چکے ہیں ۔لاہور میں کامیاب جلسے پر عمران خان کافی خوش اور مطمئن
ہیں کہ عوام نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا مگر ذی شعور عوام جناب عمران خان
سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ سٹیج پر ملک اسلم اقبال ،جہانگیر
ترین ،خورشید قصوری،عبدالعلیم خان موجود تھے جو کہ پرویز مشرف اور چوہدری
برادران کو ہی بڑا لیڈر قرار دیتے رہے اور ہر طرح کی کرپشن اور ناانصافی
میں ان کے ہم قدم رہے ۔ شاہ محمود قریشی کے بارے میں کون نہیں جانتا پہلے
میاں صاحب ان کے مسیحا ،پھر محترمہ بے نظیر بٹھو اور اب عمران خان میں
انھیں عوام کا مسیحا نظر آرہا ہے اور شیخ رشید کا ماضی تو عام آدمی سے بھی
ڈھکا چھپا نہیں ہے ‘کیایہ سب مل کر اس ملک کا نظام بدلیں گے ۔ ـحیف اب وقت
کے غدار بھی رستم ٹھہرے ۔
اور اس پر ستم یہ کہ ان کا یہ طرزِ بغاوت مڈٹرم الیکشن کا عندیہ دے رہا ہے
،اس کا ذکر میں اپنے کالم میں 3 ماہ پہلے ہی کر چکی ہوں کہ یہ دھرنے ،جلسے
جلوس صرف اور صرف خواہش اقتدار کے با سبب ہیں کیوں کہ عوام کا درد ان
قائدین کو کتنا ہے اس کا اندازہ اسی سے ہوتا ہے کہ جب جناب مولانا قادری
کنٹینر سے اتر کر اپنے ہی پیروکاروں میں آئے تو منہ پر رومال رکھ لیا اور
بارش ،دھوپ جیسا بھی موسم ہو خود کنٹینر میں بیٹھے رہتے ہیں اور بیچارے لوگ
بھیگتے رہتے ہیں۔رحمان ملک نے کہا ہے کہ وہ بھیس بدل کر دھرنوں میں گئے تھے
جہاں پرلوگوں نے کہا کہ وہ بہت تنگ ہیں اور گھروں میں جانا چاہتے ہیں مگر
انھیں اجازت نہیں ہے ۔
برسر اقتدار اور برسر پیکار پارٹیوں کی لغزشوں کو دیکھتے ہوئے سب سیاسی
پارٹیاں بیدار ہو چکی ہیں اوراپنی اپنی سیاسی مہم کے لیے شب و روز مصروف
عمل ہیں ۔ویسے بھی 2013ء کا الیکشن متنازعہ ہو چکا ہے اور مسلم لیگ (ن) کی
کارکردگی بھی ان کی سیاست پر سوالیہ نشان بن چکی ہے ۔مگر آج سوال ایک آدمی
یا گروہ کا نہیں ہے المیہ یہ ہے کہ سب ہی اعتدال کی راہ سے ہٹ گئے ہیں ۔سب
مفادات اور اقتدار کی ہوس میں سرگرم ہیں ۔مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن
نہیں ہے کہ تحریک انصاف ایک مضبوط اپوزیشن بن کر ابھرچکی ہے اور جب مضبوط
جماعت سامنے ہو تو ایسی حکمت عملیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ لغزشوں سے پاک
ہواور عوام خود کہیں کہ موجودہ حکومت نے ہمارے لیے بہت کچھ کیا ہے مگر یہ
تب ممکن ہے کہ جب کچھ ڈلیور ہوتا نظر آئے جبکہ ایسا کچھ بھی ابھی تک نظر
نہیں آرہا جو کہ مسلم لیگ (ن) کے لیے خطرے کا الارم ہے ۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی بھی میدان میں آچکی ہے اور کہا جاتا ہے کہ جب پیپلز
پارٹی میدان میں آتی ہے تو بساط الٹ جاتی ہے اور اب تو وہ باقاعدہ جلسوں کا
اعلان کر چکی ہے ۔ثالثی پارٹیاں ویسے ہی اپنی سیاست چمکانے کے لیے روز اول
سے سرگرم عمل ہیں ۔
اب اس حقیقت سے انحراف ممکن نہیں رہا کہ سٹریٹ شوز ،دھرنے ،جلسے اور جلوس
در پردہ تصادم کی صورت حال پیدا کرنے کے لیے مؤثر حکمت عملی کا کام کریں گے
اور نازک صورت حال کے پیش نظر سول انتظامیہ کو ایکشن لینا پڑے گا اور پھر
الیکشن کا انعقاد آسان ہو جائے گا ۔یعنی ایک بار پھر عوام کو فیصلہ کرنا
پڑے گا کہ کون مسیحا ہوگا ‘مگر کیا اس وقت جو لوگ منظر عام پر ہیں ان میں
سے کوئی ایسا ہے جو کہ اس اقتدار کی مقدس دستار پہننے کے لائق اور حقدار ہے
؟اس لیے اس نازک دور سے نپٹنے کی ایک ہی صورت ہے جو کہ وطن عزیز کی سالمیت
اور ملکی فلاح و بہبود کے لیے وقت کی ناگزیر ضرورت ہے ۔
موجودہ بگڑے ہوئے حالات کے تدارک کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کواس پر آمادہ
ہونا پڑے گا کہ ان کے تمام عزائم اور ارادے ایک ہی مقصد پر مرتکز ہوجائیں
اور وہ نفس واحد کی طرح زندہ رہیں اور ان کی جد و جہدکا محور وطن عزیز اور
اس کی فلاح و بہبود میں پوشیدہ ہو ۔کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم لوگوں میں بھی
وہی اشتراک عمل پیدا ہو جائے ،جس کی ازخود نشونما ہوتی ہے ؟مادی اغراض کو
ذبح کر کے خود کو بڑے مقاصد کے لیے وقف کیجئے ،اپنے اسلاف اور اسلام کا
مطالعہ کیجئے کیونکہ جب جب مسلمانوں پر کوئی مشکل پڑی ہے اسلام نے ہی آڑے
وقتوں میں اسے سربلندی اور کامیابی عطا کی ہے ۔
میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتی ہوں اگر آج بھی آپ اپنی نگاہیں اسلام پر جما
دیں تو آپ کی منتشر اور پراگندہ قوتیں ازسر نو یکجا ہوجائیں گی اور آپ کا
وجود ہلاکت و بربادی سے محفوظ رہے گا ۔آپ کو سمجھنا ہو گا کہ قوموں کے مقدر
سنوارنے کے لیے مادیت سے روحانیت کی طرف سفر کرنا پڑتا ہے اور قربانیاں
دینی پڑتی ہیں ۔تلواروں کے سائے میں شجاعت سے لڑنا پڑتا ہے‘ پھر امامت میسر
آتی ہے جیسے آپ قوم کا مقدر سنورانے چاہتے ہیں‘ ایسے مقدر نہیں سنورتے
‘ایسے صرف لوٹ مار کی جاسکتی ہے اوراگرآج آپ سب نے اپنی موجودہ روش نہ بدلی
تواس ملک کی داستان بھی نہ رہے گی داستانوں میں !ذاتی عناد و دشمنی کو بھلا
کر خود کو وطن عزیز کے لیے وقف کریں ان ڈائیلاگ بازیوں سے کوئی فرق نہیں
پڑنے والا کیونکہ
طوفان نوح لانے سے اے چشم فائدہ
دو اشک بھی بہت ہیں اگر کچھ اثر کریں
آج مسئلہ یہ نہیں کہ مڈ ٹرم الیکشن وقت کی ناگزیر ضرورت ہیں آج سوال یہ ہے
کہ مڈ ٹرم الیکشن سے عوام کو کیا فائدہ حاصل ہوگا ؟؟؟ |