اب فیصلہ کرنا ہوگا

ہمارے اس وطن پاکستان کو مارض وجودمیں آئے ہوئے67 برس تو بیت گئے لیکن شاید ایسا لگتاہے کہ ہم اب بھی غلام ہیں۔علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا کیا یہ وہی ملک ہے۔قائد اعظم کی دن رات کی کاوشوں کے نتیجے میں بننے والا پاکستان آج تیزی کے ساتھ پستی کی طرف گامزن ہے اورہم خاموشی کے ساتھ صرف اس کے لٹنے کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔شاید آج وہ لوگ بہت کم زندہ رہ گئے جنہوں نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا ۔آج اس ملک میں نیو جنریشن ہے جوشاید آزادی کی نعمت کو صرف کتابوں تک ہی جانتی ہے۔یہی وجہہ ہے کہ ہمیں آج آزادی کی قدر نہیں رہی یا ہم لوگ اب غلامی کے عادی ہو چکے ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے ہم انگریزوں کے غلام تھے اور اب حکمرانوں کے۔آج جب میں اپنے وطن کے حالات دیکھتا ہوں تو یقین مانیے ایسا لگتا ہے کہ یہ سب ایک بھیانک خواب ہے ایک نہ ایک دن یہ خواب ختم ہو جائے گا اورحقیقت میں میراوطن پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔پر نہ جانے کیوں یہ خواب ہے کہ ختم ہوتا ہی نہیں۔ کیونکہ یہ حقیقت ہی تو ہے۔ اس وطن کا ہر انسان اپنے ملک سے محبت توکرتا ہے اور سب کی خواہش بھی یہ ہی ہے کہ یہ وطن تیزی کے ساتھ ترقی کی بلندیوں کو چھوئے پھر کیا وجہہ ہے کہ یہ روز بروز پستی کی طرف گامزن ہے۔اگر ہم وجہہ جاننے کی کوشش کریں تو ہمیں صاف نظر آئے گاکہ حکمرانوں نے اسے لوٹ کر کنگال بنا دیا پر ان کا پیٹ ہے کے بھرتا ہی نہیں۔شاید سویس بنک بھی ان کے لیے ہی بننے ہیں۔

عوام بے چاری توغربت اور بے روز گاری میں بھٹک رہے ہیں اور غریب عوام کے مقدر میں زلت و رسوائی کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔لوگ بے روزگاری کے باعث دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے چوریوں میں لگ رہے ہیں حکمرانوں کو اپنی پڑی ہے جبکہ پاکستانی قوم جرائم میں مبتلا ہوتی چلی جا رہی ہے۔ہمارے بڑے بڑے شہروں میں اوپن وارداتیں ہوتی ہیں چند مسلح لوگ اسلے کے زور پر عوام کے سامنے سب کچھ چھین کر لے جاتے ہیں اور لوگ یہ سب تماشا اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ کر بھی کسی کی مدد نہیں کر پاتے کیوں کہ زندگی ہر ایک کو پیاری ہوتی ہے۔ہمارے اندر پاکستانیت تو دور کی بات مسلمانیت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے اور ہمیں بزدل سے بزدل تر بنایا جا رہا ہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ اب گمراہی بڑھتی چلی جا رہی ہے اورہمارے پاس بھی تماشا دیکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں چھوڑا گیا۔ حکمران امیر سے امیر تر اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

اب ایسی صورت حال میں کیا ہو سکتا ہے مجھ جیسا ایک عام انسان تو شاید یہ نہیں جانتاپر مجھے اتنا ضرور پتا ہے کہ اگر مسلمانوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو ہمیں یہ پتہ چلے گا کہ جب بھی مسلمانوں پر کوئی برا وقت آیا ہے تو اﷲ نے ضرور کوئی نہ کوئی مسیحا ان کی مدد کے لیے بھیجا ہے۔جس نے انہیں اس ازییت بھری زندگی سے نکا لا ہے۔

آج کے دور میں ہم اگر دیکھیں تو اس وقت ہمیں طاہرالقادری اور عمران خان صاحب کی شکل میں مسیحا نظر آرہے ہیں۔پر اس ملک کا تو رواج ہے کہ حق کی آواز کو ہمیشہ دبایا جاتارہا ہے اسی لیے آج بھی یہی کوشش زورو شور سے جاری ہے اور چند بے شعور لوگ بھی ان کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔حکمراں مل کر ان کی جان کے درپے ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے قوم کو جو سمجھ اور فکر دی ہے اس سے زیادہ تر قوم تو جاگ ہی چکی ہے پر یہ بھی ماننا ہو گا کہ قوم اس وقت دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کی بہت زیادہ کمی ہے اور بہت لوگ اپنے آباؤ اجداد سے حاصل شدہ انا پرست نظام پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ حق اور باطل کی پہچان کیے بغیر اندھی تقلید کرتے نظر آتے ہیں ۔یہ سب جانتے بھی ہیں کہ حکمران اقتدار میں آنے کے بعد انہیں گھاس بھی نہیں ڈالیں گے اور حکمرانوں کے سامنے ان کی حیثیت کیڑے مکوڑوں اور بھیڑبکریوں کی طرح ہے پر یہ اپنے آباو اجداد کی دی ہوئی پارٹی کیسے چھوڑیں۔ جیسا کہ انہوں نے آنکھیں بند کر کے انہیں لایا تھا۔ حکمراں صرف الیکشن کے دنوں میں ان کے پاس آتے ہیں اور بعد میں ایسا سلوک کرتے ہیں جیسے ٹیشو پیپر کو استعمال کر کے پھینک دیاجاتا ہے۔

بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی کیونکہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مثلہ تو تفرقہ واریت ہے۔اس کی مثال میں ہم ڈاکٹر طاہرالقادری کو ہی لیتے ہیں کہ ملک میں موجود بہت سے لوگوں نے ڈاکٹر صاحب سے صرف اس لیے دشمنی کی ہوئی ہے کہ وہ ان کے فرقے سے تعلق نہیں رکھتے اور وہ لگے ہوئے ہیں دن رات اپنی دشمنی نبہانے اور فیس بک اور ٹیوٹر جیسی ویپ سائیڈز پران کے خلاف ایک مہم چلائی ہوئی ہے اب ڈاکٹر صاحب لاکھ اس ملک سے فرقہ واریت کے خاتمے کی بات کرتے رہیں پر انہیں اس سے کیا یہ سب تو فرقہ واریت کا خاتمہ نہیں چاہتے نا بلکہ یہ تو اپنا فقہ سب پر نافز ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں پھر ہم لاکھ کہتے رہیں کہ اس ملک میں سب کو مزہب اور فقہ کی آزادی ہے کہ وہ جس فرقے یا جس مزہب میں جے سکے۔ اور تو اور ہمیں تو اﷲ کے قرآن کی نصیحتیں بھی بھول چکی ہیں۔مشہور آیت ہے کہ(اﷲ کی رسی کو مظبوطی سے تھامے رکھو اور آپس میں تفرقہ مت پھیلاؤ) یا تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ پر ہمیں ان نصیحتوں سے کیا لینا۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ انڈیا کے مسلمانوں میں آج تفرقہ واریت کیوں کم ہے۔اگر سوچیں تو پتہ چلے گا کہ جب ان کا پالا ہندؤں اور سکھوں جیسے دوسرے مزاہب کے لوگوں سے پڑا ہے اور آپس کی لڑائی کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ہم نے آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور آپس میں ہی لڑنا شروع کر دیا۔

اب پھر کیا کیا جائے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ قوموں میں انقلاب کے لیے پوری قوم کو جاگنا ہوتا ہے اور اپنے حق کے لیے لڑنا ہوتا ہے۔ ہمارا حال تو اب بھی وہ سامنے چوری ہوتا دیکھ کر تماشا دیکھنے والا ہے ہم آج بھی طاہرالقادری ، عمران خان اور ان کے لوگوں کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔جیسے کوئی مووی چل رہی ہو۔ پر ہمیں شاید اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا اس ملک کو بدلنا ہے یا ہماری آنے والی نسلیں بھی غلام ہی رہیں گی۔قوموں میں روز روز مسیحا پیدا نہیں ہوتے ۔اگر اﷲ نے کسی کو بھیج دیا ہے تو ان کی قدر کرنا ہو گی
اٹھو اور اپنے حق کے لیے آواز بلند کرو کیونکہ یہ مٹھی بھر لوگ عوام کی طاقت کے سامنے نہیں ٹھر سکتے
فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں
پر
اب فیصلہ کرنا ہو گا
Nasir
About the Author: NasirCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.