توہین ِ عدالت یاد ہے مگر توہین ِ آ ئین کیوں نہیں؟

توہین عدالت سے مراد ہے عدالت کی توہین کرنا ، عدالت کی بے حرمتی کرنا ، نا فرمانی کرنا اور مداخلت کرنا وغیرہ کے ہیں ۔ پاکستان کی آئین کے مطابق عدالتوں کو کسی ایسے شخص کو بھی سزا دینے کااختیا ر ہوگا جو عدالت کے کام میں مداخلت کرے اس میں رکاوٹ ڈالے یا عدالت کے کسی حکم کی تعمیل نہ کرے ۔ عدالت کے بارے میں سکینڈل بنائے یا کوئی ایسا کام کرے جس سے عدالت یا کسی جج کیخلاف نفرت پیدا ہو یا اس کی توہین ہوتی ہے ۔ تو عدالت ایسے شخص کے خلاف قانون کے ہی دائرہ میں نوعیت کے مطابق سزا دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے ۔ توہین عدالت بہت سے اﷲ پناہ عطا فرمائے ۔میں ایک عدنا سے کالم نویس میں توہین عدالت کے بارے سوچ بھی نہیں سکتا ہے ۔ پاکستانی عدالتوں کے فیصلے میرے نظر میں پتھر پر لکیر ہیں ۔نہ ہی میں عدالت کے خلاف کوئی نفرت امیز بات کرنے کا طاقت رکھتا ہوں۔ لیکن عدالت کی بارگاہ میں عرض کرنے کا حق ضرور رکھتا ہوں ۔ توہین عدالت کی وجہ پاکستان وقت کے امیر المو منین ریاست کے سپر پاور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کی بنااپنے عہدے سے ہٹایا گیا تھا مجھے بہت خوشی محسوس ہوا تھا کہ توہین عدالت کی سزا ایک عام آ دمی کے ساتھ ساتھ وقت کے سپر پاور فرد کے لئے بھی لا گو ہوتا ہے بلکہ ہوا ہے ۔ توہین عدالت کیس میں عمران خان سمیت دیگر کئی سیاسی شخصیات نے عدالتوں کے سامنے معافیاں مانگی ہیں۔

توہین عدالت پر سزا ملتا ہے لیکن توہین پر کیوں سزا نہیں ملتا ہے ۔توہین ِ آ ئین سے مراد آ ئین کی توہین کرنا ، مداخلت کرنا ، نافرمانی کرنا اور اس کی بے حرمتی کرنا کے ہیں۔ پاکستان میں توہین ِ آ ئین بہت عام ہو چکا ہے ۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہر شخص اس جرم میں ملوث ہے ۔ جن کے لئے بنائی جا رہی ہے تو ملوث ہیں لیکن افسوس کی بات ہے وہ لوگ جو آئین بناتے ہیں وہ بھی اس کی توہین کرتے ہیں اور تو اور وہ لوگ بھی جو آ ئین نافذ کرتے ہیں سب سے زیادہ وقت تو یہ ملوث ہوتے ہیں ۔ کہنے کا مقصد ہے عوام آ ئین کی نا فرمانی کرتا ہے ۔ اُوہ میں تو بھول ہی گیا کہ وہ لوگ جو آئین اٹل فیصلے کرتے ہیں کبھی کبھار یہ بھی ملوث ہوتے ہیں۔

یہاں نوٹ کرنے کے لئے چار اہم طبقے سامنے آ تے ہیں ایک وہ طبقہ جس کے لئے خصوصاََ آ ئین بنا ئی جاتی ہے جسے ہم عوام الناس کہتے ہیں ۔ دوسرا وہ طبقہ جو آئین سازی کرتا ہے مزید آئین میں ترامیم و تخلیق کرتا ہے جسے ہم سیاسی حکومت یا ارکان اسمبلی کہتے ہیں ۔ تیسرا وہ طبقہ جو آ ئین سازی کے بعد عمل در آ مد کرواتا ہے ۔ گرفت میں لیتا ہے خلاف ورزی پر سزا دلواتا ہے جسے ہم پولیس اور فوج کہتے ہیں ۔ اور چھوتا وہ طبقہ جو آ ئین کے مطابق سزا و جز ا کا اٹل فیصلہ کرتا ہے ۔ دو فریق میں انصاف فراہم کرتاہے ۔ مثال کے طور پر ایک بندے پر کسی کی جان و مال کی نقصان کا الزام ہو تو بندے کو پولیس حراست یا گرفت میں لیتا ہے اور عدالت میں پیش کرتا ہے جو ملزم کی تفتیش کر کے فیصلہ سنا تا ہے کہ ملزم مجرم ہے یا نہیں ، تو اسکی سزا و جزا کا فیصلہ کرتا ہے کہنے کا متن عدالتیں ہیں۔

مثال کے طور پر پہلا طبقہ عوام ٹریفک کے رول کے خلاف ورزیاں کرتا ہے ۔کسی کا جیب مارتا ہے یا کوئی بھی چور ی کرتا ہے تو پکڑا جاتا ہے اور اسکی سزا ہوتی ہے ۔ دوسرا طبقہ سیاسی حاکموں کا ہے جو قانون سازی کرتے ہے ۔ ٹریفک کے خلاف ورزیاں ہزار بار کرے تو بعض اوقات ٹریفک افسران الٹا سلامی پیش کرتے ہیں ۔ یا کوئی اور جرم کریں تو کسی گرفت نہیں ۔ اگر ہے تو کوئی سزا نہیں ۔

تیسرا طبقہ جو قانون نافذ کر واتے ہیں پولیس : چھوتا طبقہ جج و وکلا ء حضرات کا ہے ۔ میں نے اکثر دیکھا ہے۔ پولیس افسر ، حکمران اور جج کی گاڑی کے کراسینگ کے لئے روٹ کو روکا جاتا ہے ۔ کیا یہ درست ہے ؟ نہیں رول سب کے لئے یکساں ہوتا ہے ۔ برابر ہوتا ہے ۔

ٹریفک میں چار گاڑیاں گز رہے ہیں جن میں ایک عوام کا ، دوسرا حاکم کا ، تیسرا پولیس افسر کا اور چھوتا کسی جج یا وکیل کا تو زیادہ تر زیادہ جگہوں میں ایک گاڑی پر چالان ہوتا ہے وہ عوام کا گاڑی پر ۔ پولیس افسر کی گاڑی پر کوئی ٹریفک خلاف ورزی کی چالان نہ ہوا ہے نہ ہوگا۔ نہ کسی سیاست دان یا حکمران کا گاڑی پر کبھی ایسا کوئی چالان ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ اور نہ کسی جج کی گاڑی پر آ ج تک کوئی چالان ہوا ہے نہ ہی ہوگا۔ یہ ہر گز نہیں کہ یہ لوگ ٹریفک خلاف ورزیاں نہیں کرتے ہیں ۔ کرتے ضرور ہیں لیکن ان کے ساتھ رعا یت ہوتی ہے ان کا نام ہی کافی ہے ۔ صرف ٹریفک میں نہی زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی عوام کے علاوہ باقی طبقات کے ساتھ بہت رعایت ہوتی ہے ۔
تھا میں اک روز ٹریفک پولیس کے گرفت میں
سمجھ میں مجھے نہیں آ یا کہ گستاخ ِ ٹریفک ہے کون

قانون سب کے لئے برابر ہوتا ہے ۔ اگر پولیس ، حاکم یا جج کے ساتھ رعا یت کا سلسلہ ہوتا ہے تو عوام کے ساتھ کیوں نہیں ہوتا ہے ۔ ہاں عوام کے ساتھ رعایت ہو اور پولیس ، حکمران اور جج و وکلاء کے ساتھ رعایت کا سلسلہ نہ ہو یا کم ہو تو بات بنتی ہے کیونکہ پولیس ، حکمران اور جج و و کلاء قانون کے بارے میں جانتے ہیں جبکہ عوام میں کثیر تعدا د میں قانون کے مکمل روشناس نہیں ہیں ۔ لا علم کے ساتھ رعایت کرنا غلط نہیں ہوگا۔ علم والے کے ساتھ رعایت کرنا قانونی شکنی ہے ۔
ہوتا ہے یکساں عدالت انصاف میں اکثر
غریب بھی قطار میں تو حکمران ِ وقت بھی

بحرحال ! کہانی مختصر کہ پاکستان میں توہین عدالت پر سختی سے عمل در آ مد ہوتا ہے تو توہین ِ آ ئین پر تمام افراد سے حساب لیا جائے اور برابر قانون نافذ کیا جائے تو درست ہوگا بلکہ اس سے اصل تبدیلی آ ئے گی ۔ جس طرح تو ہین عدالت پر وزیر اعظم ِ وقت سید یو سف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے تو توہین آ ئین پر بھی وزیر اعظم سمیت تمام پر فرد اس طرح کی سخت قانون بنانے کی ضرورت ہے۔ ٹریفک کے قوانین یا پولیس کے۔۔ قوانین ہیں لیکن کچھ لوگوں کو جلدی میں گرفتار کیا جاتا ہے سز ا کے بعد چھوڑا جاتا ہے تو کچھ لوگوں کو گرفتار کرنے کے بجائے پہلے ہی چوڑا جاتا ہے ۔ رعایت کی شکل میں روشوت کی ۔ لیکن چھوڑا ضرور جاتا ہے ۔ اس مراد توہین عدالت کے ساتھ ساتھ توہین آ ئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بھی سزا دینی چاہیے بھلے وہ وزیر اعظم ہو پولیس افسر ۔
ASIF YASIN LANGOVE
About the Author: ASIF YASIN LANGOVE Read More Articles by ASIF YASIN LANGOVE: 49 Articles with 51307 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.