سانحہ ملتان ذمہ دار کون؟

ملتان کا سانحہ بجا طور پر ایک بہت بڑا انسانی المیہ ہے جس میں قیمتی انسانی جانیں محض بدانتظامی کی وجہ سے ضائع ہوئی ہیں جانے یہ لوگ کتنے گھروں کے کفیل اور کیسے کیسے پس منظر سے تعلق رکھتے تھے ۔اس قسم کے المناک حادثات دنیا بھر میں وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں لیکن ملتان کا واقعہ اس لیئے بھی زیادہ المناک ہے کہ اس کے بعد حکومت اور تحریک انصاف دونوں ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہی ہیں اور معاملہ کو سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے جو کہ کسی طور بھی مناسب نہیں کیونکہ اس حادثہ میں جان بحق ہونے والوں کی سب سے پہلی پہچان انسان ہونا ہے پھر وہ مسلمان اس کے بعد پاکستانی اور پھر کہیں جا کر وہ سیاسی کارکن تھے مطلب ان کی اموات کا موضوع بحث وہ نسبت بنی ہوئی ہےہے جوکہ چوتھے اور آخری نمبر پر آتی ہے۔واضح طور پر اس حادثہ کی ذمہ داری انتظامیہ اور تحریک انصاف دونوں پر عائد ہوتی ہے اور صورتحال ایک مناسب انکوائری کا تقاضا بھی کرتی ہے کیونکہ اس واقعہ میں انسانہ قیمتی جانیں گئی ہیں اورمستقبل میں اس قسم کے افسوسناک واقعات سے بچاؤ کے لیئے یہ تحقیقات انتہائی معاون ہو سکتی ہیں کیونکہ سیاست کے علاوہ بھی ملک میں بڑے اجتماعات ہوتے رہتے ہیں جیسا کہ میچز ،اور مذہبی تہوار اور اجتماعات جن میں ایسی پریشان کن صورتحال اکثر پیش آجاتی ہے اور کئی بار قیمتی جانیں بھی چلی جاتی ہیں اور بے ہوش اورزخمی ہونے والے تو اتنی بڑی تعداد میں ہوتے ہیں کہ شمار ممکن نہیں لیکن اس معاملہ کو بد قسمتی سے اس طرح ہینڈل کیا جاتا ہے کہ اول تو انکوایری ہی نہیں ہوتی اور اگر ہو تو وہ اس قدر نامکمل اور بے جان ہو تی ہے جو کہ محض خانہ پری کے کام آتی ہے او ر فائلوں کی تہہ میں دب کر رہ جاتی ہے اب آئیے اس موضوع کو ذرا ٹیکنیکل انداز میں دیکھا جائے توحادثہ ہوجانے کے بعد جو سب سے تکلیف دہ مناظر دیکھنے کو ملے وہ انتہائی افسوسناک تھے ظاہر ہے ملک سے دور سمندروں کے فاصلے میڈیا کے ذریعے سے سمٹ رہے تھے لوگ دھڑا دھڑ گرتے جا رہے تھے ایک دوسرے میں پھنسے ہوئے تھے اندر والے باہر اور باہر والے اندر جانے کی کوشش میں ایک دوسرے کو دھکیل رہے تھے اوران پر فائر برگیڈ پانی پھینک رہا تھا جس کی وجہ حبس بتائی جارہی تھی لیکن کیا کوئی ذی شعور ایسا بھی تھا جو سوچتاکہ پانی کی یہ بوچھاڑ کس قدر بھگدڑ کا باعث بنی ہو گی یہ ایسا عجیب منظر تھا جو بذات خود ایک عجوبہ تھا اور پھر جو زخمی نکالے جا چکے تھے ان میں سے بھی صرف ایک کو بنیادی طبی امداد موقع پر دی گئی یا کم سے کم میں دیکھ سکا اور وہ بھی جانے کتنی دیرکے انتظار کے بعدکم سے کم میڈیا پر لائیو دیکھتے ہوئے دس منٹ سے زیادہ کا وقت گذر چکا تھاجب ریسکیو اہلکار اس کی سانس بحال کرنے کی کوشش کر رہا تھا اس سے پہلے بھی یہ دلخراش مناظرہماری آنکھ دیکھ چکی ہے کہ جب عمران خان لفٹ سے گرے تھے اسلام آباد میں سکندر نامی حملہ آور کو گولیاں ماری گئیں ماڈل ٹاؤن اور شاہراہ دستور پر بھی یہ مناظر دیکھنے کو ملے پھر بم دھماکے اور ایکسیڈنٹس تو آئے رز پاکستان میں ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن ان تمام متاثرین کواکثر جس طرح ریسکیو کیا جاتا ہے وہ بذات خود ایک حادثہ سے کم نہیں خاص طور سے عمران خان جس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹی تھی اور سکندر جس کو گولیاں لگی تھیں انکو کندھوں پر لادکر جس طرح لے جایا گیا وہ نظارہ دیکھنے کے لائق تھا مطلب اتنے بڑے حادثات کے وقت انتظامیہ کی بھاری نفری میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو کہ فرسٹ ایڈ اور بنیادی ریکوری کے مسائل سے آگاہ ہوتا مریض کی ااس طرح کی ٹریٹمنٹ اکثر اتنی خطرناک ہوتی ہے کہ اموات کی وجہ بن جاتی ہے یا مستقل معذوری کا سبب بن جاتی ہے یہ موضوع بذات خود ایک لمبی داستان ہے جس پر پھر کبھی تفصیلی بات ہو گی لیکن آج کا موضوع ملتان کا حادثہ ہے تو چند سوالات دماغ میں پیدا ہوتے ہیں بدقسمتی سے جن پر میڈیا میں ابھی تک کسی نے بات تک نہیں کی جیسا کہ کیا جلسہ کی منظوری دیتے یا لیتے وقت ملتان کے موسم اور شرکاء کی تعداد کا اندازہ کیا گیا تھا اور یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ اتنے افراد کی آمد کی صورت میں ایک بند احاطے میں انسانوں کے جسم اور بجلی کے طاقتور بلب کس قدر حرارت پیدا کریں گے اور درجہ حرارت کس قدر بڑھ جائے گا ؟ اتنے افراد کے لیئے حبس کے موسم میں پانی کی فراہمی ممکن کیسے ممکن بنائی جائے گی کہ ان کے جسم پانی کی کمی کا شکار نہ ہو جائیں ؟(بدقسمتی سےیہ دونوں سوالات تو ایسے ہیں جن کے بارے میں ہم پسماندہ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے جواب کیا خاک آنا ہے)لیکن ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے اور خاص طورپر ایک روز پہلے ملتان میں ہونے والی سیاسی چپقلش کے بعد کیا ان امور پر توجہ دی گئی کہ خدانخواستہ کسی حادثہ جیسے دھماکہ یا آگ وغیرہ کی صورت میں اگر بھگدڑ مچ جائے تو سیف ایگزٹ یا وہ کون سے محفوظ راستے ہوں گے جو کھولے جائیں گے کیا ان راستوں کی نشاندہی اور ان سے متعلق شرکاء کو آگاہ کیا گیا ؟کیا کسی حادثہ کی صورت میں مناسب انتظامات کئے گئے تھے کہ وہاں کتنے فرسٹ ایڈر کتنے نرس اور کتنی تعداد میں ڈاکٹرز متعین ہوں گے اور کس قدر ایمبولینسززوہاں سٹیند بائی حالت میں موجود رہیں گی ؟بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی انتظامی کمیٹیاں ان امور کی نشاندہی میں ناکام رہیں لیکن ان کو شک کا فائدہ دیا جا سکتا ہے لیکن کیا تربیت یافتہ اور ہمارے ٹیکس کی رقم سے تنخواہ لینے والی انتظامیہ کو بھی اس معاملے میں معاف کیا جاسکتا ہے جس کی لاپرواہی کی یہ حالت تھی کہ مریضوں کو موٹر سایئکلوں پر لایا ہسپتال لایا گیا جن میں سے کچھ کو جب اتارا گیا تو وہ خالق حقیقی سے جا ملے تھے کیا انتظامیہ کا یہ مؤقف قابل تسلیم ہے کہ جلسہ گاہ کے اندر کی سیکیورٹی کی ذمہ دار تحریک انصاف تھی ؟ لیکن حادثہ کے بعد انتظامیہ نے وہ کون سا تیر مار لیا کہ وہاں باہر ان کی موجودگی کی دھاک بیٹھ گئی ہو ؟میں اپنے الفاظ کے اختتام پر یہ بجا طور پر کہہ سکتا ہوں کہ ایسا واقعہ دنیا کے کسی اور ملک میں پیش آتا تو پولیس ،ریسکیواور شہری دفاع کے محکموں کے ذمہ داران اور وزرا ءکو اپنی جان چھڑانا مشکل ہو جاتا لیکن یہ پاکستان ہے اور تحریک انصاف کے پھر کھلے میدان کی بجائے سرگودھا میں بھی سپورٹس گراؤنڈ میں جلسہ کی اجازت دی گئی ہے خدا کرے وہاں ایسا کوئی حادثہ رونما نہ ہو۔
M Noman Umar
About the Author: M Noman Umar Read More Articles by M Noman Umar: 5 Articles with 2841 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.