پاکستان: امریکی ڈرون حملوں میں اچانک تیزی

پاکستان میں امریکا نے اچانک ڈرون حملوں میں اضافہ کردیا ہے۔ عید قرباں کے موقع پر بھی امریکا نے ڈرونز کی یلغار کر کے پاکستانی شہریوں کی خوشی کو غمی میں تبدیل کیا۔ امریکی ڈرون حملوں کی یلغار عید الاضحی سے ایک روز قبل شروع ہوئی اور تقریباً چالیس افراد کی جان لے گئی۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران امریکا سات ڈرون حملے کر چکا ہے۔ پہلا ڈرون حملہ پانچ اکتوبر بروز اتوار شمالی وزیرستان کی تحصیل شوال کے علاقے کند گھڑ میں کیا گیا، جس میں پانچ افراد جاں بحق ہوئے۔ پیر 6 اکتوبر کو شوال تحصیل میں کیے گئے دوسرے ڈرون حملے کے نتیجے میں آٹھ افراد مارے گئے۔ منگل 7 اکتوبر کو دو ڈرون حملے کیے گئے۔ پہلا حملہ تحصیل شوال میں ہوا جس میں ایک مکان پر دو میزائل پھینکے گئے۔ اس ڈرون حملے نے سات افراد کی جان لی۔ جبکہ دوسرا حملہ تحصیل دتہ خیل کے علاقے ماداخیل کنر سر میں ہوا، جس میں تین افراد ڈرون حملے کا نشانہ بنے، جبکہ پانچ کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ جمعرات 9 اکتوبر کو کیے گئے پانچویں امریکی ڈرون حملے میں پانچ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ جبکہ ہفتے کو امریکی ڈرون طیارے نے دو میزائل فائر کر کے متعدد افراد کی جان لے لی۔ واضح رہے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران امریکا کی جانب سے کیا جانے والا یہ ساتواں اور رواں سال کے دوران کیا جانے والا 14 واںڈرون حملہ تھا۔ رواں سال اب تک 90 سے زاید افراد امریکی ڈرون حملوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ امریکا نے ڈرون حملوں کا یہ سلسلہ کئی ماہ کے بعد اچانک شروع کیا ہے، مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا کا یوں اچانک پاکستان میں مسلسل ڈرون حملے کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس سے پہلے ڈرون حملوں میں ایک بڑا وقفہ آیا تھا تو پاکستان کے عوام یہ سمجھے کہ شاید اب ڈرون حملے ٹل گئے ہیں۔ یہ بڑا اور طویل وقفہ 26 دسمبر 2013 کے حملے کے بعد آیا تھا۔ اس حملے میں دو میزائل فائر ہوئے تھے۔ اس کے بعد اگلا حملہ 14 مئی 2014 کو ہوا، جس میں ڈرون نے 3 میزائل فائر کیے۔ اس کے بعد تقریباً ہر ماہ ایک سے تین ڈرون حملے ہوئے، لیکن پچھلے ایک ہفتے کے دوران پانچ حملے ایک ریکارڈ ہیں، اس سے پہلے کبھی ایک ہفتے میں اتنے زیادہ حملے نہیں کیے گئے تھے۔ پاکستان میں دس سال سے زاید عرصے سے ڈرون حملے کیے جارہے ہیں۔ ڈرون حملہ پہلی دفعہ 18 جون 2004 کو جنوبی وزیرستان کے شہر وانا کے نزدیک ایک گھر پر کیا گیا تھا۔ اس کے بعد مختلف وقفوں سے حملے جاری رہے۔ دسمبر 2013 تک کل 369حملے کیے گئے، لیکن بیورو آف انویسٹیگیٹو جرنلزم کے مطابق ان حملوں کی تعداد 381ہے۔ ان حملوں میں 3646لوگ مارے گئے۔ مرنے والے بچوں کی تعداد 200ہے۔ اس کے علاوہ 1557زخمی ہوئے۔ ایک تنظیم انٹرنیشنل سیکورٹی کے تجزیے کے مطابق سابق صدر بش کے دور اقتدار میں پاکستانی علاقوں میں صرف 48 حملے کیے گئے، جبکہ صدر اوباما کے دور حکومت میں 335سے زاید مرتبہ ڈرون حملے ہوئے۔ انٹرنیشنل سیکورٹی نے ان اعداد و شمار سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ امریکی پالیسیاں تسلسل سے چلتی ہیں اور ان کی تبدیلی حالات و واقعات اور قومی ترجیحات کے مطابق ہوتی ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ ڈرون حملوں کی پالیسی سے اختلاف کیا ہے اور ان کی مذمت کی ہے۔ اسے پاکستان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی بھی تصور کیا گیا ہے، لیکنان حملوں کی روک تھام کے لیے کوئی مو ¿ثر آواز بھی نہیں اٹھائی گئی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مختلف ادوار میں آنے والی حکومتیں بھی اس پالیسی سے واضح طور پر نہیں تو کم از کم خفیہ طور پر ہی اتفاق ضرور کرتی ہیں۔ مبصرین کے مطابق پاکستانی حکومتیں صرف مذمتوں سے ہی کام چلانا چاہتی ہیں۔ اب کی بار تو پاکستانی حکومت نے مسلسل ہونے والے ان سات حملوں کی مذمت تک کرنا گوارا نہیں کی۔ ابھی تک وزیر اعظم کا اس حوالے سے کوئی بیان تک نہیں آیا۔ حالانکہ یہ حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ بہت سی امریکی تنظیمیں بھی ان حملوں کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت تصور کرتی ہیں۔ اقوام متحدہ کئی بار ان حملوں کو خلاف قانون اور ناجائز قرارد ے چکی ہے۔ بہت سی تنظیمیں انہیں انسانی حقوق کے خلاف سمجھتی ہیں اور انہیں امریکی جنگی عزائم سے تشبیہ دیتی ہیں۔ جبکہ بعض تنظیموں نے تو اس حد تک کہا ہے کہ ایسے حملے کر کے امریکا دوسرے ممالک میں جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے فوری بند کر دے، کیونکہ ڈرون حملے عالمی قوانین کے خلاف ورزی اور جنگی جرائم کے مترادف ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جاری رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ 2004 اب تک امریکا پاکستان کے قبائلی علاقوں میں 400 سے زاید ڈرون حملے کر چکا ہے ہے جس میں بچوں اور معمر افراد سمیت کئی بے گناہ شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا ڈرون حملوں نے امریکا کو قتل عام کا لائسنس دے دیا ہے۔ ہلاکتوں پر امریکا کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا جا سکتا ہے۔ امریکا ڈرون حملوں کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی جاری رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ امریکی ڈرون حملوں میں 2500 سے 3600 افراد اور بےگناہ شہری بھی مارے گئے ہیں۔ یہ رپورٹ ایک اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں جاری کی گئی تھی۔ ایمنٹسی کی تحقیق نے یہ ثابت کیا تھا کہ امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں مارے جانے والے افراد جنگی کارروائیوں میں ملوث نہیں تھے اور نہ ہی ان سے کوئی خطرہ تھا۔بلکہ شمالی وزیرستان کے شہری پاکستانی افواج اور مسلح جنگجوو ¿ں کے درمیان ہونے والی لڑائی کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ مقامی آبادی مستقل خوف کے عالم میں رہتی ہے اور دونوں جانب سے تشدد سے بچ نہیں سکتی ہے۔ ان حملوں کی وجہ سے مقامی لوگ ہر وقت اڑتے ڈرون طیاروں کی جانب سے حملے کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ ان کے علاوہ دنیا بھر کی متعدد تنظیمیں امریکی ڈرون حملوں کی پاکستان میں یلغار کو ناجائز قرار دیتی رہی ہیں۔ پاکستان میں تقریباً تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اور پوری پاکستانی قوم ڈرون حملوں کی مخالفت کرتی آئی ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ایک ایسے وقت میں امریکی ڈرون حملے ہوئے جب قبائلی علاقوں کے لوگ عیدالاضحی منا رہے تھے اور دوسری جانب علاقے سے نقل مکانی کرنے والے لاکھوں متاثرین اپنے گھروں سے دور بنوں، لکی مروت ، ڈیرہ اسماعیل خان اور کرک سمیت صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں مصائب ومشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کررہے ہیں، انتہائی نقصان دہ ہے۔ ان حملوں میں کون ماراجارہا ہے اور ان حملوں سے دہشت گردی کے خاتمے میں کتنی مدد مل رہی ہے اس بات سے قطع نظر پاکستان جیسے خودمختار ایٹمی ملک پراس طرح کے حملوں کو کسی طورپر بھی جائز اور قابل تحسین نہیں قراردیا جاسکتا۔ حکومت پاکستان اگرچہ ان ڈرون حملوں پر رسمی سا احتجاج تو کرتی ہے، تاہم حکومت نے کبھی سنجیدگی سے ان حملوں کی روک تھام کے لیے کوشش نہیں کی اور نہ ہی امریکا کواس حوالے سے کوئی سخت پیغام دیا ہے ،خود امریکی عہدیدار اور امریکی میڈیا بارہا یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہہ چکے ہیں کہ ان حملوں کے لیے انہیں پاکستانی حکمرانوں کی درپردہ حمایت حاصل ہوتی ہے۔شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب امریکااور مغربی ملکوں کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا اب جبکہ پاکستانی سیکورٹی فورسز شمالی وزیرستان میں کارروائی کررہی ہے اور علاقے میں پاک فوج بھی موجود ہے، ان حملوں کا کیا جوازباقی رہ جاتا ہے۔ امریکی جاسوس طیاروں کے یہ حملے اس لیے بھی قابل مذمت ہیں کہ پاک فوج کے سربراہ ان حملوں کے موقع پر خود شمالی وزیرستان میں موجود تھے، جبکہ جس رات پانچواں حملہ ہوا اس کی صبح وزیراعظم نوازشریف نے بھی شمالی وزیرستان کا دورہ کیا، جو کسی بھی سویلین وزیراعظم کا پہلا دورہ ہے ،امریکیوں نے پاک فوج کے سربراہ اور وزیراعظم پاکستان کی علاقے میں موجودگی کے باوجود پاکستانی سرحدوں کے اندر دراندازی اور حملے کر کے پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کو چیلنج کیا ہے۔امریکا کا ماضی اس بات پر شاہد ہے کہ اس نے ہمیشہ پاکستان کی ان کوششوں کو سبوتاڑ کیا جس کی وجہ سے خطے میں قیام امن کی راہ ہموار ہونے کا امکان تھا۔ ماضی میں جب بھی حکومت پاکستان نے قیام امن کے لیے مذاکرات کیے تو امریکا نے ان مذکرات کو ڈرون حملوں سے ناکام بنادیا۔ تاہم اگرڈرون حملوں کا یہ سلسلہ جاری رہا تو خدشہ ہے کہ ان حملوں کی وجہ سے آپریشن ضرب عضب کے ثمرات ضائع ہوجائیں اور اس مقصد کے لیے پاک فوج کے جوانوں نے جو قربانیاں دی ہیں اور لاکھوں قبائلیوں نے اپنے گھر بار چھوڑے ہیں ان کی کاوشیں دریا برد ہوجائیں۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے اپنی خاموشی کو توڑ کر جاندار موقف اپناتے ہوئے ان کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کرے اور امریکا پر دباﺅ بڑھائے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 641693 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.