کنٹرول لائن پر کشیدگی اور اسلام آباد میں دھرنے

 اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے کشمیر پر جواصولی موقف اپنایا اور اسے جس طریقے سے عالمی فورم پر اجاگر کیا، اس پر بھارت کس قدر سرپٹا یا، اس کا اندازہ گزشتہ چند روز سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی فوج کی مسلسل فائرنگ اور گولہ باری سے لگایا جاسکتا ہے۔گو کہ بھارت کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں سامنے آتی رہتی ہیں تاہم حالیہ واقعات میں شدت اسی وقت آئی جب دونوں ممالک کے وزیراعظم حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنے اپنے سخت موقف کا اظہار کرنے کے بعد واپس لوٹے۔میاں محمد نوازشریف نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بات کی ۔ ان کے خطاب کے بعد دنیا بھر کے مبصرین نے تسلیم کیا کہ کشمیر واقعی ایک حل طلب مسئلہ ہے اور اگر اس میں کسی قسم کی تاخیر کی گئی تو یہ نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ پوری دنیاکے امن پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ دوسری اہم بات مقبوضہ کشمیر میں حالیہ بارشوں سے جو تباہی و بربادی ہوئی اوربی جے پی حکومت نے کشمیری عوام کو مصیبت کی اس گھڑی میں جس طرح بے یارومددگار چھوڑا، اور لوگوں کے جان ومال کو بچانے میں جس قدر سردمہری کا مظاہرہ کیا گیا، اس پر مقبوضہ کشمیر کے عوام میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ بعض مبصرین کا یہ خیال بھی ہے کہ بھارتی حکومت نے تنقید سے بچنے اور اس سے توجہ ہٹانے کے لئے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ شروع کیا۔ وجوہات جو بھی ہوں، اس وقت دونوں ممالک کی سرحدوں پر شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں متعدد پاکستانی شہید اور کئی زخمی ہوچکے ہیں۔ مشین گنوں کی فائرنگ سے درجنوں مویشی ہلاک‘ 70 ہزار سے زائد افراد متاثر جبکہ 40 ہزار سے زائد علاقے سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔ فائرنگ کی وجہ سے درجنوں مکانات بھی تباہ ہوگئے۔

پاک فوج کی جوابی کارروائی کے بعد گو کہ بھارتی توپیں خاموش ہوگئیں تاہم بھارت کی جانب سے وقفے وقفے سے فائرنگ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ دوسری طرف سفارتی محاذ پر بھی پاکستان نے بھارت کی اس بلااشتعال فائرنگ پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔ جنگ بندی کی خلاف ورزی پر بھارت سے باضابطہ احتجاج کرتے ہوئے دفتر خارجہ نے سخت موقف کا اظہارکیا اور بھارت سے شدید احتجاج کیا۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے بھی بھارتی بلااشتعال فائرنگ پر گہری تشویش کا اظہار کیا اوربھارتی عزائم کے غور اور موثر جواب و حکمت عملی مرتب کرنے کے لئے کابینہ کمیٹی برائے دفاع کا اجلاس طلب کرلیا جس میں بھارت کی بلااشتعال فائرنگ پرغور کیا گیا۔ اجلاس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے سیالکوٹ میں چاروہ سیکٹر کے متاثرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت جارحیت بند کرے ورنہ وہ جواب دیا جائے گا کہ وہ ساری عمر یاد رکھے گا۔وزیردفاع خواجہ آصف نے بھی بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ کی مذمت کی اور کہا کہ ہماری بہادر مسلح افواج بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کو جب بھی موقع ملا اس نے پاکستان کو نقصان ہی پہنچایا۔ نریندر مودی نے اپنی پوری الیکشن مہم کو پاکستان دشمنی سے عبارت کرکے انتہاء پسند ہندوؤں سے ووٹ بٹورے۔اس نے اپنی انتخابی مہم میں جنونی ہندوؤں سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ قانون میں جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق شق ختم کر کے اسے عام ریاست کی طرح انڈین یونین میں ضم کریں گے۔بس یہی اہم نقطہ ہے جس کے تناظر میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر ہونے والے کشیدگی کو دیکھا جانا انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان ہمیشہ کی طرح اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات رکھنے کا خواہاں رہاہے۔ بھارت سے بھی پاکستان برابری کی دوستی چاہتا ہے تاہم دونوں ممالک کے درمیان تصفیہ طلب مسائل کا پرامن حل مکمل طور پر اصولوں کی بنیاد پر چاہتا ہے اوروزیراعظم میاں نوازشریف نے اسی اصولی موقف کا اظہارجنرل اسمبلی میں بھی کیا ۔جس پر نریندر مودی سٹپٹا سے گئے اوراب ر دعمل سب کے سامنے ہے۔ اس سے قبل نریندرمودی نے جونہی ہندوستان کی وزارت عظمیٰ کا چارج سنبھالا پاک بھارت مذاکرات کے باضابطہ آغاز کے لیے دونوں ملکوں کی درمیان دوسال قبل طے پانے والی خارجہ سیکریٹریوں کی ملاقات منسوخ کر دی گئی۔اس کے بعد ماحول کو مزید کشیدگی کی طرف لے جانے کی کوشش کی گئی۔بھارتی فوج کے نئے سربراہ دلبیر سنگھ سوہاگ نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی پاکستان کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر کسی بھی گڑبڑ کا بھرپور اور فوری جواب دینے کا اعلان کیا ۔ بھارت کی جانب سے 290کلومیٹر تک مارکرنے والے براہموس سپرسانک میزائل کا تجربہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔

اس طرح نریندر مودی پاک بھارت تعلقات کو ایک خطرناک نہج پر لے آئے ہیں اور اس کا مقصد بھی واضح ہے کہ وہ کشمیر کو ضم کرنے کی شق کو ختم کرکے اس کا بھارت سے زبردستی مستقل الحاق چاہتے ہیں۔ اپنے اس مکروہ خواب کی تکمیل کے لئے نریندرمودی کی ٹائمنگ بھی انتہائی اہم ہے کہ جب افواج پاکستان کا دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب اہم مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور دہشت گردوں کی کمر تقریباََ توڑی جاچکی ہے۔ آپریشن کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والے لاکھوں افراد کی دیکھ بھال اور دوبارہ آبادکاری کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔اسی طرح پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا بھی ہے ، سیلاب کے نتیجے ملک کو شدید مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا حکومت کی توجہ اس جانب بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس وقت پاکستان میں دھرنے اور احتجاج کی سیاست کا بھی دور دورہ ہے اوریہ بات افسوس سے کہی جاسکتی ہے کہ ان سے ایک طرف اہم ملکی مسائل اورلاحق خطرات پس منظر میں چلے گئے تو دوسری جانب ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ان دھرنوں کی وجہ سے ہمارے قومی مسائل خاص طور پر حالیہ پاک بھارت کشیدگی پر کسی کی نظر نہیں ہے۔ یقینا بھارت پاکستان کی اس اندرونی صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی حالات خاص طور پر پاک بھارت حالیہ کشیدہ صورتحال کے پس منظر میں احتجاج اور دھرنوں کا راستہ ترک کرکے بھارت کو جواب دیا جائے کہ اس کی جارحیت اور ناپاک عزائم کے خلاف پوری قوم یکجان ہے۔دوسری طرف بھارت کو بھی اس حقیقت کا ادراک کرلینا چاہئے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور اس کی افواج روایتی جنگ میں اس پر نہ صرف برتری رکھتی ہیں بلکہ اسلحے کے لحاظ سے بھی جدید ترین ہیں۔ اس تناظر میں اس کے جارحانہ عزائم اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بنانے کے خواہش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔

Amna Malik
About the Author: Amna Malik Read More Articles by Amna Malik: 80 Articles with 73374 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.