گذشتہ روز لاہور میں سابق وزیراعظم یوسف رضاء گیلانی کے
بیٹے کے گارڈ کے ہاتھوں ایک نوجوان کی ہلاکت نے یہ تو ثابت کردیا ہے کہ
ہمارے یہ ملازم پیشہ لوگ جو کسی بھی ایسی شخصیت کے ساتھ ڈیوٹی پر ہوتے ہیں
وہ اپنے آپ کو کسی اور ہی جہاں کی مخلوق سمجھ لیتے ہیں ان کے مکروہ چہرے اس
وقت کچھ اور بھی زیادہ بگڑ جاتے ہیں جب یہ اپنے مالک کی گاڑی کے ساتھ چل
رہے ہوتے ہیں کوئی موٹر سائیکل سوار یا کوئی چھوٹی گاڑی ان کو اوور ٹیک
کرنے کی کوشش کرے تو اس وقت یہ اپنا حق نمک ادا کرنے کے لیے ایسی ایسی
واہیات قسم کی حرکتیں کرتے ہیں کہ سڑک پر چلنے والا ہر فرد یہ سوچتا ہے کہ
یہ سڑک ان کے باپ کی ہے یا انکا باپ اس سڑک پر لیٹا ہوا ہے جسے یہ بچانے کی
کوشش کررہے ہیں ایک طرف وی آئی پی کلچر ہے تو دوسری طرف پروٹوکول کلچر ہیں
ان دونوں میں ایسے افراد کی بھر مار ہے جو ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں
اپنا ثانی نہیں رکھتے خاص کر ہمارے جو سیاستدان اس کلچر کا حصہ بن چکے ہیں
انہیں کسی سے کیا تکلیف ہوسکتی ہے کیونکہ سیاست تو نام ہی خدمت کا ہے اور
جو خدمت کرنے والا ہوتا ہے اسے عوام اپنے کندھوں پر بٹھاتی ہے اسے تو کسی
سے کوئی ڈر اور خوف نہیں ہوتا وہ تو ہر جگہ اور ہر وقت عوام کے ساتھ ہوتا
ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہ ہوسکا کیونکہ یہاں پر لوگ سیاست
کرتے ہیں لوٹ مار کرنے کے لیے اور جو جتنا بڑا سیاستدان ہوگا اسے اتنی ہی
زیادہ سیکیورٹی کی ضرورت گی کیونکہ عوام کے حقوق پر ڈاکے ڈالنے والوں کو
پھر اپنی حفاظت کی ضرورت تو پڑے گی کیونکہ اس نے عوام سے الیکشن کے دنوں
میں جو وعدے کیے تھے ان میں سے کوئی ایک بھی پورا نہیں ہوا ہوتا انہیں اپنے
اندر چور بیٹھا نظر آتا ہے اسی لیے یہ عوام سے چھپتے پھرتے ہیں عوام کے
حقوق پر ڈاکے ڈالنے والے جب اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہیں تو پھر اپنی
حفاظت کے لیے بھی اپنے جیسے چوروں کو اپنے ہمراہ لیے پھرتے ہیں جو درندگی
کی ایسی مثالیں قائم کرتے پھرتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر درندے بھی شرما جائیں
۔عوام کے ووٹوں سے طاقتور بننے والے بظاہر اپنے آپ کو عوام کا خادم ہی
کہلاتے ہیں مگر عوام کی خدمت کرنے کے لیے انہوں نے اپنے ساتھ جو وحشی درندے
رکھے ہوتے ہیں وہ عوام کو انکی اوقات یاد دلاتے رہتے ہیں کہ یہ کوئی اور
مخلوق ہے انکے پاس جانا خطرے سے خالی نہیں ہے ہمیں بہت پیچھے جانے کی ضرورت
نہیں ہے پنجاب حکومت کے وزیر اعلی کو دیکھ لیں جواپنے آپ کو خادم اعلی
کہلاتے ہیں مگر جس کے خادم کہلانے میں وہ بڑا فخر محسوس کرتے ہیں اسی عوام
کو ملنا پسند نہیں کرتے ان سے ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتے اور انہیں اپنے
اردگرد بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے اور جب یہ نام نہاد خادم اعلی صاحب اپنی
شاہی سواری پر باہر نکلتے ہیں تو انکے ساتھ بیٹھے ہوئے اور آگے پیچھے چلنے
والے عوام کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھنے لگتے ہیں اگر ہمارے خادم ایسے ہیں
جو عوام کے نام پر عوام کے ووٹوں سے عوام کی خدمت کے لیے اقتدار میں آتے
ہیں اور عوام کے ٹیکسوں سے اپنی عیاشیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں اور عوامی
خدمت کے نام پر لوٹ مار شروع کرکے پروٹوکول کی آڑمیں چھپ جاتے ہیں اور پھر
بے دریغ گولیوں سے ہمارے نوجوانوں کو چھلنی کرکے فرار ہوجاتے ہیں ان سے
اچھے تو ہمارے گلی محلوں کو صاف رکھنے والے خاکروب ہیں جو خدمت کاایسا
فریضہ سرانجام دے رہے ہیں کہ ہم اگر انہیں وزیراعلی کہنا شروع کردیں تو
کوئی فرق نہیں پڑے گااور ہر صفائی والے کے ساتھ کوئی درجن بھر گن میں بھی
ہونے چاہیے کیونکہ ایک نام نہاد خادم اپنے ساتھ اتنا بڑا سیکیورٹی کا سکواڈ
رکھ سکتا ہے تو جو حقیقی خادم ہے اسے تو ان سے گئی گنا بڑا حفاظتی سکواڈ
ملنا چاہیے مگر یہاں پر ہر کام ہی الٹ ہے اور اقتدار تک پہنچنے کے لیے
ہمارے سیاستدان ہر وہ طریقہ اختیار کرتے ہیں بے شک اس میں ملک کا نقصان
ہوجائے یہی وجہ ہے کہ پھر ان سیاستدانوں اور انکے بچوں کو اپنے ساتھ حفاظت
کے لیے گارڈ رکھنا پڑتے ہیں کیا ان حکمرانوں کے بچے اتنے اہم ہوتے ہیں کہ
انکی غلطی پر بھی انکے حواری انہی کے قصیدے لکھنا شروع کردیتے ہیں اور انکے
نمک خوار ایسی ایسی بات کرجاتے ہیں کہ سننے والا پریشان ہوجاتا ہے ڈیفنس
لاہور میں جب نوجوان کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا تو اسکے بعد قمرزمان کائرہ
نے کہا کہ گولی نیچے زمین پر چلائی گئی تھی جو سڑک سے ٹکرا کر لڑکے کی آنکھ
میں لگ گئی موصوف دلیل ایسے دے رہے تھے جیسے یہ گولی خود انہوں نے چلائی ہو
یا اس وقت وہ بیٹھے بڑے دھیان سے گولی کی طرف دیکھ رہے تھے اورانکی آنکھوں
کے سامنے بندوق سے گولی نکل کر پہلے سڑک پر لگی اور اسکے بعد وہاں سے پلٹی
اور موٹرسائیکل پر بیٹھے ہوئے دو بھائیوں میں سے ایک کو جالگی اور کائرہ
صاحب بیٹھے بڑے غور سے یہسب مناظر دیکھ رہے تھے کیونکہ انہوں نے اس واقعہ
کے بعد اپنا بیان جو جاری کرنا تھااس سے بڑی ہماری اور کیا بدنصیبی ہوسکتی
ہے کہ جھوٹے ،لالچی اور فریبی انسان ہمارے لیڈر بنے ہوئے ہیں جو اپنے اپنے
آقاؤں کی خوشنودی کے لیے زمین آسمان ایک کیے ہوئے ہیں کبھی یہ عوام کو
بیوقوف بنا کر بیلٹ کے زریعے ہم پر مسلط ہوجاتے ہیں تو کبھی بلٹ کے زریعے
ہمیں مارنا شروع کردیتے ہیں یہ ظلم کرکرے اتنے ظالم بن چکے ہیں کہ انہیں
اپنے سوا باقی سب کچھ کیڑے مکوڑے ہی نظر آتے ہیں ۔ |