’’نفسیات‘‘ کا لفظ دو الفاظ روح اور مطالعہ سے مل کر بنا ہے

میں پاگل نہیں ہوں میں علاج کیوں کرواؤں؟ یہ سب میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کررہے ہیں؟ یہ میرا مذاق اڑانا چاہتے ہیں۔ لوگوں کو پتہ چلے گا تو وہ کیا کہیں گے؟یہ سب باتیں فوراً اس شخص کے ذہن میں آجاتی ہیں جسے ماہر نفسیات کے پاس جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

’’نفسیات‘‘ کا لفظ دو الفاظ روح اور مطالعہ سے مل کر بنا ہے۔ جس کامطلب ہوا روح کا مطالعہ کرنا‘ نفسیات انسان کے کردار اور روح کا مطالعہ کرنے میں مددگار ثابت ہوئی ہے۔

’’نفسیات‘‘ ایک علم ہے جو کہ زندگی کے تمام شعبہ جات میں لاگو ہوتا ہے اور جس کی ابتدا اس وقت سے ہے جب سے انسان کا وجود ہوا ہے۔ یہ روح کا علم بھی ہے اور کردار اور تجربہ کا بھی… اب تو نفسیات ایک سائنسی علم کا درجہ سے جانی جاتی ہے جوکہ تجربات بھی کرتی ہے۔ یہ علم ہر جگہ موجود ہے سکولوں میں‘ کالجوں میں‘ گھریلو زندگیوں میں‘ سماجی زندگیوں میں اور اداروں میں غرض ہر جگہ جہاںجہاں انسان موجود ہیں وہاںعلم نفسیات موجود ہے۔

نفسیات کے لفظ سے تو اس دور حاضر میں تقریباً سب ہی لوگ آشنا ہونگے اور یہ لفظ کے سنتے ہی بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں بہت سے تصورات اور خیالات بن جاتے ہونگے۔۔۔کسی کے ذہن میں اچھے خیالات اور کسی کے ذہن میں شکوک و شبہات جیسا کہ کچھ لوگوں کے ذہن میں پہلا لفظ ابنارمل لوگوں کا (جنہیں عرف عام میں پاگل کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے) کا خیال فوراً آجاتا ہے یاپھر ایسے لوگوںکاجو کے معاشرے کیلئے خطرہ ہیں یاجن کی وجہ سے لوگوںکو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ لاعلمی اور سُنی سنائی باتوںپر بغیر تحقیق کے یقین کرلینا ہے۔ اس ترقی یافتہ دور میں بھی جب کوئی سنتا ہے کہ کوئی شخص Psychology پڑھ رہا ہے تو اکثر لوگ اس کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے یا تو مذاق اڑانے لگتے ہیں یا پھر ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جس کا مقصد صرف تمسخر کرنا ہو جیسا کہ’’ یہ بھی کوئی مضمون ہے پڑھنے والا‘‘ ’’یہ پڑھ کر خود پاگل ہوجاؤ گے‘‘ ’’یہ پڑھنے سے دماغ خراب ہوجاتا ہے‘‘ یا پھر اکثر لوگ کہتے ہیں کہ اسے پڑھنے کے بعد توہر کوئی آپ کو پاگل ہی نظر آئے گا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ پھر تو آپ چہرہ دیکھ کر بتاؤ گے کہ ہم کیا سوچ رہے ہیں… ایسے لوگوںکی باتوں پر توجہ نہیں دینی چاہیے بلکہ ان سے یہ پوچھنا چاہیے کہ کیا ڈاکٹر پڑھ لکھ کر خود بیمار ہوجاتے ہیں یا وکیل بننے کے بعد کوئی خود پر مقدمے کرنا شروع کردیتا ہے یقیناً نہیں تو پھر اس علم اور اس کے معالج کے بارے میں خوف و ہراس کو کیوں نہیں نکال دیتے اور اپنے خوف و ہراس کو کیوںمعاشرے کے دوسرے لوگوں تک پھیلاتے ہیں۔

’’میں پاگل نہیں ہوں میں علاج کیوں کرواؤں؟ یہ سب میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کررہے ہیں؟ یہ میرا مذاق اڑانا چاہتے ہیں۔ لوگوںکو پتہ چلے گا تو وہ کیا کہیں گے؟‘‘یہ سب باتیںفوراً اس شخص کے ذہن میں آجاتی ہیں جسے ماہر نفسیات کے پاس جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

ماہر نفسیات کے پاس جانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ آپ پاگل ہوگئے ہیں اور معاشرے کے لیے خطرہ بن گئے ہیں جس طرح ہم علاج کروانے کیلئے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں بالکل اسی طرح ماہر نفسیات کاکام نہ صرف ایسے لوگوں کی مدد کرنا ہے جو اپنے ماحول سے مطابقت قائم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں اور جن کا کردار نارمل نہیں ہوتااور وہ کسی ذہنی مرض‘ ذہنی معذوری‘ منشیات یا دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار ہوچکے ہیںبلکہ یہ پریشانی میں مبتلا افراد اور ایگزائٹی‘ کندذہن بچے‘ نشہ آور افراد‘ معذور افراد اور مایوس افراد کا علاج بھی کرتے ہیں اور ڈاکٹرز بھی ان سے مشورہ کرتے ہیں۔ ماہر نفسیات آج کل تو بڑے بڑے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ یہ آپ میں خوداعتمادی کو بحال کرتے ہیں اور بہت سی ایسی باتوں کے متعلق بتاتے ہیں جنہیں ہم غیراہم اور معمولی سمجھتے ہیں اور اصل میں وہی مرض کا سبب بن رہی ہوتی ہیں۔ یہ ہمیں ایسے طریقے بتاتے ہیں جن پر کوئی بھی شخص گھر بیٹھے بھی عمل کرکے اپنا محاسبہ کرسکتا ہے اور اس طرح پتہ چلتا رہتا ہے کہ کسی شخص میں کس حد تک بہتری آرہی ہے اور پھر انسان خود کو بہتر اور خوشحال بھی محسوس کرتا ہے اور معالج ادویات کے بغیر انسان کو نارمل صحت مند زندگی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میںکامیاب بھی ہوتے ہیں۔

لہٰذا ہمیں اپنے ذہنوں میں سے اور دوسروں کے ذہنوں سے بھی اس غلط فہمی کو دور کردینا چاہیے کہ صرف پاگل لوگ ہی نفسیات کے پاس جاتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ ان کے پاس جانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ کسی شخص کو پاگل ہونے کی سند مل گئی ہے بلکہ اردگرد کے لوگوں کا دھیان رکھنا چاہیے اور اگر کسی شخص کو دیکھیں جوکہ ابنارملٹی کی طرف جارہا ہو تو اسے علاج کروانے کامشورہ دیں بلکہ اس کا علاج کروائیں اگرچہ کہ یہ ایک بہت مشکل کام ہے کیونکہ کوئی بھی یہ الفاظ سننا پسند نہیں کرتا اورتعلیم یافتہ لوگ بھی اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور ان باتوں کو اپنی انا کامسئلہ بنالیتے ہیں۔

نفسیاتی بیماریاں قابل علاج ہوتی ہیں اگر یہ شروع ہی میں کنٹرول کرلی جائیں تو انسان بالکل نارمل ہوجاتا ہے سوائے چند ایک بیماریوں کے جو کہ موروثی ہوں یعنی کہ جو باپ دادا وغیرہ کو بھی ہوں اور یا پھر وہ امراض جو بہت بگڑ گئے ہوں۔ علاج کروانے سے ان کو اتنا کنٹرول کیا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ کسی کی جان کا خطرہ نہ بنیں اور نہ ہی خود کو نقصان پہنچائیں۔

علاج کروانے سے انسان صحت یاب ہوجاتا ہے اور پھر ہشاش بشاش زندگی کا سفر طے کرنے کی ہمت باندھ لیتا ہے اور علاج کروانے سے ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ علاج کروانے سے کتنی بہتری ہوئی ہے۔ کیونکہ بعض اوقات انسان کو خود بھی معلوم نہیںہوتا کہ وہ کس حد تک بیمار ہے اور اس بات کا احساس اسے صحت مند ہونے کے بعد ہوتا ہے۔

عبقری سے اقتباس

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Jaleel Ahmed
About the Author: Jaleel Ahmed Read More Articles by Jaleel Ahmed: 383 Articles with 1217730 views Mien aik baat clear karna chahta hoon k mery zeyata tar article Ubqari.org se hoty hain mera Ubqari se koi barayrast koi taluk nahi. Ubqari se baray r.. View More