این آر او کا مردہ پھر زندہ ہوگیا

این آر او کے بارے میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ یہ ہمیشہ کے لئے دفن ہوگیا۔ لیکن یہ مردہ جسے دفن کردیا گیا تھا اب ایسا زندہ ہوا ہے کہ اس سے بہت سے لوگ موت سے ہمکنار ہونے والے ہیں۔ عدلیہ کا اتنا بڑا بنچ جب بھی بنتا ہے، کہا جاتا ہے کہ کوئی بڑا فیصلہ آنے والا ہوتا ہے۔ یوں بھی اس وقت ملک میں جمہوریت ہے لیکن بدقسمتی سے منتخب نمائندوں نے سارا بوجھ عدلیہ پر ڈال دیا ہے۔ عدلیہ کے پیچھے اس وقت عوام کی طاقت ہے۔ اور یہی سبب ہے کہ عوام نے عدلیہ سے بے حد امیدیں لگا رکھی ہیں۔ قومی دولت کی جو لوٹ مار اس ملک میں کی گئی ہے۔ اس کی کوئی حد ہے نہ حساب، اب یہ معاملہ کھربوں روپے کا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے اربوں روپے کی لوٹ مار کی ہے۔ تو دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو دن رات غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ مہنگائی نے انسانوں کی زندگی عذاب میں کی ہوئی ہے۔ بینظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف میں ہونے والی ڈیل میں دبئی کے حکمران خاندان کا رول اہم تھا۔ لیکن اس وقت جنرل مشرف کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اگر وہ ایک جلا وطن رہنما کی واپسی پر دبئی کے شیخ کی بات مان لیں تو دوسرے کی واپسی سے متعلق سعودی عرب کے شیخ کو انکار ان کے لیے نا ممکن ہو جائے گا۔

لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ میاں نواز شریف این آر او پر ہونے والے مذاکرات کا براہ راست حصہ تو نہ تھے لیکن ان کی واپسی اس قانون سے اتنی ہی جڑی ہوئی تھی جتنی بینظیر بھٹو کی۔ بینظیر بھٹو ملک کے عوام کی محبوب تھیں۔ عوام انھیں اپنی صفوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس وقت پاکستان مسلم لیگ قاف نے بہت شور مچایا کہ بی بی جنرل مشرف کے ساتھ ڈیل کر کے واپس آ رہی ہے لیکن اس کے باوجود لاکھوں لوگوں نے انہیں کراچی میں خوش آمدید کہا۔ وطن واپسی کے بعد بینظیر بھٹو نے ایک دانستہ حکمت عملی کے تحت میاں نواز شریف سے مسلسل رابطہ رکھا۔ ان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ قتل ہونے سے کچھ دیر پہلے ہی انہوں نے میاں نواز شریف سے ٹیلیفون پر بات کی تھی۔ بینظیر بھٹو کی ہر بات اور ہر حرکت سے واضح تھا کہ وہ اپنے مفاہمتی فلسفے کو محض ایک قانون تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہتی تھیں۔ ان کی یہ واضح خواہش تھی کہ وہ اپنے ناقدین پر ثابت کریں کہ این آر او ان کی ذاتی سیاست کی بقا نہیں بلکہ پاکستان میں مفاہمت کے مستقبل کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بینظیر بھٹو کا اصرار تھا کہ جب سیاسی دشمنی کی دیواروں کو قانونی سہارا دے کر کھڑا کیا ہو تو انہیں گرا کر ان کی جگہ سیاسی مفاہمت کی بنیادیں ڈالنا بھی قانونی سہارے کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کی نظر میں این آر او کے بغیر چارٹر آف ڈیموکریسی پر عمل درآمد ناممکن تھا اور اس معاملے میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں نواز شریف نے کبھی ان سے اختلاف نہیں کیا۔

بے نظیر بھٹو تو اس فلسفے کو اور بھی آگے لے جانے کی خواہشمند تھیں۔ وہ کئی سال تک جنوبی افریقہ کی طرز پر حقائق اور مفاہمت کمیشن بنانے پر زور دیتی رہیں جس کے سامنے سب سیاستدان، جرنیل، کاروباری حضرات اور بیوروکریٹس اپنے جرائم کا اعتراف کرتے، آئندہ قانون کی پاسداری کا عہد کرتے، سیاستدان ایک دوسرے کی ٹانگ نہ کھینچنے کا عزم کرتے اور فوجی قیادت سیاسی حکومتوں کے خلاف سازش کرنے سے توبہ کرتی۔ ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔ ان کی موت کے ساتھ ہی پاکستان میں تیزی سےآگے بڑھتی ہوئی سیاسی مفاہمت نے بھی دم توڑ دیا۔ سیاسی مفاہمت کے اس کھیل میں میاں نواز شریف اس وقت تک بینظیر بھٹو کے جونئیر پارٹنر بنے رہنے پر آمادہ تھے۔ لیکن بینظیر بھٹو کی موت سے پیدا ہونے والے سیاسی خلا نے انہیں نئی راہیں دکھائیں۔ دوسری جانب بینظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری کی سیاست نے بھی ایک نئی کروٹ لی۔ بینظیر بھٹو یہ طے کر کے وطن لوٹیں تھیں کہ آصف زرداری دبئی میں رہتے ہوئے بچوں کا خیال رکھیں گے۔ لیکن ان کی موت نے پارٹی کی ذمہ داریان لوگوں پر ڈال دی جو نہ تو بینظیر بھٹو کے سیاسی مفاہمت کے فلسفے سے پوری طرح واقف تھے اور نہ ہی اسے عملی جامہ پہنانے کا سیاسی قد کاٹھ رکھتے تھے۔ سیاسی بدمزگی نے ایک بار پھر این آر او کے مردے میں جان ڈال دی کیونکہ پے در پے ہونے والی سیاسی حماقتوں نے وہ سیاسی مفاہمت جو این آر او کی روح تھی اسے ختم کردیا تھا۔ اب وہی این آر او جس نے پاکستانی سیاست کو مفاہمت کے ایک نئے دور میں لے جانا تھا چند گنے چنے لوگوں کی ذاتی سیاست کا پہرے دار نظر آنے لگا۔ ایسے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ ان لوگوں سے دامن چھڑا لے جنہوں نے این آر او سے فائدہ اٹھایا ہے اور جب تک وہ لوگ کلین ہوکر نہیں آجاتے اس وقت تک انہیں امور مملکت سے علیحدہ رکھنا چاہئے۔ عوام، اور پاکستانی میڈیا کی خبروں، اطلاعات، تجزیوں اور تبصروں نے ایک نئی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ این آر او اچھا ہے یا برا، اس سے قطع نظر لگتا یہی ہے کہ اٹھائیس نومبر کے بعد این آر او کی قبر میں اس قانون کے ساتھ ساتھ قومی مفاہمت کا مردہ بھی لیٹے گا۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 424201 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More