قومی سلامتی کے اجلاس میں وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے
کہ پاکستان کی امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔اس اجلاس میں کہا گیا
کہ ملکی سرحدوں کے تحفظ پرکوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا،خطے میں سلامتی
کیلئے پاکستان کاکردارعالمی سطح پرتسلیم شدہ ہے، خطے میں امن، سلامتی،
دوستی کی خواہش کو آگے بڑھائیں گے۔ اجلاس میں ایل اوسی کی خلاف ورزی
کامعاملہ سفارتی سطح پراٹھانیکی کوششیں تیزکرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔اجلاس
میں بتایا گیا کہ بھارتی فائرنگ کا برابر جواب دیا جا ر ہا ہے۔اس اجلاس میں
بھارت سے جاری کشیدگی کی صورتحال سے متعلق فیصلوں کا واضح اظہار پاکستان کے
آئندہ چند روز کے اقدامات سے ہی ہو جائے گا۔پاکستان اور بھارت کے درمیان
جموں سیالکوٹ کی ورکنگ باؤنڈری اور آزاد کشمیر میں کنٹرول لائین پر گزشتہ
چند دنوں کی فائرنگ،مارٹر شیلنگ سے شہری آبادیاں شدید متاثر ہو ئی ہیں اور
دونوں طرف سے شہریوں کی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔دونوں ملک ایک دوسرے پر
فائرنگ شروع کرنے کے الزام لگا رہے ہیں۔پاکستان میں اس صورتحال سے متعلق
عمومی رائے یہی ہے کہ بھارت پر کمزوری ظاہر نہ کی جائے۔بھارت کی طرف سے
پاکستان کے ساتھ مزاکرات ختم کرنے کے بعد وزیر اعظم نوازشریف نے اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر اور بھارتی مقبوضہ کشمیر میں
کشمیریوں کے خلاف بھارتی مظالم کو اجاگر کیا۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی
نے اپنی تقریر میں پاکستان کے ساتھ تنازعات مزاکرات کے ذریعے ختم کرنے کی
بات کی۔اس کے بعد بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھیانک سیلاب سے وسیع پیمانے پر
تباہی ہوئی اور اس سے توقع پیدا ہوئی کہ کشمیر میں قدرتی آفات سے ہونے والی
تباہی کے پیش نظر دونوں ملک ملکر سیلاب سے متاثرہ کشمیر کی مدد کریں گے اور
مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان مزاکرات بحال ہو ں گے۔لیکن
اس کے برعکس بھارتی فوج نے عید الاضحی کے موقع پر سیالکوٹ کی ورکنگ باؤنڈری
کے علاقے اور آزاد کشمیر میں کنٹرول لائین پر فائرنگ اور مارٹر شیلنگ سے
حملہ شروع کرتے ہوئے پاکستان کو اپنی جارحانہ سخت پالیسی کا پیغام دیا ہے۔
پاکستان کی طرف سے بھارت کے ساتھ مزاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل اور
اچھے تعلقات کے قیام کی کوششوں کا جواب بھارتی حکومت کی طرف سے منفی رہا
ہے۔بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بھارت سے جنگ نہ کرنے کی غیر
اعلانیہ پالیسی سے بھارت کو غلط اشارے ملے ہیں اور وہ اسے پاکستان کی
کمزوری سے تعبیر کر رہا ہے۔بھارتی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان کو دباؤ
میں لا کر پاکستان کو اپنی '' ڈکٹیشن'' پر چلانے پر مجبور کر سکتی ہے۔اب یہ
ہماری حکومت پر منحصر ہے کہ وہ بھارت کی سخت گیر پالیسی کا کس انداز میں
جواب دیتی ہے۔بلاشبہ پاکستان کی طرف سے بھارت کے خلا ف سخت روئیہ اپنانے سے
ہی امریکہ سمیت عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر کے حل اور دونوں ملکوں کے
درمیان تعلقات بہتر بنائے جانے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔جب عالمی برادری یہ
دیکھتی ہے کہ پاکستان بھارت کے سامنے جنگ گریز پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے
تو وہ بے فکر ہو جاتی ہے۔پاکستان کو اپنی اس پالیسی کا از سرنو جائزہ لینا
ہو گا جس کے تحت بھارت کے ساتھ جنگ کے ہر امکان کو ختم کرنے کی '' فکر''
پائی جاتی ہے۔سابق آمر جنرل مشرف نے بھارت کے دباؤ کے سامنے جس طرح پیچھے
ہٹنے رہنے کی پالیسی اپنائی تھی،اب اس پالیسی کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں یہ
طے کرنا ہو گا کہ آخر وہ کونسا مقام ہے جہاں سے ہم مزید پیچھے نہیں ہٹ سکتے؟
حالیہ فائرنگ سے پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی کے دوران دونوں ملکوں کے
میڈیا سے واضح طور پر مخالفانہ اور دشمنی کے جذبات کا اظہار کیا جا رہا
ہے۔ہماری رائے میں نجی میڈیا کو حکومتی یا سرکاری ترجمان نہیں بننا چاہئے
اور ملکوں کے درمیان تنازعات،اختلافات کو انسانیت کے مفاد کے حوالے سے
اجاگر کرنا چاہئے۔اگر ہم انسانیت کی بالادستی کو مقدم قرار دینے کی بات
کریں تو بھی بھارت کی مخصوص ذہنیت بے بس اور لاجواب ہو سکتی ہے۔ہمارے کئی
تجزئیہ نگار اس طرح کا ڈرامائی تاثر بھی دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر
وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت نہ ہوتی تو نامعلوم پاکستان کیا کر
گزرتا۔بھارت کی دھونس،ہٹ دھرمی اور جارحیت کے خلاف ملک میں کبھی بھی تقسیم
نہیں رہی لیکن اب ملک میں ایسی تقسیم پیدا کر نے کی کوششیں نظر آ رہی ہیں
کہ جس میں حکومت اور فوج کو بھارت کے معاملے میں الگ الگ،متضاد پالیسیوں پر
قائم ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔پاکستان کی حکومت اور فوج کو اس بات
کا فیصلہ کرنا چاہئے کہ ہمارے قومی مقاصد اور اہداف کیا ہیں؟کیونکہ اب
پاکستان میں عمومی طور پر یہ کہا جانے لگا ہے کہ '' ہم کشمیر بھارت سے لے
نہیں سکتے اور بھارت کشمیر چھوڑ نہیں سکتا''۔اس طرح کا عمومی موقف اپنانے
سے پاکستان کے اس سرکاری موقف کی اہمیت بہت کم ہو جاتی ہے کہ جس میں
پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں
کی بات کرتا ہے۔مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے موجودہ سیز فائر لائین(کنٹرول
لائین) کی بنیاد پر تقسیم کو تقویت پہنچانے کی راہ اختیار کرتے ہوئے یہ
حقیقت مدنظر رکھنی چاہئے کہ '' اگر ہم (پاکستان)نے کشمیر کو چھوڑ دیا تو
کشمیر ہمیں کہیں کا نہ چھوڑے گا''۔بھارتی مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے ظلم و
ستم کے حوالے کر کے لاتعلق ہو جانے سے بھی پاکستان بھارتی جارحیت کے عزائم
سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ہمارے ارباب اختیار کو یہ حقیقت بھی سمجھ لینی چاہئے
کہ کشمیر پاکستان کے دفاع کا آخری مورچہ ہے۔اگر پاکستان اپنے تمام امور و
مسائل پرترجیح دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سرگرم اقدامات کی راہ
اختیار نہیں کرتا تو ہم آخر کار بھارت کی شرائط ،مطالبات اور ہدایات اختیار
کرنے کی راہ پہ ہی چل نکلیں گے، جس کے نتائج کا احاطہ ہم نہیں بلکہ بھارت
ہی کرے گا۔مختصر یہ کہ پاکستان میں بھارت سے '' ڈیل '' کرنا اس لئے بھی ایک
بڑا مسئلہ رہا ہے کہ ہمارے پالیسی ساز '' بھارت کی مخصوص ذہنیت'' کو سمجھنے
سے قاصر نظر آتے ہیں،اور اگر سمجھتے ہیں تو ان کے نبرد آزما ہونے کے طریقے
بے فائدہ اور ناقص ہی نہیں بلکہ الٹا نقصاندہ ثابت ہیں۔ |