یادآئی تو آتی چلی گئی

میرے گھر سے روڈ تک کا فاصلہ تقریباَ ایک فرلانگ سے زیادہ ہی ہو گا جو پتلی گلیوں سے ہوتا ہوا روڈ تک آتا تھا ہمیں رکشہ و ٹیکسی کی سواری کے لیے گھر سے پیدل آنا پڑتا ایک دفعہ میری شدید طبعیت خراب ہوئی کوئی بڑا فرد گھر پر نہیں تھا جو مجھے کسی طرح روڈ تک لے جائے اتنے میں میرے ناظم حلقہ مجھے دیکھنے کے لیے آئے انھوں نے جب میری یہ کیفیت دیکھی تو تو مجھے اپنی پیٹھ پر لاد کر ایک فرلانگ سے زیادہ کا فاصلہ طے کرکے سڑک تک آئے اور یہاں سے سائیکل رکشہ پر بیٹھا کہ ساتھ ڈاکٹر کے یہاں لے گئے وہاں سے دوا دلا کر رکشے میں واپس لائے اور پھر اسی طرح مجھے اپنی پیٹھ پر بٹھا کر گھر تک لائے ۔اب مجھے اپنے کارکنان میں آپس میں اس طرح کی محبت و انسیت نظر نہیں آتی جو پہلے کبھی ہوتی تھی ہم سگے بھائیوں سے زیادہ آپس میں میل ملاپ رکھتے تھے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ کو اپنا دکھ اور سکھ سمجھتے تھے ۔یہ تھے ایک رکن جماعت جن کا نام اب مجھے یاد نہیں رہا جو اب سے تقریباَ بیس سال قبل ایک اجتماع ارکان کراچی میں احتساب والے وقت میں کارکنوں کے باہمی تعلقات اور رفاقت میں جو کمی آگئی تھی اس کے حوالے سے اپنی دلی بے چینی کا اظہار کر کے ایک طرح سے سب کا احتساب کر رہے تھے اور جس ناظم حلقہ کا وہ ذکر کرہے تھے وہ تھے جناب محمود اعظم فاروقی صاحب جن کی امارت میں یہ اجتماع ارکان کراچی ہو رہا تھا ۔آج جب میں نے ایک اخبار میں ملک کے معروف صحافی اور دانشور ابو نثر کا کالم جو "یادیں محمود اعظم فاروقی کی"کے عنوان سے شائع ہوا دیکھا تو فاروقی صاحب کے حوالے سے بہت ساری باتیں یاد آئیں اور آتی چلی گئیں کہ ایک طویل عرصہ فاروقی صاحب کی قربت میں گزارا ہے اس لیے کچھ یادیں ہم نے بھی قارئین کے ساتھ شیئر کرنے کا ارادہ کیا لیکن پھر یہ سوچ کر رک گئے کہ جناب محمود اعظم فاروقی صاحب اتنی باغ و بہارشخصیت کے عظیم انسان تھے کہ ابونثر جیسے کالم نگار ہی ان کی خوبیوں کی ترجمانی کا حق ادا کر سکتے ہیں ۔مگر طبیعت کے بے چینی اپنی جگہ برقرار رہی اس لیے کچھ ایسی باتیں اور واقعات تحریر کرنے کا عزم کیا جو تحریک سے وابستہ لوگوں کے لیے ذہنی تربیت کا ذریعہ ہو اور کچھ تذکیر اور یاد دہانی بھی ہو جائے ۔فاروقی صاحب کی ایک بہت اچھی بات جو عین سنت نبوی ﷺ کے مطابق تھی کہ کسی کی بات ،تحریر ، سوال، پر فوری توجہ دینا جس کو ہم انگلش میں ان دو الفاظ سے بہت اچھی طرح واضح کر سکتے ہیں (Immediate Response)میں نے ان کو بہت خطوط لکھے اور مجھے یہ یاد نہیں کہ انھوں نے کبھی کسی خط کا جواب نہ دیا ہو یہاں تک کہ ہم نے کسی اور کو خط لکھا اور برائے اطلاع انھیں بھی ایک نقل بھیج دی تو وہ اس کا بھی جواب دیتے تھے ،اکثر تو وہ تحریر کا جواب تحریر سے دیتے تھے اور کبھی فون پر بھی بات کر لیتے تھے میں نے ایک دفعہ محترم صلاح الدین صاحب کو ایک طویل تنقیدی خط بھیجا تھا اس کی نقل فاروقی صاحب اور منور صاحب کو بھی دیا تھا ان دونوں اکابرین نے اس پر اپنے تاثرات کا مجھ سے اظہار کیا تھا ۔جب کہ دوسری طرف صلاح الدین صاحب نے مجھے فون کر کے ایک نشست کا اہتمام کیا اور اس خط میں اپنے بارے میں اٹھائے گئے نکات کا تفصیل سے جواب دیا مجھے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ اب ہمارے اندر الا ماشاء اﷲ یہ روایت ختم ہوتی جارہی ہے اب آپ کسی کو کوئی خط یا تحریر لکھیں تو جواب تو دور کی بات ہے آپ کو یہ بھی معلوم نہیں ہو سکے گا کہ آپ کا بھیجا ہوا خط ان کو ملا بھی ہے یا نہیں بلکہ اب تو اس طرح کے خطوط لکھنے والوں کو خبطی سمجھا جاتا ہے ۔فاروقی صاحب روزنامہ جسارت کے چیف ایگزیکیوٹیو تھے تو جسارت کے کارکنان سے وقتاَفوقتاَبراہ راست رابطہ رکھتے تھے وہ صبح ساڑھے گیارہ بجے سے دوپہر دو بجے تک رہتے تھے تو صبح کے اسٹاف سے ملاقات ہو جاتی تھی اسی طرح ہفتے میں دو تین مرتبہ وہ تھوڑی دیر کے لیے رات کو بھی آجاتے تھے ایڈیٹوریل اسٹاف سے بھی ملاقاتیں کرتے تھے سال میں دو تین مرتبہ جسارت کے کارکنان کے عام اجلاس سے بھی خطاب کرتے تھے یا جب کوئی اہم فیصلہ کرنا ہوتا تو یہ اجلاس بلاکر جسارت کے کارکنان کو اعتماد میں لیتے تھے۔ فاروقی صاحب ہمارے باس بھی تھے تو ہمارے امیر بھی وہ ڈانٹتے بھی تھے اور پیار بھی کرتے تھے فاروقی جب وزیر کی حیثیت سے اپنے دفتر جاتے تو گیٹ پر چوکیدار سے لے کر جتنے اسٹاف کے لوگ ملتے سب کو سلام کرتے ہوئے جاتے چوکیدار اور نائب قاصد حضرات بہت حیران ہوتے جب یہ دیکھتے کہ ان کا وزیر انھیں سلام کررہا ہے ایک تو ظاہری تقویٰ ہوتا ہے اور ایک اندر کا تقویٰ فاروقی صاحب کے اس اندرونی تقوے کی مثال دینا چاہوں گا کہ جو صرف اﷲ اور بندے کے درمیان بندے کی دلی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے میں اور جناب طیب صاحب دونوں فاروقی صاحب کی عیادت کے لیے ان کے گھر گئے فاروقی صاحب سے ملاقات میں ہم نے ایک تجویز دی کہ آپ ایک کارکن اور ناظم حلقہ سے امیر جماعت کراچی تک رہے تمام سطحوں کی شوراؤں کے ممبر بھی رہے دوسری طرف آپ بلدیہ،صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبر بھی ہوئے اور وفاقی وزیر بھی رہے اور بھر پور ازدواجی اور خاندانی زندگی بھی ساتھ ساتھ رہی ان تمام حوالوں سے آپ کے پاس بہت سے مشاہدات،تجربات اور واقعات ایسے ہو ں گے جو اگر قلمبند کر دیے جائیں تو آپ کی یہ کاوش جماعت کے کارکنوں کی معلومات میں اضافے کے ساتھ ان کی تحریکی سرگرمیوں کو بھی مہمیز دے سکتا ہے ۔فاروقی صاحب نے کہا کہ ہاں کچھ اور لوگوں نے بھی اسی قسم کی تجویز دی ہیں بہر حال میں کوشش کرتا ہوں ہماری اس تجویز کا ذکر انھوں نے مرحوم عبدالرشید صاحب سے بھی کیا کچھ عرصے کے بعد ہم پھر ان کی عیادت کے لیے گئے ہم نے اپنی سابقہ تجویز کے حوالے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ میں لکھنے کے لیے بیٹھا تو خیال ہو ا کہ اپنے قلم سے اپنے ہی بارے میں لکھنا مناسب نہیں اب آخری وقت ہے پتا نہیں کوئی ایسی بات یا غلطی نہ سرزد ہو جائے جو سارے کیے کرائے کو غارت کر دے اس لیے میں نے اس کو ترک کردیا ہاں بعد میں کوئی اور میرے بارے میں لکھے تو وہ ایک الگ بات ہے ۔فاروقی صاحب وقت کی پابندی بھی کرتے تھے جسارت کے انٹرویو کے لیے ان کی طرف سے میرے پاس خط آیا کہ آپ جمعرات کو دن کے ساڑھے گیارہ بجے آجائیں میں ٹھیک وقت پر پہنچ گیا فاروقی صاحب نہیں تھے لیکن ایڈمن اسسٹنٹ افضل صاحب نے بتایا کہ فاروقی صاحب کا فون آیا تھا کہ کوئی صاحب ساڑھے گیارہ بجے ملنے آئیں گے انھیں بیٹھایے گا میں پندرہ منت لیٹ ہو جاؤں گا ،فاروقی صاحب بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی خیال رکھتے تھے ایک دفعہ میں ادارہ نور حق کی قریب کی مسجد میں مغرب کی نماز پڑھ رہا تھا نزدیک ہی فاروقی صاحب بھی نماز ادا کررہے تھے ،نماز کے بعد فاروقی صاحب نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ جاوید مجھ سے کوئی کام تو نہیں ہے اس لیے کہ میں نماز کے بعد ادارے نہیں جاؤں گا مجھے کام سے جانا ہے میں نے کہا کہ نہیں کوئی کام نہیں ہے لیکن اس کامیرے اوپر خوشگوار اثر ہوا کہ انھوں نے خود اس بات کا احساس کیا کہ شاید یہ مجھ سے ملنے آئے ہوں اس لیے ابھی بات ہو جائے ۔فاروقی صاحب بڑے زندہ دل ہنسی مذاق والے پر مزاح شخصیت کے مالک تھے ان کے چھوٹے اور آخری بیٹے شکیل کا ولیمہ تھا اس سے قبل وہ تمام بیٹیوں اور بیٹوں کی شادیوں سے فارغ ہو چکے تھے ،تقریب میں فاروقی صاحب ایک بزرگ سے جو حکیم بھی تھے کھڑے باتیں کررہے تھے ایک اور صاحب آئے اور انھوں نے فاروقی صاحب کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا اب آپ ماشاء اﷲ اپنے آخری بیٹے کی شادی سے بھی فارغ ہوگئے فاروقی صاحب نے برجستہ کہا بھئی آخری کیسے ابھی میں زندہ ہوں میری بیوی زندہ ہے اور خیر سے یہ حکیم صاحب بھی زندہ ہیں تو پھر آخری کیسے ان کی اس بات پر زور دار قہقہہ پڑا ۔ویسے تو فاروقی صاحب کی بہت سے لطیفے اور واقعات ہیں لیکن بہ حیثیت مجموعی وہ جماعت کے اندر ایک مثالی شخصیت تھے اﷲ تعالیٰ ان کے حسنات کو قبول فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے ۔آمین

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 43719 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.