اَب نوازشریف بھارت و امریکا سے التجایہ انداز بند کریں....؟
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
نواز مودی کومنہ توڑ جواب دینے
میں نہ ہچکچائیں......؟؟
پچھلے کئی دِنوں سے بھارت کی جانب سے ورکنگ باؤنڈری پر جاری اشتعال انگیزی
اور کنٹرول لائن پر مسلسل ہونے والی بھارتی گولہ باری نے امن پسند پاکستانی
قوم کو جس تشویش میں مبتلاکررکھاہے وہ بھی پاکستانیوں اور دنیاکے لئے باعثِ
تشویش ہے،آج جہاں پاکستانی عوام کے دماغوں میں بہت سے سوالات جنم لے رہے
ہیں تو اُن میں سے ایک سوال اپنے وزیراعظم نوازشریف کی ذات اور مُلکی خارجہ
پالیسی سے متعلق یہ بھی جنم لے چکاہے کہ بس بس بہت ہوگئی ...؟اَب قوم یہ
جانناچاہتی ہے کہ نوازاور مودی میں کیا گٹھ جوڑ ہے...؟ اگرایسانہیں ہے تو
پھر نوازشریف کو بھارت اور امریکا سے التجایہ انداز بندکرناہوگا،اوراَب
بھارت کی ہٹ دھرمی کا جواب لازماََ پتھرسے دینے کااعلان کرناہوگا۔
اَب ورنہ قوم یہ سمجھے گی کہ نوازکی شریف اپنے تجارتی مقاصدکے لئے مودی سے
کسی قسم کا مک مکاکرچکے ہیں تب ہی نوازشریف کا رویہ بھارت اور مودی حکومت
کے ساتھ ہمدردانہ اور دوستانہ ہے،اور ایسادوستانہ اندازجس کا اظہارگزشتہ
پیر کو نوازشریف نے وزیراعظم ہاؤس میں امریکی سینیٹ کی آرمڈکمیٹی کے ارکان
سینیٹرز ٹم کین اور اینکس کنگ سے ملاقات کے دوران گفتگوکرتے ہوئے کیا ’’اِس
موقع پر ہمارے وزیراعظم نوازشریف کا اندازگفتگو انتہائی التجایہ اور
عاجزانہ تھا ایسے جیسے کہ یہ کسی کمزرور اور ناتواں مُلک کے وزیراعظم ہیں
اور پڑوسی مُلک بھارت کی جارحیت پر امریکیوں سے مدد کی بھیک مانگ رہے ہیں
اور امریکیوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ امریکابھارت کو ہم پر ظلم
وستم سے بازررکھے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ہماری مدد کرے اُنہوں
(وزیراعظم نوازشریف )نے امریکیوں سے روندھی ہوئی صورت بناتے ہوئے انتہائی
التجایہ اور عاجزانہ لہجے کے ساتھ حسبِ عادت و روایات گوش گزارکراتے ہوئے
کہا ہے کہ’’ پاک بھارت تعلقات صرف مذاکرات کے ذریعے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں ،
مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اقوام متحدہ اپنی قراردادوں کا احترام کرے، مسئلہ
کشمیرکا وہی حل قابلِ قبول ہوگا جسے پاکستان،بھارت اور کشمیریوں سمیت تمام
فریقین کی تائیدحاصل ہوگی، بھارت کے ساتھ خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات کی
معطلی پر مایوسی ہوئی ہے‘‘ ہمارے وزیراعظم مسٹرجناب مسٹرنوازشریف صاحب کے
اِن التجایہ اور عاجزانہ کلمات و جملے سُننے کے بعد اطلاع ہے کہ امریکی
ارکانِ کانگریس کی جنرل راحیل شریف سے بھی ملاقات ہوئی جس میں دوطرفہ تعاون
اور خطے میں سلامتی سے متعلق صورت حال پر بھی تبادلہ خیال ہوا،اِس موقع پر
راقم الحرف کو پوراپورا یقین ہے کہ کم ازکم جنرل راحیل نے دورانِ گفتگو اُس
قسم کا التجایہ اور عاجزانہ لب و لہجہ نہیں اپنایا ہوگاجس طرح کالب و لہجہ
وزیراعظم نوازشریف نے اپنے اُوپر طاری کررکھاتھا اِس بات کی بھی اطلاع ہے
کہ جنرل راحیل کے بعدامریکی سینیٹرزسرتاج عزیز سے بھی ملے ، اورمشیربرائے
خارجہ امور نے بھی ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی جانب سے جاری اشتعال انگیزی
اور کنٹرول لائن کی صورتِ حال پر وزیراعظم نوازشریف کا اندازِ گفتگواپناتے
ہوئے تشویش کا اظہارکیا۔
آج یقینا اِس سارے پس منظرمیں حکومت کی جانب سے حالیہ بھارتی جارحیت پر
بھارت اور عالمی سطح پر روارکھاگیاالتجایہ اور عاجزانہ لب ولہجہ اپنے اندر
جہاں بے شمارتحفظات لئے ہوئے ہے تووہیں پاکستانی قوم اپنے حکمرانوں سے یہ
بھی عرض کرناضروری سمجھتی ہے کہ بھارت میں مودی کی حکومت آنے کے بعد بھارتی
افواج کی ورکنگ باؤنڈری اور کنٹرول لائن پر اشتعال انگیزی بڑھ رہی ہے، تو
ایسے میں بھارت اور بھارتی افواج کے ساتھ زبان کی نوک سے بات کرنے اور
مذاکرات کا کوئی نیاسلسلہ شروع کرنے یاکرانے کے بجائے بھارتی وزیراعظم مودی
(مردودی) اور بھارت افواج کو جوتے اور جوتے کی نوک سے طاقت کا بھر
پوراستعمال کرتے ہوئے ،اِن کے دماغ پر چڑھاجنگی جنون اُتاراجائے اور اِن کے
ہوش ٹھکانے لگائے جائیں، کیوں کہ سوفیصد ہی ایسے لوگوں کے لئے آزمائی ہوئی
یہ مثال موجودہے کہ:۔ لاتوں کا بُھوت باتوں سے نہیں مانتا‘‘ ۔
اور اَب تو بھارتی میڈیانے بھی کھلم کھلاجنگی جنون میں مبتلا اپنے معتصب
اور انتہاپسندوزیراعظم نریندرمودی کو پاکستان کے ساتھ کشیدگی کا درجہ اول
کا ذمہ دارقراردیاہے اورمودی /مردودی پرسخت الفاظ میں تنقیدکرتے ہوئے کہاہے
کہ نریندرمودی اپنے معتصب اور انتہاپسندانہ و سیاسی مقاصدو ہداف حاصل کرنے
کے لئے پاکستان پر کسی نہ کسی بہانے کاری وارکرناچاہتے ہیں اگرچہ یہ بھارتی
عوام کو پہلے ہی روز سے اندازہ ہوگیاتھاکہ مودی بھارت کے خیرخواہ ثابت نہیں
ہوں گے بھارتی وزیراعظم بننے کے بعد نریندرپاک بھارت تعلقات کا خراب
ہونالازمی ہوجائے گا، آج پچھلی بھارتی حکومتوں کی پاک بھارت تعلقات کے
حوالوں سے بھارت نے معاشی و اقتصادی اور سیاسی و خارجہ پالیسیزکے لحاظ سے
پاکستان سمیت دنیابھر میں اپنا جو اورجتنامقام و امیج حاصل کرلیا ہے،مودی
/مردودی کا بھارتی وزیراعظم بننے کے بعدہی بھارت کا سارابنابنایاامیج خاک
میں ملناشروع ہوجائے گا،آج یقینایہ مودی کی اِن انتہا پسندانہ پالیسیوں کا
ہی نتیجہ ہے کہ بھارتی عوام مودی حکومت ختم کے جلدخاتمے کی خواہشمندہیں اور
ایک سروے کے مطابق بھارت کے امن پسندہندؤں کی بڑی تعدادمندروں میں عبادت کے
دوران بھگوان سے نریندرمودی کی حکومت کے جلدخاتمے کے لئے دُعائیں کررہی ہے
اور منتیں مانگتی نظرآرہی ہے،خطے میں بھارتی سلامتی اور امن کے لئے یہ بہت
ضروری ہے کہ نریندرمودی کی حکومت کا فوری خاتمہ ہوجائے تو بھارت کی سا لمیت
اور خودمختاری قائم رہ سکتی ہے ورنہ نریندر کے ہوتے ہوئے بہت مشکل ہوگااور
اِسی طرح بھارتی عوام کی اکثریت کا خام وقوی خیال یہ ہے نئے بھارتی
وزیراعظم مودی نے پاک بھارت تعلقات کو اپنے مخصوص مقاصدکے حصول کے خاطرخراب
کرکے بھارت میں دیدہ ودانستہ غیرمُلکی سرمایہ کاری اور بڑے منصوبوں کو خطرے
میں ڈال کربھارت اور بھارتی عوام کوا مریکاکا غلام رکھنے کی ٹھان رکھی ہے
،اور اِسی کے ساتھ ہی بھارتیوں کا خیال یہ بھی ہے کہ امریکا کو
اپناہمدردبتاکر امریکاکے سہارے ترقی کانعرہ لگاکربھارتی عوام پر اقتدارکی
دھونس جمانے والے نریندرمودی کا اصل چہرہ بھارتیوں کے سامنے آنے لگاہے کہ
نیابھارتی وزیراعظم اپنے چندماہ کے اقتدار میں بھارت کے لئے پڑوسی مُلک
پاکستان سے اچھے تعلقات کے حوالوں سے کتنامخلص ہے...؟ اور آج بھارت کے امن
پسندعوام کی بڑی تعدادجنگی جنون میں مبتلااپنے وزیراعظم نریندرمودی کے اِس
بیان پر بھی سخت خائف ہے اور اِن کا کہناہے کہ کس طرح نریندرمودی نے اپنی
زبان سے یہ سخت اور ناپاک الفاظ اداکئے ہیں کہ’’ پاکستان کو سبق سکھادیااَب
بولی نہیں گولی سے جواب دینے کا وقت ہے،اور بالخصوص بھارتی امن پسندوہ
ہندؤجو ابھی تک نریندرمودی کو اپناوزیراعظم تسلیم کرنے کو تیارہی نہیں ہیں
اِن کا کہناہے کہ نریندرمودی کو پاکستان کے بارے میں اپنے جارحانہ عزائم
بدلنے ہوں گے اور کسی بھی طرح یہ بھارتی وزیراعظم ہاؤس کو زیب نہیں دیتاہے
کہ وہ پاکستان سے حالات خراب کرے اور ایسے پیغامات جاری کرے کہ’’ پاکستان
کو گہرااورشدیدنقصان پہنچایاجائے‘‘ اِن ساری باتوں کے علاوہ بھارتی عوام
بالخصوص بھارتی ہندؤں نے اپنے ہفتہ ہفتہ آٹھ روز کے وزیراعظم نریندرمودی کے
اِس بیان ’’جب بھارت کی جانب سے پاکستان پر ایک ہزارمارٹرگولے برس رہے تھے
تو مودی نے کہا تھاکہ دُشمن چیخ وپکارکررہاہے اور بھارتی کمانڈروں کو مودی
نے مزید طاقت کے استعمال کی ہدایت کی تھی ‘‘ کوپاک بھارت تعلقات خراب کرنے
اور مستقبل قریب میں بھارت اور بھارتیوں کو اقتصادی وسیاسی اور سرحد پر
پہنچنے والے نقصانات پر خدشات کا اظہارکرتے ہوئے بھارت کے لئے پریشان کن
قراردیا ہے اور نریندرمودی کو بھارت کی جلدتباہی و بربادی کا ذمہ دار بھی
قراردیتے ہوئے اِنہیں بھارت کے لئے کینسر سے زیادہ مہلک ٹھیرادیاہے۔
آج جبکہ بھارت کے اندر نریندرمودی کی اپنی ساکھ خراب ہورہی ہے،بھارتی عوام
پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے مودی کی پالیسیوں پر کھلے لفظوں سخت تنقیدیں
کررہے ہیں اور بھارتی میڈیاسے لے کر عوامی سطح تک (سوائے بھارتی خارجہ
پالیسی کو چھوڑکر)سب ہی مودی کے پاکستان کے ساتھ روارکھی گئی جارحیت پر
انگلیاں اُٹھارہے ہیں تو پھر ایسے میں ہمارے وزیراعظم نوازشریف کو مودی سے
اِس کی جارحیت پر التجایہ اور عاجزانہ رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں ہے ، وہ
مودی کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کریں اور اپنے محب وطن عوام اور وطن پر
جان نثارکردینے والی افواج پاک کے جذبہ ایمان اور حب الوطنی پر بھروسہ کرتے
ہوئے نواز مودی کومنہ توڑ جواب دینے میں نہ ہچکچائیں......؟؟اورنریندرمودی
/مردودی کو ایساسبق سکھائیں کے اِسے کہیں چھپنے کے لئے پناہ بھی نصیب نہ
ہواور اِس کا پاگل پن والا جنگی جنون اور اِس کی ہندوذہانت والی شدت پسندکا
بھی خاتمہ ہواور دونوں جانب یعنی یہ کہ سرحدکے اِس پاراور اُس پارکے امن
پسندعوام کو سُکھ کا سانس نصیب ہواور خطہ امن اور چین کا گہوارہ بن جائے۔ |
|