ہندوستانی جارحیت آج بھی کشمیر میں جاری ہے

پاکستان کو آزادی حاصل کئے 68سالوں کا عرسہ گذر چکا ہے۔ مگر ہندو ذہنیت نے پاکستان کی آزادی کو اُس طرح تسلیم نہیں کیا جس طرح کسی آزاد ملک کی آزادی کو تسلیم کرنے کا اسکو حق حاصل ہے۔ہندو ذہنیت یہ تھی کہ ہندوستانناقابلِ تقسیم تھا جس کو یہ بھارت ماتا کا نام دیتے ہیں۔وجہ اس کی ان لوگون کی ہندوستان کی تاریخ سے ناواقفیت ہے۔اس کی مثال کے لئے ہم ہندوستان میں ہونے والے دو واقعات کا ذکر کرتے ہیں،جس سے ایک اور متحدہ ہندوستان کا جھوٹا تصور واضح ہو جائے گا۔گیارہویں صدی کے پہلے سال محمود غزنوی نے جب ہندوستان میں ان کے مشہور معبد سومنات پر حملہ کیا تو انگریز دور کے ہندوستان کی طرح یہ ایک ملک نہیں تھا بلکہ بیسیوں ریاستوں اور رجواڑوں پر مشتمل علاقہ تھا ۔یہی وجہ تھی کہ ہندو دھرم کی رکھشا کے نام پر تمام راجے مہاراجے محمود غزنوی کے سامنے تین لاکھ سے زیادہ کا مشترکہ فوجی لشکر لے کر آئے تھے اور شکست سے ہمکنار ہوئے تھے۔گیارہویں صدی کے آٹھویں عشرے میں جب شہاب الدین محمد غوری سے پرتھوی راج کا مقابلہ ہوا تو اُس نے بھی ہندو دھرم کی رکھشا کے نام پر تمام ہندو راجوں مہاراجوں سے در خوست کی کہ ہند مذہب کی حفاظت کے لئے وہ اپنی فوجیں پانی پت کے میدان میں اُس کی فوجوں کے ساتھ اتاریں تاکہ تمام رجواڑوں کے ہندو مذہب کو محفوظ رکھا جاسکے۔اس جنگ میں بھی ہندووں کی تین لاکھ سے زیادہ فوجوں کو عبرت نال شکست کا سامنا کرنا پڑا۔حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کو متحدہ ہندوستا مسلمان حکمرانوں نے بنایا تھا جس پر انگریز نے غاصبانہ قبضہ کر لیا تھا۔مگر تحریکِ پاکستان کے دوران ہنددووئں نے اکھنڈ بھارت کے نعرے کو مذہبی نعرے کے طور پر بھارت ماتا کا نام دییدیا تھا جس کی کبھی بھی کوئی حیثیت تھی ہی نہیں۔

جیسا کہ ساری دنیا کو علم ہے ہندوستان سیکولرزم کا دعویٰ تو کرتا ہے مگر حقیقت میں یہ ایک متعصب ہندو ریاست ہے جہاں ہندووء ں کے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کی گنجائش ہے ہی نہیں۔ہندوستان اپنے تعصب کی وجہ سے قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان کے خلاف جارحیت کا کوئی موقع گنوانے کے لئے تیار نہیں ہے۔آبادی کے لحاط سے بڑا ملک ہونے پر اسے ہمیشہ یہ تکبر رہا ہے کہ وہ پاکستان کو جب چاہے چیونٹی کی طرح مسل کر برباد کر سکتا ہے۔ یہ عیسائت کا مسلمانوں سے خوف ہی تو تھا جس کے زیرِ اثربرطانوی مامراج ہندوستان سے جاتے ہوئے کشمیر جیسے مسائل پید اکر کے یہاں سے نکلا۔چاہے وہ آبادی کی اکثریت ہو،جغرافیائی محلِ وقوع ہویا راہداری کا معاملہ ہوکشمیر ہر لحاظ سے پاکستان کا حصہ ہے ․․․․مگر ہندوستان نے ہمیشہ سے اس پر للچائی ہوئی نظریں رکھی ہوئی ہیں۔آزادی کے فوراََ بعد ہندوستان سے کشمیر میں داخلے کا کوئی راستہ نہ ہونے کے باوجود اپنی ہندوستان نے اپنی فوجیں سرینگر کے ہوائی اڈے پر اتار کر کشمیر پر غاصبانہ قبضے کی کوششوں کی شروعات کردی تھیں ۔جب ہندوستانکی سات لاکھ فوج کو یہاں پر ہزیمت کا سامنا ہواتو پنڈت نہرو بھاگے ہوے اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو لے گئے۔ جہاں انہوں نے ساری دنیا سے وعدہ کیا تھا وہ اقوم متحدہ کی قرار داد وں کے تحت کشمیر کے مسئلے کو حل کریں گے اور کشمیریوں کو اُن کا حقِ خود ارادیت دیدیں گے مگر 67 سالوں کے گذر جانے کے باوجود وہ کشمیریوں کو ہندوستان ان کا حق خود ارادیت دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔

ہندوستان کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کشمیر کے مسئلے پر وہ ہم سے چار مرتبہ جنگیں کر کے پنجہ آزمائی کرچکا ہے ۔اور را کے ذریعے پاکستان میں مسلسل تخریب کاریاں کراتا رہا ہے۔مگر ہر محاذ پر ہم نے ہندوستانیوں کو منہ کی کھانے پر مجبور کیا۔آج بھی ہندوستان نے نہتے کشمیریوں کو دبانے کیلئے اس وادی میں سات لاکھ سے زیادہ فوجوں کا جمِ غفیر اکٹھا کیا ہوا ہے ۔مگر کشمیریوں کی آزادی کی آواز کو دبا نہیں سکا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں ایک ایسا کمانڈو بھی پیدا ہوا جس نے کشمیر کے کاذ کو جی بھر کے نقصان پہنچایاجمو وکشمیر کے مقبوضہ علاقے کو ہمیشہ کیلئے ہندوستان کے حوالے کرنے کی غرض سے لائن آٖ کنٹرول پر اُس نے ہندوتان کو باڑ لگانے کی اجازت دے کر کشمیریوں کی پیٹھ میں خنجر اتار دیا۔ایسے ہی لوگوں کے کرتوتوں سے ہندوستان کشمیریوں کو جب چاہتا ہے جی بھر کر نقصانات پہنچا دیتا ہے۔
موجودہ حکومت نے ہندوستان سے بہتر تعلقات کی غرض سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ،حد تو یہ ہے کہ وہ نریندر مودی جو انتہائی متعصب ہندو ہے اور جس کی جماعت (بی جے پی) بھارتیہ جنتا پارٹی مسلمانوں کے خون کی پیاسی، جو ہندو مسلم فسادات کے دوران ہزاروں ہندوستانی مسلمانوں کی قاتل ا ور ہمیشہ پاکستان کے خلاف زہر اُگلتی رہی تھی۔کی حلف برداری کی تقریب میں خیر سگالی کے جذبے کے تحت وزیر اعظم پاکستان خود ذاتی طور پر ہندوستان تشریف لے گئے تاکہ دونوں ممالک کے مابین دوستی کے رشتوں کی ابتدا کر کے اپنے تمام مسائل کو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کی راہ نکالیں۔دونوں ممالک کے عوم خوش تھے کہ اب ہماری دشمنیاں دوستی میں بدلنے کو ہیں۔سیکریٹریِ خارجہ لیول پر بات چیت کا آغاز کیاجانا تھا جس کی تاریخ بھی طے ہوچکی تھی۔کہ اسی دوران پاکستانی سفیر سے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کا ایک وفد ملا جو روٹین کامعاملہ تھا،جس کو بہانہ بنا کر ہندوستان نے پاکستان سے بات چیت کے دروازے بند کر دیئے گویا بی جے پی حکومت نے اپنی متعصبانہ پالیسی کا آغاز پاکستان سے دوستی کے دروازے بند کر کے کر دیا
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان کی نرندر مودی سرکار سرحدی خلاف ورزیوں سمیت پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے پرانے طور طریقوں میں مزید شدت لانے کی پالیسی اختیار کر لی ہے۔جس کے تحت کشمیر کی لائن آف کنٹرول اور سیا لکوٹ کی ورکنگ باؤنڈری پر ہندوستان نے بلا اشتعال فائرنگ کر کے مسائل پیدا کرنے شروع جر دیئے ہیں۔ جون جولائی اور اگست کے دوران ہندوستان کی طرف سے کئی بار جارحیت کا ارتکاب ہوااور کنٹرول لائن پر گولہ باری کی جاتی رہی ،ان جار حانہ معاملات کی وجہ سے پانچ قیمتی جانوں کا بھی اتلاف ہواس کے باجود پاکستان کی جانب سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا رہا۔6،اکتوبر عیدا لاضحی کے دن ہندوستانی فوجیوں نے پھر ایک مرتبہ بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ شروع کر کے کئی قیمت جانوں کو اپنی جارحانہ گول باری اور مسلسل فائرنگ سے شہید کر دیا۔حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ یہ کھیل ہندوستانی ہر عید پر دہراتے رہتے ہیں۔عید کے تینوں دنوں کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پرہندوستان کی جارحیت جاری رہی ۔جس پر ہندوستانی ہائی کمشنر کو دفترِ خارجہ طلب کر کے اشتعال انگیزی اور سیز فائر لائن کی خلاف ورزی پربا ضابطہ احتجاج کیا گیا۔ہندوستان کی جارحیت کے نتیجہ میں 13،پاکستانی جام شہات نوش کر چکے ہیں۔ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی امریکہ کے صدر سے دو ملاقاتوں میں امریکی آشیرواد ملنے کے بعد ہندوستان پاکستان پر جارحیت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ہندوستانی فوج کی جانب سے آزاد کشمیر ،سیالکوٹ،نارووال میں کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بلا اشتعال مسلسل فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھاہوا ہے۔جس میں شہری آبادی کو بھی نشانہ بنایاجا رہا ہے۔اس جارحیت کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی ہوےء اور بے شمار مال مویشیوں کا نقصان ہوااور سینکڑوں مکانات مٹی کا ڈھیر بن چکے ہیں۔کشمیریوں کا قصور یہ ہے کہ وہ ہندوستان سے آزادی مانگتے ہیں اور پاکستان کا حصہ بننے کے خوہش مند ہیں۔جس کے لئے لاکھوں کشمیری اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہے ہیں۔مگر اُن کے پائیہِِ ا ستقلال میں کوئی فرق نہیں آیا۔اب جبکہ ہندوستان اب تک 30 ،ہزار گولے فائر کر چکا ہے اور لاکھوں گولیاں کشمیریوں پر چلا چکا ہے ۔مگر وہ ا ن کشمیریوں کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکا ہے۔ہندوستان کی اس جارحیت کی وجہ سے 75 ،ہزار کے قریب لوگ متاثر ہوئے ہیں۔جن میں سے لگ بھگ 21 ،ہزار لوگ نقلِ مکانی پر مجبور کر دیئے گئے ہیں۔ہندوستان کی جانب سے اب تک 35 ،مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔مگر پاکستانی جوانوں نے بھی ہندوستانی جارحیت کا پورے عزم اورجوان مردی کے ساتھ منہ توڑ جواب دے کر ہر بار ہندوستانی توپوں کے منہ بند کردیئے ہیں۔

جمعہ 10، اکتوبر 2014 کووزیر اعظم نواز شریف کی زیرِ صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا تاکہ ہندستانی جارحیت پر غور کیا جائے۔پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت نے ہندوستانی افواج کی جانب سے ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر کی جانے والی مسلسل خلاف ورزی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔جس کی وجہ سے پاکستان کی مسلح افواج کے ایک درجن سے زیادہ جوان اور بے گناہ شہری شہیداور متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ جہاں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ملکی سرحدوں کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی پر پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے فوجی مبصر گروپ کے سامنے معاملہ اٹھا کر اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرادیا ہے۔دوسری جانب اقوام متحدہ میں بھی پاکستان نے ہندوستان کی طرف سے ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری کی مسلسل خلاف رزی کا معاملہ اٹھایا ہے۔اور پاکستانی مندوب نے اقوامِ متحدہ سے جنگ بندی کو یقینی بنانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

یہ بات قابل،توجہ ہے کہ ہندوستان کے جنگی جنون کی وجہ سے علاقے میں پانچ خطرناک جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ان میں سے ایک چین کے ساتھ اور چار پاکستان کے ساتھ۔ہندوستان مالدیپ میں بھی مداخلتِ بے جا اور سری لنکا میں تاملٹائگر نامی باغی تنظیم کے باغیون کی سری لنکا حکومت کے خلاف مدد کرتا رہا ہے ،جو اقوامِ متحدہ کے ثارٹر کے خلاف ہے اورجو اس کی علاقے میں ہندوستان کی ہیکڑی کی واضح مثالیں ہیں۔جن ریاستوں نے آزادی کے وقت پاکستان سے الحاق کا اعلان کی ا ن میں،جو ناگڑھ، ما نا ودر، مانگرول اور حیدر آباد دکن کی ریاستیں شامل ہیں ان پر ہندوستان نے جارحانہ طریقے پر فوج کشی کر کے اپنا قبضہ جما لیا۔آزادی کے فوراََ بعد اس نے پاکستان کی مسلم اکثریتی ریاست جمو و کشمیر پر فوج کشی شروع کردی اس فوج کشی کے نتیجے میں کشمیر میں جنگ آزادی 26 ،ماہ تک جاری رہی۔ پاکستانی فوجوں نے کشمیریوں اور قبائلی جوانوں کی مدد سے کشمیر کے ایک بہت بڑے حصے پر ہندوستانی فوجوں کو قبضہ نہیں کرنے دیا اور موجودہ آزاد کشمیر اُسی جدوجہد کے نتیجے میں ہندوستان کے چنگل سے آزاد کر ا یا گیا تھا۔مگر ان تمام باتوں کے باوجود بھی ہندوستان اپنی جارحانہ حکمتِ عملی سے کبھی بھی باز نہیں آیا ۔موقع ملتے ہی اس نے پاکستان کے علاقے یاسیاچن گلیشیئر پر ہماری فوجی غفلت کی وجہ سے 1984 میں اپنی فوجیں اتار دیں ۔جس پر قبضہ کر لینے کے بعد اب وہ اس علاقے کوخالی کرنے کیلئے تیار ہی دکھائی نہیں دیتا ہے۔ پاکستانیوں کا کشمیریوں سے یہ وعدہ ہے کہ وہ ان کو ہندو کی غلامی سے نجات دلا کر رہیں گے ۔ اس کے لئے ہمیں چاہے جتنی بھی قربانی دینی پڑے۔ پاکستان کا بچہ بچہ کشمیر پر قربان ہونے کے لئے پر عزم ہے۔وہ دن ضرور آئے گا جب کشمیر بنے گا پاکستان ۔ہم کشمیر کو ہندو جارحیت سے ہر قیمت پر آزاد کراکے دم لیں گے۔
 
Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 189948 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.