سائبر کرائم ساری دنیا کا درد سر
(Ata Muhammad Tabasum, Karachi)
انٹرنیٹ کی دنیا میں سائبر کرائم
ایک ایسا جرم ہے جس میں کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ویب سائٹ کو ہیک
کرنا، غیر قانونی ہیکنگ سائٹس بنانا، کسی شخص کا پاس ورڈ چرا کر اس کا غلط
استعمال کرنا، کسی بھی شخص کی فحش تصاویر بنا کر انہیں انٹرنیٹ پر شائع
کرنا، بیہودہ اور سپیم ای میل بھیجنا، بڑے اداروں کی معلومات چرا کر انہیں
دیگر ممالک یا کمپنیوں میں لنک کرنا، معلومات چرا کر لوگوں کو لوٹنااور فحش
فلمیں بنا کر بیرون ملک فروخت کرنا شامل ہیں۔
عطا محمد تبسم
دنیا بھر میں انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے جرائم تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
سائیبر کرائم کا جال ملکوں ملکوں پھیلتا جارہا ہے۔ ساری دنیا میں یہ جرائم
ہورہے ہیں لیکن ان کے سدباب کے لئے کوئی مشترکہ کوشش نظر نئی آتی۔ سائبر
کرائم ایک ایسا جرم ہے جس میں کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ویب سائٹ کو
ہیک کرنا، غیر قانونی ہیکنگ سائٹس بنانا، کسی شخص کا پاس ورڈ چرا کر اس کا
غلط استعمال کرنا، کسی بھی شخص کی فحش تصاویر بنا کر انہیں انٹرنیٹ پر شائع
کرنا، بیہودہ اور سپیم ای میل بھیجنا، بڑے اداروں کی معلومات چرا کر انہیں
دیگر ممالک یا کمپنیوں میں لنک کرنا، اور فحش فلمیں بنا کر بیرون ملک فروخت
کرنا شامل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ عالمی پیمانے پر ’تقریبا 100‘ لوگ ہی ہیں جو پوری دنیا کے
سائبر جرائم کے لیے ذمہ دار ہیں۔یورپی یونین کے پولس سائبر کرائم سینٹر کے
سربراہ ٹروئلز اورٹنگ کہتے ہیں کہ تفتیش کرنے والے افسران اگر ’بہترین
پروگرامرز کے ایک مختصر گروہ پر توجہ دیں تو بہتر نتائج برآمد ہوں
گے۔‘انھوں نے کہا: ’ہم انھیں بمشکل ہی جانتے ہیں۔ اگر ہم ان لوگوں کو
ناکارہ کر دیتے ہیں تو باقی اپنے آپ گر جائیں گے۔‘ان کا خیال ہے کہ سائبر
کرائم سے نمٹنا مشکل کام ہے اور ایسے لوگوں کی تعداد بڑھنے ہی والی
ہے۔اورٹنگ کہتے ہیں: ’ہم ابھی ان کا سامنا کر سکتے ہیں لیکن مجرموں کے پاس
زیادہ وسائل ہیں۔ ان کے سامنے مشکلات بھی نہیں ہیں۔ وہ لالچ اور منافع کے
لیے کام کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا: ’ہم جتنی رفتار سے انھیں پکڑ رہے ہیں وہ اس سے زیادہ تیزی سے
مال وییر (کمپیوٹر وائرس) بنا رہے ہیں۔‘
ان کے مطابق سائبر جرائم کا سامنا کرنے میں سب سے بڑی مشکل ایسے مجرموں کا
کسی ملک اور سرحد کے باہر ہونا ہے۔انھوں نے کہا: ’مجرم اب ہمارے ملک میں
نہیں آتے۔ وہ بہت دور بیٹھ کر جرم کرتے ہیں۔ عام حکمت عملی سے ہم انھیں
نہیں پکڑ سکتے۔‘ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سائبر کرائم سے جڑے بیشتر اہم مجرم
روسی زبان بولنے والے علاقوں سے آتے ہیں۔اورٹنگ حال ہی میں روسی دارالحکومت
ماسکو میں سائبر جرائم پر بات چیت کے لیے گئے تھے۔ انھیں امید ہے کہ مجرموں
کو گرفتار کیا جائے گا اور انھیں سزا ملے گی۔انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی
روز افزوں تعداد نے سائبر کے مجرمین کے کام کو قدرے مشکل بنا دیا ہے۔ان کا
کہنا ہے کہ سائبر کے جرائم پیشہ افراد مال وییر کو آن لائن پر فروخت کر رہے
ہیں۔عام لوگوں کو ان مجرموں سے کس طرح کا خطرہ ہو سکتا ہے، اس پر اورٹنگ نے
کہا: ’آپ کو اپنی ذاتی اور حساس معلومات کی حفاظت کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
آپ کے بارے میں تھوڑی سی معلومات حاصل کر کے وہ آپ کے گوگل، فیس بک یا آئی
فون اکاؤنٹ میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔‘تاہم اورٹنگ کا خیال ہے کہ انٹرنیٹ
استعمال کرنے والوں کی روز افزوں تعداد نے ان کے کام کو قدرے مشکل بنا دیا
ہے۔ پاکستان میں راولپنڈی کے ایک اے ٹی ایم سے کروڑوں روپے اڑالیئے گئے۔
سائیبر کرائم کرنے والوں نے ایسی چپس اے ٹی ایم میں لگا دی تھی۔ جس سے اے
ٹی ایم استعمالکرنے والوں کی تمام معلومات منتقل ہوجاتی تھی۔ اب محققین نے
اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ سائبر چوروں نے اے ٹی ایم یعنی کیش مشین سے رقم
اڑانے کے لیے وائرس کا استعمال کیا ہے۔
حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مجرموں نے مشین میں سوراخ کر کے اس کے ساتھ
یو ایس بی منسلک کی تاکہ اے ٹی ایم کا استعمال کرنے کے لیے وہ اس میں خراب
سافٹ ویئر ڈال سکیں۔جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں ہیکروں پر مبنی ’کیاس کمپیوٹنگ
کانگریس‘ نامی تھیم کے تحت اس حملے کی تفصیلات بتائی گئیں جس میں ایک بینک
کی کیش مشین کا ذکر کیا گیا تاہم بینک کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔اس میں یہ
بات بھی کہی گئی کہ سائبر چور ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے۔اس سارے
معاملے کی جن دو محققین نے تحقیق کی ہے انھوں نے بھی یہ استدعا کی ہے کہ ان
کا نام ظاہر نہ کیا جائے۔چوری کا علم جولائی سنہ 2013 میں اس وقت سامنے آیا
جب اس بینک نے یہ محسوس کیا کہ ان کی اے ٹی ایم سارے حفاظتی اقدام کے
باوجود خالی ہو رہی ہے۔جب نگرانی بڑھائی گئی تو بینک کو یہ معلوم ہوا کہ
چور مشین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے اس کے ساتھ کمپیوٹر وائرس والی یو ایس بی
سٹک منسلک کر دیتے ہیں۔ایک بار جب اے ٹی ایم میں خراب وائرس چلے جاتے ہیں
پھر وہ اس سوراخ کو بند کر دیتے ہیں اور اس طرح وہ ایک ہی مشین کو بغیر کسی
مزید خطرے کے بار بار نشانہ بنا سکتے ہیں۔شروع میں چور اپنا کوڈ ایکٹیویٹ
کرنے کے لیے 12 ہندسوں پر مشتمل ایک کوڈ ڈالتے ہیں جو مخصوص انٹر فیس لانچ
کر دیتے ہیں۔چار متاثرہ مشینوں میں انسٹال کیے جانے والے خراب سافٹ ویئر کے
تجزیہ سے یہ معلوم ہوا کہ ایک مخصوص انٹر فیس اس مشین میں موجود رقم کے
بارے میں معلومات دیتا ہے کہ اس مخصوص مشین میں کس قیمت کے کتنے نوٹ ہیں۔
یعنی کتنے پانچ سو کے نوٹ ہیں، کتنے ہزار کے نوٹ ہیں اور کتنے سو کے نوٹ
ہیں وغیرہ۔ اور اس میں پھر ایک مینو یا فہرست موجود ہوتی ہے جس میں یہ
سہولت ہے کہ آپ اس میں سے کس قسم کا نوٹ کتنی مقدار میں نکالنا چاہتے ہیں۔
تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے حملہ آور سب سے زیادہ قیمت والے نوٹ
کو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انھیں زیادہ خطرہ اٹھائے بغیر کم سے کم
وقت میں زیادہ سے زیادہ رقم حاصل ہو سکے۔تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح
کے حملہ آور سب سے زیادہ قیمت والے نوٹ کو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ
انھیں زیادہ خطرہ اٹھائے بغیر کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ رقم حاصل ہو
سکے۔لیکن اس جرم کے ماسٹر مائنڈ کو اس بات کی بھی فکر ہے کہ کہیں ان کے
گروہ کا کوئی آدمی یہ کام اکیلے ہی نہ کر لے۔ اس لیے انھوں نے اپنے مخصوص
پروگرام میں بھی خفیہ کوڈ رکھا ہوا ہے اور اسی کے بعد اے ٹی ایم سے رقم نکل
سکتی ہے۔اور کوڈ جاننے کے لیے ہر بار گینگ کے دوسرے رکن کو فون کرنا پڑتا
ہے مزید برآں اگر وہ تین منٹ تک اس مشین پر کچھ نہیں کرتے تو وہ مشین پھر
سے معمول پر آ جاتی ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ اس سافٹ ویئر کا نام تو وہ
نہیں جان سکے۔ لیکن اس کے سدباب کی کوشش کی جارہی ہے۔ حال ہی میں برطانیہ
کے وزیر دفاع نے قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ایک سائبر یونٹ تشکیل دینے کے
منصوبے کا اعلان کیا ہے۔نئے جوئنٹ سائبر ریزرو یونٹ کے لیے وزارت دفاع
کمپیوٹر کے سینکڑوں ماہرین کو بطور ریزرو بھرتی کرے گی جو مستقل اراکین کے
ساتھ مل کر کام کریں گے۔وزیر دفاع فلپ ہیمنڈ کا کہنا تھا کہ اگر ضرورت پڑی
تو یہ نئی فورس سائبر حملے بھی کرے گی۔اس سلسلے میں بھرتیاں کا سلسہ اگلے
ماہ شروع کیا جائے گا۔اس فورس کا کام کمپیوٹر نیٹ ورک اور اہم ڈیٹا کا تحفظ
ہوگا۔وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’جوائنٹ سائبر یونٹ کی تشکیل سے
ان لوگوں کی انفرادی قابلیت، ہنر اور مہارت سے فائدہ اٹھایا جا سکے گا جو
انہوں نے سویلین تجربے سے حاصل کی ہے اور خطروں سے نمٹا جائے گا۔‘فلپ ہیمنڈ
نے اخبار دی میل آن سنڈے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سائبر حملوں‘ سے دشمن کے
کمیونیکیشن، جوہری اور کیمیائی ہتھیاروں، ہوائی و بحری جہازوں کو ناکارہ
بنایا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا ’لوگ ملٹری کی بارے میں جب بات کرتے ہیں تو
بری، بحری اور ہوائی کا سوچتے ہیں۔ بہت عرصہ قبل ایک چوتھی قسم خلا آئی تھی
اور اب پانچویں سائبر ہے۔‘
’اب دفاع کے لیے ایک اور محاذ ہے۔ کئی سالوں سے ہم ایک دفاعی نظام بنا رہے
ہیں تاکہ خود کو سائبر حملوں سے محفوظ رکھ سکیں لیکن اب وہ کافی نہیں
ہے۔‘’آپ جارحانہ صلاحیت سے لوگوں کو روک سکتے ہیں۔ ہم دشمن کے سائبر حملوں
کا جواب دینے کے لیے برطانیہ میں سائبر حملے کی صلاحیت پیدا کریں گے۔سائبر
کو اب بری ، بحری، ہوائی اور خلائی کارروائیوں کے ساتھ شامل کر دیا جائے
گا۔‘’ہمارے کمانڈر مستقبل کی لڑائیوں میں روایتی ہتھیاروں کے ساتھ سائبر
ہتھیار بھی استعمال کر سکیں گے۔‘حالیہ برسوں میں سائبر حملے اور جرائم بہت
عام ہوتے جا رہے ہیں۔
جولائی میں برطانوی خفیہ ادارے جی سی ایچ کیو نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ
برطانیہ کی حکومت اور انڈسٹری کے نیٹ ورک کو ہر ماہ جاسوسی کی غرض سے ستر
سائبر حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔گزشتہ دسمبر میں کابینہ کے وزیر فرانسس
مودے نے ایک تحریری بیان میں کہا تھا کہ دو ہزار بارہ میں 93 فیصد بڑے
اداروں اور 76 فیصد چھوٹے کاروباروں نے سائبر حملے کی رپورٹ کی تھی
۔برطانیہ میں بچوں کے استحصال کے واقعات پر نظر رکھنے والے ادارے نے کہا ہے
کہ ملک میں سینکڑوں بچوں کو آن لائن بلیک میلنگ کے ذریعے جنسی حرکات کرنے
پر مجبور کیا جاتا ہے۔
چائلڈ ایکسپلائٹیشن اینڈ آن لائن پروٹیکشن سنٹر کے مطابق مجرم خود کو بچہ
ظاہر کر کے بچوں سے آن لائن ملتے ہیں اور انھیں مائل کرتے ہیں کہ وہ جنسی
نوعیت کی تصاویر انھیں دے دیں۔ اس کے بعد وہ بچوں کو دھمکی دیتے ہیں کہ یہ
تصاویر ان کے خاندان کے افراد یا دوستوں تک پہنچا دی جائیں گی۔سی ای او پی
کے مطابق گذشتہ دو برسوں میں پیش آنے والے 12 ایسے واقعات میں 424 بچوں کو
اس طریقے سے بلیک میل کیا گیا، جن میں سے 184 بچوں کا تعلق برطانیہ سے
تھا۔ادارے کے ڈپٹی چیف ایگزیکٹو اینڈی بیکر کا کہنا ہے کہ جنسی استحصال کے
واقعات میں تیزی آئی ہے۔سائبر بلیک میلنگ کا شکار بننے والے کئی بچے خودکشی
کر چکے ہیں، جن میں ایک 17 سالہ برطانوی لڑکا بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ سات
نے اپنے آپ کو سنگین نقصان پہنچایا ہے، جن میں سے چھ کا تعلق برطانیہ سے
ہے۔
بیکر نے کہا: ’ہم انٹرنیٹ کے ایک بہت چھوٹے سے تاریک گوشے کا ذکر کر رہے
ہیں، اور یہ وہ جگہ ہے جس کی نگرانی کی ضرورت ہے۔‘برطانوی بچوں کو نشانہ
بنانے کی سب سے پہلی وجہ تو انگریزی زبان ہے، کیوں کہ یہ بہت مقبول زبان
ہے۔ اس کے علاوہ مجرم سمجھتے ہیں کہ برطانوی معاشرہ بہت آزاد خیال ہے، اس
لیے وہ برطانوی بچوں کو زیادہ آسانی سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔اس سال جولائی
میں 17 سالہ ڈینیئل پیری نے خودکشی کر لی تھی۔ بلیک میلروں نے پہلے انھیں
جھانسا دیا کہ وہ ایک امریکی لڑکی سے چیٹنگ کر رہے ہیں، اور پھر ان سے
مطالبہ کیا کہ وہ ہزاروں پاؤنڈ رقم ادا کریں۔انھیں دھمکی دی گئی تھی کہ ان
کی ویڈیو چیٹنگ ان کے دوستوں اور خاندان کے افراد کو دکھائی جائے گی۔سی ای
او پی کے مطابق بلیک میلروں کا تعلق چار براعظموں سے ہے اور پانچ ایسے
واقعات ہوئے ہیں جن میں مجرم برطانیہ سے کارروائی کر رہے تھے۔بیکر نے کہا
کہ آٹھ برس تک کی عمر کے بچوں کو ’غلامانہ حرکتوں‘ کے لیے مجبور کیا جاتا
ہے۔ جنسی حرکات کے علاوہ ان بچوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ آپ کو نقصان
پہنچائیں۔ اس کے علاوہ ان سے رقم بٹورنے کی بعض کوششیں بھی ہوئی
ہیں۔پاکستان میں جرائم کی وارداتوں میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے
اور صورتحال اب یہ ہے کہ جرائم کی وارداتوں کا عام ہونا معمول کی بات بن
چکی ہے۔ قتل و غارتگری، لوٹ مار اور چوری و ڈکیتی کی وارداتوں کے ساتھ ساتھ
آج کل سائبر کرائم میں بھی دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جدید ٹیکنولوجی
کے اس دور میں جہاں ماڈرن ٹیکنولوجی کے استعمال نے ملک و سماج کو ترقی کی
راہ پر گامزن کیا، وہیں نوجوان نسل اس جدید ٹیکنولوجی کا غلط استعمال کرکے
سماج کو برائیوں کی طرف بھی لے جا رہی ہے۔ سائبر کرائم ایک ایسا خطرناک جرم
ہے جو موجودہ نوجوان نسل کو تباہی کے دہانے پر لے جا رہا ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے سال2007 میں سائبر کرائم آرڈیننس جاری کیا تھا، جس
کے بعد موجودہ حکومت نے بھی اس آرڈیننس کی تجدید کر دی۔ اس قانون کا مقصد
دیگر ممالک کی طرح پاکستان کو انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے جرائم کی روک
تھام کے لئے قوانین سے لیس کرنا اور نوجوان نسل کو انٹرنیٹ کے خطرات سے
بچانا ہے، جبکہ انٹرنیٹ کے ذریعے کئے جانیوالے جرائم کی روک تھام کے لئے
دنیا کے تقریباً تمام ممالک نے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ پاکستان نے بھی
اس سلسلے میں قابل اعتماد اقدام اٹھائے ہیں، جن میں سائبر کرائم سے متعلق
قانون سازی بھی شامل ہے۔
اس قانون سازی کے اجرا سے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان میں سائبر کرائم
میں خاطر خواہ کمی آتی، لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوچکا ہے۔ اس
آرڈیننس کے غیر مؤثر ہونے سے اس وقت بھی سائبر کرائم کے تحت رجسٹرڈ ہونے
والے ہزاروں کیس التواء کا شکار ہیں، جبکہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے علاوہ
موبائل فون کے ذریعے جرائم کرنے والے افراد کے خلاف ایف آئی اے کا سائبر
کرائم ونگ بھی اب بے بس نظر آتا ہے۔ تقریباً ڈھائی سال قبل ایف آئی اے نے
پاک بگز اور پاک ہیکرز کے نام سے ۲ ایسے گروپس کے خلاف کارروائی کی تھی جو
پاکستان میں مختلف سرکاری اور غیر سرکاری ویب سائٹس ہیک کرکے ان کا سارا
ڈیٹا حاصل کرتے رہے ہیں۔ یوں تو ان دونوں گروپس سے وابستہ درجنوں نوجوانوں
کو ایف آئی اے سائبر کرائم نے گرفتار بھی کیا، لیکن قانون غیر مؤثر ہونے سے
ان کے خلاف کارروائی نہ کی جاسکی۔
ہیکرز کے اس گروہ نے سرکاری ویب سائٹس میں نہ صرف فیڈرل پبلک سروس کمیشن،
وفاقی تعلیمی بورڈ، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور کئی دیگر سرکاری اداروں کی
ویب سائٹس کو ہیک کیا، بلکہ ایف آئی اے کی ویب سائٹ کو بھی نہ بخشا گیا،
جبکہ غیر سرکاری ویب سائٹس کی تعداد کئی گناہ زیادہ ہے۔ ایف آئی اے کی جانب
سے پاک بگز کے خلاف مناسب کارروائی تو نہ ہوسکی، البتہ اتنا ضرور ہوا کہ اس
گروپ کی منفی سرگرمیاں کافی حد تک محدود ہو گئیں، لیکن پاک ہیکرز نامی گروپ
سرکاری و غیر سرکاری ویب سائٹس ہیک کرنے کے علاوہ مختلف ڈسکشن فورمز اور
ویب سائٹس کی انتظامیہ کو سائٹس ہیک کرنے کی دھمکیاں دینے سے باز نہیں آیا۔
آئی ٹی درسگاہ ڈوٹ کوم نامی ویب سائٹ حکومتی سرپرستی کے بغیر قومی زبان میں
آئی ٹی کی مفت تعلیم دیتی ہے۔ اس فورم پر کام کرنے والی ٹیم تعلیم یافتہ
اور پیشہ ور افراد پر مشتمل ہے جو اپنی مدد آپ کے تحت مختلف فورمز پر آئی
ٹی کی مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ آئی ٹی تعلیم کی درجہ بندی میں اس وقت
پاکستان کا نمبر140 ہے، جو ایک خوش آئند بات ہے۔ اس کے علاوہ براڈ بینڈ
انٹرنیٹ سروس استعمال کرنے والوں میں پاکستان کا نمبر پوری دنیا میں چوتھا
ہے۔ آئی ٹی کے فروغ میں جہاں حکومت اہم کردار ادا کر رہی ہے وہیں آئی ٹی
درسگاہ جیسی بیشتر ویب سائٹس بھی حکومتی سرپرستی کے بغیر آئی ٹی کے شعبے
میں پاکستان کا نام روشن کر رہی ہیں۔
آئی ٹی درسگاہ ڈوٹ کوم کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پاک ہیکرز نامی گروپ نے
ان کی ویب سائٹ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ہیکرز گروپ کا طریقہ واردات
یہ ہے کہ اس نے ایک غیر قانونی ویب سائٹ بنا رکھی ہے جہاں پیسے بٹورنے کی
غرض سے انٹرنیٹ ہیکنگ سکھائی جا رہی ہے جن میں ویب سائٹ ہیکنگ، ای میل
ہیکنگ، کمپیوٹر نیٹ ورک ہیکنگ، پاس ورڈ ہیکنگ، کریڈٹ کارڈ چوری، بینک
اکاؤنٹ ہیکنگ اور سم کلوننگ وغیرہ جیسے مکروہ دھندے شامل ہیں۔ یہ گروپ اپنی
سائٹ پر رجسٹر ہونے والے ممبرز کا ڈیٹا حاصل کرکے ان کی اجازت کے بغیر ان
کے ای میل سرور تک رسائی حاصل کرتا ہے اور پھر اپنے عزائم کو پایہ تکمیل تک
پہنچانے کے لئے ان کی ذاتی معلومات چرا لیتا ہے۔ایف آئی اے نے ہیکنگ اور
کریکنگ حملوں کی روک تھام اور اس میں ملوث افراد کی گرفتاری کے لئے سائبر
کرائم کی ایک ویب سائٹ بھی لانچ کی ہے۔ جس پر ہیکنگ اور کریکنگ سے بچاؤ کے
علاوہ کاپی رائٹ اور سائبر کرائم سے متعلق قانونی معلومات بھی موجود ہیں،
لیکن حکومت کی طرف سے مناسب تشہیر نہ ہونے کے باعث انٹرنیٹ سے وابستہ
صارفین کی اکثریت اس سے لاعلم ہے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے پاکستان میں سائبر
کرائم کے خاتمے کے لئے ایسے گروپس کے خلاف ایف آئی اے کو براہ راست
کارروائی کرنا ہوگی۔
|
|