غریب کی غربت پر رونا آتا ہے
لیکن جب یہ غریب اقتدار سے قربت حاصل کرتا ہے اور دولت اس کے قدم چھونے
لگتی ہے تو وہ کس قدر حریص ہوجاتا ہے۔ اس کا اندازہ ان سیاست دانوں کو دیکھ
کر ہوتا ہے جنہوں نے غربت میں آنکھ کھولی اور غریبوں کی تقدیر بدلنے کا عزم
کیا اور پھر وہ خود بھی اسی دولت اور عیش اور آرام میں پڑ گئے۔ دور کیوں
جائیں پاکستان کی سیاست میں ایسی ہزاروں مثالیں ہیں۔ آج جو سیاست میں اربوں
روپے کے اثاثے لئے بیٹھے ہیں۔ انھوں نے کسی سرکاری ملازم سے بھی کم انکم
ٹیکس دیا ہے۔ بلکہ بعض سیاست دانوں کے اثاثوں کے گوشواروں کو دیکھ کر تو ان
پر رحم آتا ہے کہ کیوں نہ ان کی مدد زکواة اور خیرات سے کی جائے۔
کراچی میں جن لوگوں نے ملیر، ایف بی ایریا، لالوکھیت، کھارادر جیسی متوسط
طبقے سے سیاست میں کامیابی حاصل کی وہ بہت جلد ڈیفینس پہنچ گئے۔ جو کل
سائیکل اور موٹر سائیکل پر سواری کرتے تھے وہ آج بڑی بڑی گاڑیوں کے مالک
ہیں۔ لندن ان کی نانی کا گھر ہے۔ امریکہ برطانیہ وہ سیر سپاٹے کرنے جاتے
ہیں۔ آج پاکستان میں این آر او، قرضے معافی، فراڈ، رشوت، منشیات اسمگلنگ
اور جانے کیا کیا دھندے جاری ہیں، اربوں اور کھربوں کی جائیداد ہیں۔ لیکن
ایک پہلو ایسا ہے جس پر بار بار سوچنا پڑتا ہے۔ اس پر بات کرنے سے پہلے ذرا
بھارت کے ایک غریب وزیر اعلیٰ کا قصہ سن لیں۔ غربت کی وجہ سے تعلیم ادھوری
چھوڑنے والا قبائلی اپنی مدھو کوڑا کو پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے ایک کان
میں مزدوری کرنا پڑی تھی۔ 90 کے عشرے تک وہ ایک کان میں مزدور تھا۔ مزدور
نیتا بن جانے سے عوام اس پر اعتماد کرنے لگے۔ لیکن پھر اچانک اس میں تبدیلی
آئی اور وہ سیاست میں حصہ لینے لگا۔ 1991جھاڑکھنڈ میں نرسیما راﺅ حکومت کو
عدم اعتماد کا سامنا تھا۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ جھاڑ کھنڈ کے دو قبائل
رہنماﺅں نے اپنے بنک اکاﺅنٹ میں 50،50 لاکھ روپے جمع کروائے ہیں۔ انہی دنوں
خبر آئی کہ کانگرس نے ارکان کی حمایت خریدنے کے لیے انہیں 50،50 لاکھ روپے
رشوت کی پیشکش کی ہے۔ مدھو کوڑا کا نام بھی رشوت لینے والوں میں شامل تھا۔
اور پھر وہ جھاڑ کھنڈ کے وزیر اعلٰی بن گئے۔ اس کان مزدور کو آج کل 4 کھرب
روپے غیر قانونی طور پر حاصل کرنے کا الزام ہے۔ جس پر ان کے خلاف انکوائری
ہو رہی ہے۔ اس انکوائری کے دوران خبر آئی کہ مدھو کوڑا کے ایک قریبی ساتھی
نے چند روز کے اندر 6 کھرب 4 ارب روپے ممبئی کے ایک بنک میں جمع کرائے ہیں۔
تیسری دنیا میں پائے جانے والے رجحانات کی روشنی میں مدھو کوڑا شائد
الزامات سے بری ہو جائیں۔ ان پر مقدمات چلیں گے۔ شائد سزا بھی ہوجائے۔ لیکن
دولت تو ان کے پاس ہے نا۔ عزت تو آنی جانی ہے۔لیکن اب ان کے بچوں کو مفلسی
کے باعث تعلیم ادھوری نہیں چھوڑنا پڑے گی۔ پاکستان والوں کا نام میں اس لئے
نہیں لیتا کہ آپ سب انھیں اچھی طرح جانتے ہیں، اب میں اس منافقت کا ذکر
کروں گا۔ جو ہماری رگ وپے میں جاری ہے، کیونکہ جب یہ قوم اور ملک کو لوٹنے
والے مقدمات میں پھنس جاتے ہیں۔ تو ان کو بچانے کے لئے بھی غریب سڑکوں پر
نکل آتے ہیں مظاہرے کرتے ہیں، اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو بچانے
کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ ان کے پاس یہ دولت کہاں سے آئی۔
کیونکہ چند ہڈیاں ان کے دسترخوان سے ان کے لئے بھی پھینک دی جاتی ہیں۔ |