این ایف سی ایوارڈ منظور ہوا اور صوبوں کو
حصہ مل گیا کیا.....؟
امریکا ہماری نہیں سُن رہا رحمٰن ملک ..؟ کیوں نہیں سُن رہا سُنانے والا
بنو؟
اسلام آباد اِن دنوں ملکی اور عالمی سطح پر کئی حوالوں سے مرکزِ نگاہ بنا
ہوا ہے اور یہاں کی پل پل کی بدلتی سیاسی ہوا اور رُت کی آنے والی بریکنگ
نیوز کبھی پاکستانیوں کے دلوں کو ہلا دیتی ہیں تو کبھی اِن میں سکون کا
احساس بیدار کردیتی ہیں مگر اِس کے ساتھ ہی ایک ایسے وقت میں کہ جب ملک میں
چار سو متواتر ہونے والے بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے باعث خوف کے سیاہ
بادل پورے ملک پر منڈلا رہے ہیں اور اِن حالات میں حکمرانوں سے لے کر غریب
عوام تک میں ہر فرد خود کو غیر محفوظ تصور کر رہا ہے اِن حالات میں اسلام
آباد کو اہمیت حاصل ہونا کوئی عجب نہیں ہے کیوں کہ اِن دنوں پوری قوم جس
اذیت میں مبتلا ہے ایسے میں قوم کو کسی اچھے فیصلے اور کسی خوشگوار خبر کی
ہی اُمید تھی جو گزشتہ دنوں قوم کو این ایف سی ایوارڈ پر 1973 کے آئین کے
بعد پہلی بار صوبوں اور وفاق کے اتفاق سمیت پنجاب کے لچک دار رویوں کے باعث
طے پانے والے این ایف سی ایورڈ کی صورت میں خوشخبری سننے کو مل گئی اور یہ
خوشخبری قوم کو ایک ایسے وقت میں سننے کو ملی ہے کہ جب پوری پاکستانی قوم
دہشت گردوں کے ہاتھوں خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ایسے میں
13سال کی جدوجہد کے بعد صوبوں اور وفاق کی باہمی رضامندی اور منظوری سے
اصولی طور پر این ایف سی ایوارڈ کا فیصلہ بھی آگیا جو پوری پاکستانی قوم کے
لئے باعث اطمینان ہے تو وہیں ساری قوم اِس جمہوری حکومت کے اِس عظیم اور
تاریخ ساز کارنامے پر خوش بھی ہے اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی اُمید کئے ہوئے
ہے کہ بہت جلد ہی اِس ایوارڈ کے ثمرات چاروں صوبوں کی عوام تک پہنچیں گے تو
اِس کے ساتھ ہی ہمارے حکمران اور سیاستدان بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ
جنہوں نے ملک کے چاروں صوبوں کو ایک زنجیر میں جکڑے رکھنے کے لئے برابری کی
بنیاد پر ایک ایسا تاریخی این ایف سی ایوارڈ منظور کر کے ہر صوبے کی عوام
کو تحفہ دیا ہے کہ جس سے پاکستانی قوم میں احساسِ محرومی کا عنصر اور ملک
میں پیدا ہونے والا بگاڑ اور عدم توازن بھی مکمل طور پر ختم ہوگا جو اندر
ہی اندر قوم اور ملک کو کھوکھلا کئے جارہا تھا۔
بہرکیف !اَب ہم بات کرتے ہیں ملک میں ہونے والی دہشت گردی اور خودکش حملوں
اور بم دھماکوں سے متعلق جن کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ سابق آمر صدر
جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنی حکومت بچانے کے لئے اُس وقت رات کی تاریکی میں
ایوان صدر میں آنے والی ایک امریکی ٹٹو کی فون کال پر گھٹنے ٹیک دیئے تھے
اور اپنے تئیں کئی ایسے غلط اور سنگین فیصلے کر ڈالے کہ اُس نے اپنی آمرانہ
سوچ اور رویوں سے ملک اور قوم کا استحکام اور خودمختاری کو داؤ پر لگا دیا
اور اِس نے ملک کو امریکا کے ہاتھوں گروی رکھ دیا تھا اور اُس وقت سے آج تک
پاکستان امریکا کی نظر میں اِس کی کالونی بن کر رہ گیا ہے یوں اِس آمر کی
ناقص حکمتِ عملی ہی کی وجہ سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ
بنا اور اَب امریکی سازشوں کی ہی وجہ سے اِس کی جنگ کا حصہ بننے کی پاداش
میں ہمارا پورا ملک گزشتہ کئی سالوں سے ملک کے طول ارض میں ہونے والے خودکش
حملوں اور بم دھماکوں سے آگ و خون کی خوفناک وادی کا منظر پیش کررہا ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ قوم کو مفلوج کرنے اور اِس کو دہشت گردوں کے
ہاتھوں اذیت پہنچانے کا ذمہ دار ملک کا سابق آمر صدر پرویز مشرف ہے جس نے
اپنی آمرانہ سوچ اور رویوں سے قوم کو اِس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ قوم اپنا
وجود بھی کھوتی ہوئی محسوس کررہی ہے اور یہ بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ جب
قوم امریکی جنگ کا حصہ بن کر بھی اِس کے ڈرون حملوں سے خود ہی مر رہی ہے
اور امریکا اِس کے باوجود بھی حکمرانوں پر دباؤ ڈالے ہوئے ہے اور مسلسل
مزید ڈو مور....ڈو مور کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔
اِس صورتِ حال میں پاکستان کو امریکی جنگ کا اتحادی رہنے کی کیا ضرورت ہے؟
اِس سے اپنا اتحاد توڑ لے تو اِس ہی میں اَب اِس کی بھلائی ہے۔ اِس نقطہ
نگاہ سے اپوزیشن اور عوام کی جانب سے حکومت پر ہونے والی بے تحاشہ تنقیدوں
سے تنگ آکر وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے اپنے اندر یہ ہمت پیدا کرتے ہوئے
اچھا ہی کیا کہ یہ سچ اور حق اپنے ہونٹوں پر لے ہی آئے کہ ڈرون حملے لعنت
ہیں جس کی تفصیل یوں ہے کہ انہوں نے اِن خیالات کا اظہار میر خلیل الرحمٰن
سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملے
ہمارے لئے ایک لعنت ہیں اور ہم نے کبھی بھی ڈرون حملوں کی حمایت نہیں کی
اِن کا کہنا تھا کہ نہ صرف قومی اسمبلی بلکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں بھی
ڈرون حملوں کے خلاف واضح اکثریت سے قراردادیں منظور ہوچکی ہیں لیکن اِس
موقع پر انہوں نے اپنے انتہائی معصومانہ انداز سے یہ بھی کہہ کر پوری
پاکستانی قوم کو حیران کردیا کہ” ہماری ڈرون حملوں کے خلاف اتنی ڈھیر ساری
قراردادوں کے باوجود بھی امریکا ہماری بات نہیں سُن رہا...“اِن کے منہ سے
نکلے ہوئے اِس جملے سے صرف پاکستانی عوام ہی نہیں بلکہ سیاسی حلقے بھی ششدر
رہ گئے ہیں کہ وفاقی وزیر داخلہ اتنی آسانی سے ڈرون حملے رکوانے کے حوالے
سے اپنی ناکامی کا اعتراف کرکے بچ نکلے ہیں کہ جیسے یہ کوئی بات ہی نہیں
ہے۔
میرے خیال سے رحمٰن ملک صاحب! صرف اتنا ہی کہنے سے اَب کام نہیں چلے گا اَب
اگر آپ نے حق و سچ کو تسلیم کرتے ہوئے اتنا کچھ اپنے ہونٹوں پر لے ہی آئے
ہیں تو آپ اتنا بھی کردیں کہ اگر اَب بھی ڈرون حملے بند نہ ہوئے تو آپ بطور
احتجاج اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیں اور یہ ثابت کردیں کہ آپ ہی وہ محب
وطن پاکستانی ہیںجو ڈورن حملوں کے اتنے ہی خلاف ہیں کہ جتنی پوری پاکستانی
قوم ہے اور پھر عوام کے درمیان آکر امریکا کے خلاف ایسی تحریک چلائیں کہ
امریکا پاکستان کی سننے لگے اور ڈرون حملے فورََا بند کردے اور نہ صرف یہ
بند کر دے بلکہ اَب تک اپنے کئے پر نادم ہوکر پاکستانی قوم سے معافی بھی
مانگے تو پھر دیکھیں رحمٰن ملک صاحب! کہ امریکا کے اچھے بھی سنیں گے
.....مگر شرط صرف اتنی سی ہے کہ آپ سمیت ہمارے حکمران اپنے اندر امریکا کو
سنانے کی ہمت تو پیدا کریں اور یہ اِسی صورت میں ممکن ہے کہ جب ہمارے
حکمران اپنے ہاتھ پھیلا کر امریکا سے امداد نہ وصول کریں اور اپنے وسائل پر
بھروسہ کرنا سیکھیں اور صبر شکر کر کے اپنے پاؤں اپنی چادر کے مطابق اتنا
ہی پھیلائیں جتنی چادر اور ملکی وسائل اجازت دیتے ہیں۔ اگرا ِس کے باوجود
بھی ہمارے حکمران اپنی چادر اور وسائل کو بھول کر اپنے ہاتھ اور پاؤں
اِدھر، اُدھر مارتے ہوئے پھیلائیں گے اور اِس سے تجاوز کریں گے تو یقیناً
امریکا سے بھیک ہی مانگنی پڑے گی اور جب امریکا بھیک دے گا تو پھر وہ آپ کی
کیسے سنے گا۔؟
اِس موقع پر مجھے افلاطون کا ایک قول یاد آرہاہے اُس نے کبھی کہا تھا کہ
سماجی تغیرات افراد کی کاوشوں سے رونما ہوتے ہیں لہٰذا ہمیں اگر کوئی مردِ
دانا یا انسانِ کامل دستیاب ہوجائے تو معاشرے کی سب خرابیاں دور ہوسکتی
ہیں۔ اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ اَب وہ دن دور نہیں کہ جب ہمارے یہی
حکمران صحیح معنوں میں ملک اور قوم کی خدمت جیسے جذبوں اپنے اصولوں پر قائم
رہ کر معاشرے میں پروان چڑھتی تمام برائیوں اور خرابیوں کو دور کردیں گے
اور سُرخرو ہوں گے جی ہاں! ایسے ہی موقع کے لئے یہ کہا جاتا ہے کہ جب مقصد
اور عمل اشتراک ہوتا ہے تو ایک نئی دنیا تخلیق ہوناشروع ہوجاتی ہے اور اَب
کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے یہاں بھی این ایف سی ایوارڈ کی منظوری کے بعد ایک
نئی دنیا کی تحلیق جلد ہی شروع ہوجائے گی اور اِس کے ساتھ ہی میں اپنے آج
کے کالم کا اختتام ڈرمنڈ کے اِس قول پر کرنا چاہوں گا کہ ”جواستدلال پیش
کرنا نہیں چاہتا وہ کمزور انسان ہے جو پیش نہیں کرسکتا وہ بے وقوف ہے اور
جو ہمت ہی نہیں کرتا وہ غلام ہے“۔ |