زعفرانی،بھگوابلکہ یرقانی مریض
اس امر کی فہم وادراک سے نہ جانے کیوں ننگ عقل ودانش ہے کہ یہ ملک ایک
سیکولراورجمہوری ملک ہے اوریہاں تمام ہندوستانیوں کواپنے متعینہ کردہ خطوط
ونکات پرمشتمل آئینی حقوق بھی حاصل ہیں اورتمام ہندوستانیوں کوایک
مقررومنتخب شدہ پلیٹ فارم کے تحت گذران زندگی کامکمل حق ہے نہ کسی پرکوئی
ظلم وزیادتی کرسکتاہے اور نہ ہی کسی فردبشرکواس امر کی اجازت ہے کہ وہ کسی
بھی گروہ پرتعصب کے باعث بے جاالزامات عائدکرے ۔لیکن ابھی کچھ روز قبل
عیدالاضحی کے مبارک ایام میں جوکچھ بھی کل کے گاندھی اورآج کے مودی کے
گجرات میں ہواوہ افسوسناک ہی نہیں بلکہ جمہوریت کیلئے زہر ہلاہل اورموجودہ
وزیراعظم کی دلنشیں تقاریرکی صورتِ زیباپرزوردارطمانچہ بھی ہے ۔اورپھراس
ہندوستان کاکیاہوگاجب محض بے بنیادخبروں پریقین کرکے قومی سیکورٹی کے
اہلکاربغیرتحقیق وتفتیش کے ایک دوسرے جماعت پرداستان داروگیرکی رودادِالم
کااعادہ کرے اوربے قصورمسلم نوجوانوں کی گرفتاری محض اس بے بنیاد پروپیگنڈہ
کے تحت کریں کہ وہ ان کے خود ساختہ جرم’’میٹ جہاد‘‘کے گناہ میں ملوث
تھے،یقینا محکمہ پولیس کے اہلکاروں کا یہ ایک ایسا قدم ہے جس سے نہ کہ صرف
اعتماد پرکاری ضرب لگی ہے بلکہ یہ نمایاں طورپرواضح ہوگیاکہ یہ مودی کاہی
گجرات ہے اوریہاں صرف اورصرف ان ہی امورپرعمل پیراہواجاتاہے جن کی تخلیق
وکاشت آرایس ایس اور گولوالکر کے افکارونظریات کرتے ہیں۔
ڈابھیل ایک مشہورعالم قصبہ ہے جہاں سے علومِ اسلامی کی صدیوں سے خدمات جاری
ہیں ماضی میں بھی علوم ِاسلامی کی شمع روشن کی ہے اور حال و مستقبل میں بھی
ان ہی خدمات کو اپنے لیے باعث اعزازتصورکیاجاتاہے اورسب سے خاص بات یہ ہے
کہ تمام سیاسی مخمصوں اورالجھنوں سے خودکوتنہاکرکے دینِ قیم کی ترویج
واشاعت اور علوم ِاسلامی کے فروغ واحیاء کوہی مقصود وحاصل تصورکیاگیاہے حتی
کہ ۲۰۰۲ء کے المناک تاریخِ انسانی پربدنماداغ گودھراسانحہ اورگجرات مسلم کش
فسادات جیسے دردانگیزاوراشک آور موقعوں پربھی خاموشی کے ساتھ اپنے مقررہ
اہداف وخطوط پرہی کاربند تھااورکسی بھی مزاحمتی کاروائیوں کولائق اعتناء
تصورنہ کیاگیابلکہ اپنے لب سی لیے۔لیکن جوکچھ وہاں ہورہاہے اوراقلیت کیساتھ
جوسوتیلارویہ برتاجارہاہے اس سے ایک بارپھر۲۰۰۲ء کی ہولناکی نگاہوں کے
سامنے رقصاں ہوجاتی ہیں کہ ابھی بھی وہ ’’ہوس شیطانی‘‘خاموش نہیں ہوئی ہے
بلکہ میں کہوں تویہ کہ وہ ’’ہوس شیطانی‘‘اپنے نقطہ عروج وشباب پرپہنچ
کراپنے اضطراب ،سرمستیوں اورجنون کااظہارکررہی ہے۔درحقیقت واقعہ کچھ بھی
نہیں ہے کہ اس کوبتایاجائے بلکہ ایک امرموہوم اور قول غیرصادق پراعتمادکرکے
محکمہ پولس کے اہلکاروں نے اپنے یرقانی مرض اور جنون کااظہارکیاہے گویاوہ
نشہ حب الوطنی میں سرشارنہیں بلکہ وہ زعفرانی نشہ میں آشفتہ سرہیں اوراس
آشفتہ سری کاہی کرشمہ سمجھ لیں کہ وہ ان گناہوں کوکارِخیراورعملِ حب الوطنی
سمجھ رہے ہیں ۔کسی مخبر نے یہ اطلاع دی کہ ڈابھیل کے ایک محلہ میں گائے کی
قربانی کی جارہی ہے اس افواہ اوربے بنیاد اطلاع
پرگؤرکشاکمیٹی(وشوہندوپریشد)کے اراکین پولیس کی معیت میں آدھمکے اورگھروں
میں گھس کرتلاشی لی اور جب ان کواس ’کھوج ابھیان‘یعنی تفتیشی عمل میں کچھ
بھی ہاتھ نہ آیاتواپنی بھڑاس نکالنے اورخفت مٹانے کیلئے دو مسلم نوجوانوں
کوگرفتارکرلیااورجب لوگوں نے ان بے گناہ قیدی کی رہائی کیلئے کوششیں کی
توجواباَاندھادھند گولیاں چلائی نتیجتاَدوافرادزخمی ہوگئے ۔اب آئیے!دعوت
غوروخوض اور فکردوں کہ ازاول تاآخرتمام احوال پرنظرکیجئے توجہاں
گؤرکشاکمیٹی کے اراکین وعہدیداران نیزپولس کی ملی بھگت معلوم ہوتی ہے
تووہیں اس محکمہ کے اہلکاروں کے ’’یقین ِنیم باز‘‘اور’’تصدیق وہم ‘‘نیزمسلم
دشمنی اوریرقانی سوچ بھی واضح ہوتی ہے کہ وہ اس ملک کے عوام تو دورکی
چیزہیں،ملک کی اعلی عہدیداران اورسیکورٹی افسران بھی زعفرانی نشہ میں مغلوب
اورکسی بھی سوچ وفکرسے عاری ہیں۔سیکورٹی اہلکار کیوں اپنے فرائض کوبھول
بیٹھے ہیں؟یہ امر سمجھ سے بالاتر ہے اولا جن دو لڑکوں کی گرفتاری عمل میں َآئی
ہے کس بنیادپرکوئی ٹھوس ثبوت و شہادت اس مذکورہ محکمہ کے پاس ہے؟اورپھرجب
گؤ رکشاکمیٹی (وشوہندوپریشد)کے ا،یک رکن کے ذریعہ یہ دھمکی دی گئی کہ
’’قیدی زندہ بچ نہ سکیں گے‘‘تو اس وقت پولس کیوں کر چپ شاہ کا روزہ رکھے
ہوئی تھی اورپھر اس شخص کی ہمت کی داد دینی چاہیے کہ وہ پولس کی موجودگی
میں دھمکیاں دے رہا ہے اس سے یہ سوال اٹھتاہے کہ کیاانھوں نے جانبداری کا
ہی حلف لیا ہے یاپھرتمام ہندوستانیوں کی حفاظت کاحلف لیاہے اورپھرجب ان
دونوں قیدی کی رہائی کی کوشش کی گئی تو جواباَ آنسوگیس اورربڑکی گولی کے
بجائے کیوں کراندھادھند گولیاں چلائی؟؟کیایہ قانون اور انصاف
کاناروااستعمال نہیں ہے؟؟محکمہ پولس کا یہ دعوی ہے کہ اولا َ ان پربتھراؤ
کیا گیا تھا بالفرض ایسا کیاگیابھی تو تو معصوموں پربے دریغ فائرنگ کاجواز
کس دلیل کی روسے ثابت ہوتاہے؟
گجرات کو۲۰۰۲ء کے ہولناک مسلم کش فسادات کے باعث بھی ایک مظلوم ریاست
سمجھاجاتاہے اوریہاں کے باشندگان کوہمیشہ سے ہی مظلوم تصورکیاگیاہے تاہم جس
طرح کا یہ واقعہ پیش آیاہے اس سے ریاستی پولس اور وہاں کے عوام کا متعصبانہ
رجحان صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اس تمام واقعات میں سب سے بڑی
اور حیران کن بات یہ ہے کہ وہاں واقع جامعہ کے ایک استاد مولانا عثمان صاحب
کی گرفتاری بھی عمل میں آئی جس سے بے قصوروں کی گرفتاری اور دارورسن کی
کہانی پھر زندہ ہوگئی ۔
گجرات میں پھر سے ایک بار فراموش کردہ ستم کے اعادہ کی تیاری کی جارہی ہے
اور ملک کے لیے مسلمانوں کو ایک قیمتی اور محب وطن قوم کہنے والے موجودہ
ملک کے وزیر اعظم بالکل خاموش اور چپ شاہ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں جب کہ اس
بابت اس امر کا تقاضہ ہے کہ بے قصوروں کی گرفتاری اور بے جا ہراساں کیے
جانے کا اس محبوب عمل پر قدغن لگائی جاتی اور جو وہ ہمیشہ سے کہہ رہے ہیں
اس پر عمل کیا جائے تاکہ وہ اپنی باتوں میں سچے ثابت ہوں اور ملک کے عوام
بھی ان کو ایک سچا انسان سمجھے ۔لیکن جس وقت ڈابھیل میں یہ سب کچھ ہورہا
تھا اور وہاں کے (وشوہندوپریشد)کے ارکان پولس کی معیت و پشت پناہی میں اپنا
منتخب کردہ ہدف تلاش رہے تھے تو اس وقت قومی سیکورٹی کے اہلکار ہی نہیں
بلکہ قومی میڈیا جو لوجہادا ور میٹ جہاد کے بدنام زمانہ عنوانات کو چیخ چیخ
کر بیان کرتا رہتا ہے اس واقعہ کو اس طرح چھپادیا کہ کسی بھی
اخباریانیوزنیٹ ورک کی توسط سے عوام کے سامنے نہیں آنے دیا بلکہ اس کو
خاموش کے ساتھ دبادیا گیا ۔جب کہ اس کو ملک کے عوام کے سامنے لانے کی کوشش
ہونی چاہیے کہ گؤ رکشا کمیٹی اور پولس کے اہلکاروں نے کیا کیاہے اور کس جرم
کی سزا باشندگانِ ڈابھیل کو دی جارہی ہے ۔اگر مرکزی حکومت اس بابت اپنی اسی
متذکرہ فکر و خیال میں رہی تو یقینا ملک کے ایک بڑے طبقہ کو مایوسی کا شکار
ہوناپڑے گا اور وہ بھی اس وقت جب کہ اس بڑے طبقہ نے تمام تر امیدوں کو 16/مئی
کی شام میں ہی زندہ درگور کردیاتھا لیکن مودی مہودیہ نے اپنے بیانات اور
ایفائے عہد کے عہد و پیمان کے ذریعہ مردہ امیدوں کو زندہ کرنے کی اپنی سی
کوشش کی ہے اور اس بڑے طبقہ نے اپنی امیدوں کی تجدید کرلی ہے اگر ڈابھیل کے
مظلوموں کو انصاف نہ ملا تو یقینا ا س امر کی طرف اشارہ ہوگا کہ جو بات
مودی نے کہی تھی وہ محض عام انتخابات کی طرح لفظی کاریگری ہے ۔مظلوموں کو ا
نصاف ملناچاہیے اور جو بھی فرد اس ضمن میں خاطی ہے اس کو ضرور بالضرور سزا
ملنی چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد بحال رہے ۔ |