نوبل انعام یورپین کلچر کے فروغ میں محدوو

سال 2014کے نوبل امن انعام کے لیے پاکستان سے تعلق رکھنے والی نو عمر طالبہ ملالہ یوسف زئی اور ہندوستان میں بچوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے مسٹر کیلاش ستیارتھی کو مشترکہ طور پرمنتخب کیا گیا ہے۔

ناورے کی نوبل کمیٹی نے انھیں انتہا پسندی اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے کے اعتراف میں اس عالمی اعزاز سے نوازا ہے اور کہا ہے کہ ان دونوں کی پسے ہوئے طبقات سے تعلق رکھنے والے بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم کے لیے کوششیں کرنے کے اعتراف میں ملالہ یوسف زئی اور مسٹر ستیارتھی کو نوبل امن انعام کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔ تاہم ہندوستان و پاکستان کے بہت سے دانشوران اور صحافی حضرات کا کہنا ہے کہ بر صغیر کے ان دونوں ملکوں کو یہ ایوراڈ دیے کر آپس میں امن و سلامتی قائم کرنے کو کہاگیا ہے۔ ان دونوں کو نوبل سرٹیفکیٹ کے ساتھ 12 لاکھ ڈالرز کی انعامی رقم بھی ملے گی اور یہ رقم ملالہ یوسف زئی اور کیلاش ستیارتھی میں برابر تقسیم کی جائے گی۔

نوبل ایوارڈ کمیٹی یہ فیصلہ یہ ثابت کرتا ہے کہ برصغیر میں بچوں کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے انہیں تعلیم کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے ۔ ان کی صحیح تربیت نہیں کی جاتی ہے ۔ان سے ان کی تعلیمی زندگی میں کام لیاجاتا ہے۔ اس لئے اس ایوارڈ کے ذریعے انہیں بیدار کیا گیا ہے ۔ بچوں کو حقوق کے تئیں سماج کو فکرمند بنایا گیا ہے۔

ملالہ یوسف زئی کو یہ ایوارڈ کیوں ملا ہے ، اس کی خدمات کیا ہے ؟ اس کے ساتھ عالمی اداروں کی اس قدر مہربانیاں کیوں ہورہی ہے اس پر میں جلدہی تفصیل کے ساتھ لکھوں گا کہ کیاہے ملالہ کی حقیقت ؟اور کیوں دنیاکی تمام اہم ترین خواتین اور لڑکیوں سے نظر التفات کرکے ملالہ کو آگے بڑھانے میں پورے امریکہ اور یورپ نے ایڑی چوٹی کی زور لگارکھا ہے۔

سردست میں بات کررہا ہوں کیلاش ستیارتھی کی ۔ہندوستان میں امن کی بحالی کوشش کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے ،ہر مذہب اور ہر گروپ کے لوگ اس کوشش میں شامل ہے ،منی پور میں اروم شرمیلا چودہ سالوں سے پولس کے مظالم کے خلاف سرپا احتجاج بنی ہوئیں ہیں ۔ افسپا قانون کے خلاف بھوک ہڑتال کئے ہوئے اسے مسلسل چودہ سالوں کا طویل عرصہ گذرگیا ہے ، وہ آج بھی بھوک ہڑتال پر ہے ، پائپ کے ذریعے اسے کھانا پہچایا جاتا ہے ،حکومت نے اسے خودکشی کے الزام میں جیل کی سلاخوں میں بندکررکھاہے 19 ستمبر کو عدالت نے اس کی رہائی کا فیصلہ سنایا تھا ، لیکن دو دن بعد پھر خودکشی کے الزام میں اسے جیل میں ڈال دیا گیا۔سوال یہ ہے کہ اس خاتون کو فروغ امن کی اس عظیم جدوجہد کے لئے نامزد کیوں نہیں کیا گیا ۔

میں کیلاش سیتارتھی کی خدمات سے کوئی انکار نہیں کررہا ہوں اور نہ ہی انہیں ملنے والے ایوارڈ پر کوئی سوال قائم کررہا ہوں۔مسٹر کیلاش کے کاموں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔کیلاش مدھیہ پردیش میں بچہ بچاؤ آندولن نام کی تنظیم چلاتے ہیں ۔انہوں نے اب تک 80ہزار سے زائد بچوں کی زندگی بدلنے کا غیر معمولی کارنامہ انجام دیا ہے ۔انہیں انہوں نے زیور تعلیم سے آراستہ کیا ہے ، مزدوری اوربے جا استحصال سے انہیں بچایا ہے ۔آج بھی ہزاروں بچے استحصال کے شکار ہورہے ہیں ، غربت ،ناداری اور مفلسی کی وجہ سے ،ہوٹلوں ، بیگ کے کارخانوں ،فیکٹریوں ، سرمایہ داروں کے گھروں اور دیگر مقامات پر کام کرکے اپنی زندگی کے اہم ترین ایام کو برباد کررہے ہیں ،تعلیم جیسی اہم شی سے محروم ہورہے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ جو لوگ حقیق طور پر بحالی امن کی کوشش کرتے ہیں انہیں عالمی اعزاز سے کیوں نہیں نوازا جاتا ہے وجہ ظاہر ہے کہ یورپ ہر جگہ اپنا مفاد دیکھتاہے جہاں اسے اپنا مفاد نظرآتا ہے ، ان کی مرضی مطابق لوگ کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ ان کی نگاہوں میں اہم ترین ہوتے ہیں ۔اور اسی کوایوارڈ سے نوازتے ہیں ۔ ان کی یہی پالیسی نوبل ایوارڈ میں رائج ہے جولوگ ان کے فارمولے کے مطابق کام کرتے ہیں انہیں اس ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے جو لوگ ان کے مشن او ران کی پالیسی سے ہٹ کر اپنی قوم او راپنے ملک کے لئے کام کرتے ہیں وہ ان کی نگاہوں میں لائق اعتنا نہیں ہوتے ہیں۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 180635 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More