الیکشن کی ہنگامہ آرائی میں کئے گئے وعدوں کی تکمیل کا وقت آیا

مہاراشٹر کے حالیہ اسمبلی الیکشن پر خصوصی تحریر

گزشتہ دومہینوں سے اسمبلی الیکشن کی تیاریاں زور وشور سے جاری تھی۔اس مرتبہ کے الیکشن نے اپنی منفرد تاریخ مرتب کی۔بیس تاتیس سالوں سے جن پارٹیوں کے مابین خوشگوار تعلقات تھے،اس مرتبہ ان کا سانٹھ گانٹھ ٹوٹ گیا،سیاسی جماعتوں میں بڑی اُتھل پُتھل ہوئیں،امیدواروں میں قدرے اضافہ ہواجس کے باعث رائے دہندگان کے حقِ انتخاب میں اضافہ ہوا،مگر اس کے برعکس سبھی پارٹیوں کے لیے الیکشنی مرحلہ دشوار سے دشوار تر ہوگیا، بڑے بڑے قدآور لیڈروں پر شکست کا خطرہ منڈلانے لگا۔شکست کے خوف کے پیشِ نظر سبھی پارٹیوں نے مہاراشٹر کے کونے کونے میں پارٹی کے قدآور لیڈروں کے اجلاس کا انعقاد کیاتاکہ پارٹی کی شاخیں مضبوط کی جائیں اورکم وقت میں لفظوں کے سہارے بھولی بھالی عوام کا اعتماددوبارہ حاصل کیاجائیں۔اس مشن کی تکمیل کے لیے مہاراشٹر کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہواکہ خود وزیراعظم نے نہ صبح کاسرمئی اجالادیکھانہ رات کاگھنگھور اندھیرا، ریاست بھر میں ۲۵؍اجلاس میں شرکت کرکے اپنی پارٹی کی بنیادوں کو مستحکم کیا۔بڑے پیمانے پر سیاسی قائدین وعمائدین کی آمدورفت کا سلسلہ دراز تھا۔جن امیدواروں کو گزشتہ کئی سالوں سے اپنے علاقے میں چند لمحے گزارنے کی فرصت نہ ملی،اس مرتبہ وہ حضرات ہر گھر پر ووٹ بینک کی خاطر دستک دیتے ہوئے نظر آئیں۔ماؤں اور بہنوں کا دل جیتنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔خاکساری وانکساری کا ایسا مظاہرہ کیاگیاکہ دونوں لفظوں کا دل پانی پانی ہوگیا۔ایسے اخلاق کا نمونہ پیش کیاگیا جیسے ہمدردی، انسانیت ، رواداری،معافی تلافی اور صلہ رحمی ان کے در کی باندیاں ہوں۔تعریفوں کے ایسے پُل باندھے گئے کہ باندرہ وَرلی سی لنک کی وسعت کم محسوس ہونے لگی۔

بہرحال تمام پارٹیوں کے اجلاس کا بنیادی مقصد گزشتہ کاموں کو عوام کے سامنے پیش کرنااور مستقبل میں عوام کی تعمیری وفلاحی کاموں کے منصوبوں کواُجاگر کرناتھا۔ان اجلاس میں ماضی میں کئے گئے زمین اورصرف کاغذ پر موجود تمام کاموں کو عوام کے روبروپیش کیاگیا۔ساتھ ہی مستقبل کے لیے ایسے سنہرے منصوبوں کو پیش کیاگیا جن کاخواب ہندوستانی عوام آزادی کے بعد سے دیکھ رہے ہیں۔کس پارٹی کاکیاایجنڈہ تھا،کس پارٹی نے فتح یابی کے لیے ایڑی چوٹی کاکتنا زور لگایا اور کیسے کیسے سیاسی ہتھکھنڈوں کا استعما ل کیا،ان تمام امور پر ہمیں بحث نہیں کرناہے بلکہ بلاتفریق تمام پارٹیوں کے ذمہ داران کی توجہ اس امر پر دلاناچاہتاہوں کہ الیکشن کی ہنگامی آرائیوں میں آپ نے شہر کی ترقی اور فلاح وبہبود کے لیے جتنے بھی وعدے کئے تھے، ان میں ایک قدر مشترک تھی۔وہ یہ کہ ہر کسی نے عوام سے یہ وعدہ کیاتھا کہ’’ ہمیں ستّہ ملے یانہ ملے،بہر حال ہم اپنے منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچاکررہینگے‘‘۔

الیکشن کے نتائج کے اعلان کے بعد تمام ذمہ داران کو ان کا مذکورہ عہد یاددلانا چاہتاہوں کہ الیکشن کی گہماگہمی میں کئے گئے تمام وعدوں پر عمل کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ جس طرح الیکشن کی تیاری میں ہر کسی نے ایڑی چوٹی کا زور لگایاتھااب اسی طرح کئے گئے وعدوں کو مکمل کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔نتائج کے اعلان کے بعد آرام کابالکل وقت نہیں ہے کیونکہ کئے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے عوام نے آپ کو صرف پانچ سال کا عرصہ دیاہے۔اس متعینہ مدت ہی میں تمہیں عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا،تب کہیں جاکر پانچ سال بعدعوام کے روبروباوقار طریقے سے آپ حضرات ووٹ مانگ سکتے ہیں۔اس لیے کہ اب وہ زمانہ نہیں رہاکہ صرف زبانی دعووں کی بنیادپر کوئی بھی امیدوار اپنی امیدواری کی سلورجبلی مناسکے۔آج کے دور میں عوام پارٹی سے بے نیاز ہوکر صرف اپنے مسائل کا حل چاہتی ہیں،اپنے شہر کو ترقی اور امن کی راہ کا مسافر دیکھناچاہتی ہے۔زبانی دعووں،لفاظی اور جھوٹے وعدوں سے اب عوام کو مزید بے وقوف نہیں بنایاجاسکتاہے۔جس کاجیتاجاگتاثبوت مہاراشٹر اسمبلی الیکشن میں رائے دہندگان نے بڑے بڑے قدآور لیڈروں کو مستردکرکے دے دیاہیں۔

مالیگاؤں کی سیاسی جماعتوں نے جن خوابوں پر اپنی کرسی کی بنیادرکھی تھی اس کی اجمالی فہرست کچھ اس طرح ہے۔(۱)شہر میں فلائے اوور کی تعمیر(۲)یارن بینک کاقیام(۳)پاورلوم فیڈریشن اور ٹیکسٹائل پارک کاقیام(۴)اردواسکولوں کومنظوری اور گرانٹ(۵)مالیگاؤں کو اقلیتی ضلع ڈکلیئر کروانا(۶)اردوگھر کاقیام (۷) شہر کے تمام پولس اسٹیشنوں میں اردوجاننے والے آفیسروں کا تقرر(۸)بے قصور مسلم نوجوانوں کی رہائی کے لیے اقدامات(۹)ایل بی ٹی اور آکٹرائے کا خاتمہ (۱۰)خواتین کے لیے بہتر روزگار کے مواقع(۱۱)لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ(۱۲)پیرامیڈیکل کالج ،ٹیکنیکل کالج اور گورنمنٹ انجینئر کالج کا قیام(۱۳)غریب بے گھر حقداروں کا مکانات دلانا(۱۴)مقابلاجاتی امتحانات کی تیاری کے لیے اسٹڈی سینٹر وکمپیوٹر اکیڈمی کا قیام(۱۵)اسپورٹس کامپلیکس بنوانا(۱۶)پیچیدہ امراض کے علاج کے لیے جدید ترین مشینیں اور مہنگے ترین آپریشن کی سہولیات مہیاکرانا(۱۷)ریلوے لائن کی آمد(۱۸)حکومت پر عوام کا دبدبہ واپس قایم کرنا(۱۹)OBCکے لیے علاحدہ منسٹری کا قیام وغیرہ۔ اور بھی بہت سے وقت طلب اور کٹھن کاموں کا وعدہ کرسی کے موجودگی اور عدم موجودگی میں عوام سے کیا گیا ہے ۔ ان سنہرے خوابوں کی تعمیل کے لیے پانچ سال کا عرصہ بہت قلیل ہے۔بظاہران پانچ سالوں میں مذکورہ منصوبوں کی تکمیل انتہائی دشوار ترین ہے مگر اس قلیل عرصے میں ان وعدوں کی بنیاد وں کوضرورمستحکم کیاجاسکتاہیں۔ویسے بھی کام کرنے والوں کے لیے وقت کی قلت کوئی معنی نہیں رکھتی، ان کے سروں پر مقاصد کی تکمیل کاجنون سنواررہتاہے اور وہ قلیل سے قلیل مدت میں طویل سے طویل کام کر کے لوگوں کودم بخود کردیتے ہیں اور موجودہ الیکشن میں تمام پارٹیوں کے جوش خروش کو دیکھتے ہوئے اور لیڈران کا مطمح نظر کرسی کی بجائے کام کو مدنظر رکھتے ہوئے بہارکی امید کی جاسکتی ہے ۔
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731679 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More