مہاراشٹر کے انتخابی نتائج عین
توقعات کے مطابق آئے اس لئے ان میں تحیر اور تعجب کا کوئی پہلو نہیں ہے۔یہ
نہ صرف ذرائع ابلاغ کےاندازوں کے مطابق ہیں بلکہ مہاراشٹر کی انتخابی روایت
بھی یہی رہی ہے کہ یہاں کے عوام نے دہلی سرکار کی قدمبوسی کو ہمیشہ اپنے
لئے باعثِ سعادت سمجھا ہے۔ مرکزمیں جو بھی اقتدار سنبھالتا ہے ہم اس کے
ساتھ ہو جاتے ہیں ۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ متحدہ مہاراشٹر کی مخالفت کرنے والی
کانگریس پارٹی کےوزیراعلیٰ مرارجی دیسائی نے مظاہرین پر گولیاں برسائیں مگر
جب ریاست بن گئی تو یہاں کی عوام نے کانگریس کے یشونت راؤ چوہان کے سر پر
تاج رکھ دیا۔ اس بار ممبئی میں آکر توہین آمیز بیان دینے والی بی جے پی
کی گجراتی وزیراعلیٰ کو نظر انداز کرکے مہاراشٹرکو منقسم کرنے والے دیویندر
فردنویس کو اقتدار تھما دیا۔
اس سے قبل جب مرکز میں جنتا پارٹی اقتدار میں آئی تھی تو پہلی بار
مہاراشٹر میں غیر کانگریسی حکومت قائم ہوئی تھی۔ ۱۹۹۵ میں جب اٹل جی نے ۱۳
دنوں کیلئے سرکار بنائی تو مہاراشٹر میں بی جے پی اور شیوسینا کے اتحاد نے
اقتدار سنبھالا۔ اٹل جی حکومت تو گر گئی مگرشیوسینا نے اپنی مدتِ کار کو
پورا کیا۔ ۱۹۹۹ میں کانگریس کے اندر پھوٹ پڑگئی اس کے باوجود سینا بی جے
پی اتحاد اپنی کرسی بچا نہ سکا اور کانگریس کو پھر ایک بار راشٹر وادی کی
مدد سے اقتدار حاصل ہوگیا۔پارلیمانی انتخاب میں اس بار بی جے پی اور اس کی
اتحادی جماعتوں کو اترپردیش اور بہار کی طرح مہاراشٹر میں بھی زبردست
کامیابی نصیب ہوئی لیکن بہار واتر پردیش میں سیکولر طاقتوں نے اپنی شکست سے
سبق لیتے ہوئے باہمی اتحاد پیدا کرکے بی جے پی کو ناکوں چنے چبوادئیے اس کے
برعکس مہاراشٹر میں پہلے سے قائم شدہ سیکولر اتحاد کو این سی پی کی ابن
الوقتی نےپارہ پارہ کردیا۔ اس ناعاقبت اندیشی پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
غیروں کو کیا پڑی ہے کہ رسوا کریں مجھے
ان سازشوں میں ہاتھ کسی آشنا کا ہے
مہاراشٹر کے اندر شیوسینا ہندوتوا کی حامی جماعت ہے اور سخت گیر ہندوتوا
میں یقین رکھتی ہے جو نریندر مودی کا اپنا نظریہ ٔحیات ہے اس کے باوجود
مودی اور اس کے بغل بچہ امیت شاہ کے شیوسینا سے ناطہ توڑ لینے کی اصل وجہ
نشستوں کے بٹوارے کا اختلاف نہیں تھا ۔ دراصل یہ مودی جی کی ترجیحات کا
مسئلہ ہے جس میں سب سے نیچے ہندوتوا کا نظریہ آتا ہے لیکن اگر اس سے پارٹی
کا مفاد ٹکرائے تو پارٹی کو اس پر فوقیت حاصل ہو جاتی ہے ۔ مہاراشٹر میں فی
الحال سینا اور بی جے پی کا اختلاف نظریاتی نہیں بلکہ جماعتی مفاد کا
ہے۔مودی جی کے سامنے اگر ایک جانب جماعتی مفاد اور دوسری طرف ذاتی فائدہ ہو
تو ذات کو جماعت پر سبقت حاصل ہو جاتی ہے ۔ اسی ذاتی وفاداری نے امیت شاہ
کو بی جےپی کا صدر بنا دیا ورنہ ان کے علاوہ پارٹی میں اور بھی سینئر لوگ
موجود تھے۔
ایک زمانے میں کانگریس کے صدر دیوکانت بروا نے کہا تھا انڈیا از اندرا ۔ ان
کے کہنے سے انڈیا تو اندرا نہیں بن سکا ہاں انڈین نیشنل کانگریس ضرور اندرا
کانگریس بن گئی ۔ اب عملاً بی جے پی کا حال یہ ہے کہ وہ ایم جے پی یعنی
مودی جی کی پارٹی بن کر رہ گئی ہے ۔ دراصل مودی جی پر سنگھ پریوار کے
سنسکار سے زیادہ اندرا گاندھی کی مطلق العنانی اثر انداز ہوئی ہے اور اندرا
جی کی طرح انہوں نے پارٹی کو بے وقعت بناکر رکھ دیا۔ یہ تو قانونِ فطرت ہے
کہ جس طرح اندرا جی کی حماقت کی قیمت فی الحال کانگریس پارٹی چکا رہی ہے
اسی طرح مودی جی کی بے وقوفی بھی آگے چل کر بی جے پی کو مہنگی پڑے گی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس انتخاب میں کامیابی کے لئے سارے ممکنہ ہتھکنڈے
استعمال کرلئے ۔ اس کی ابتداء گوپی ناتھ منڈے کے حادثے سے ہوئی ۔ اگر ان کی
موت کا ہرین پنڈیا کی موت سے موازنہ کیا جائے تو بہت ساری مشترک باتیں نظر
آتی ہیں ۔ دونوں نریندر مودی کےاحمد آباد اور دہلی میں اقتدار سنبھالنے
کے بعد قریبی عرصے میں رونما ہونے والے واقعات ہیں ۔ دونوں رہنما عوام میں
مقبول ہونے کے سبب مودی جی کی مدد کے محتاج نہیں تھے۔ اس کا اندازہ اس
حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ منڈے کی بیٹی پریتم منڈے نے مودی کا ریکارڈ
توڑتے ہوئے ۷ء۵ لاکھ کے مقابلے ۷ لاکھ ووٹ کے فرق سے کامیابی حاصل کی۔ منڈے
اور پنڈیا صبح تڑکے نہایت ہی محفوظ علاقوں میں اپنی گاڑی کے اندر ہلاک
ہوئے۔پنڈیا کے بارے میں بتایا گیا کہ انہیں دہشت گردوں نے مارڈالا جبکہ وہ
مسلمانوں میں مقبول تھے اور گجرات فساد کے بارے میں مودی جی کے خلاف بیان
دے چکے تھے ایسے شخص کو مسلمان بھلا کیوں ہلاک کرتے ؟ ہرین پنڈیا کی موت اس
شعر کی منہ بولتی تصویر ہے کہ ؎
لاؤ تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سر محظر لگی ہوئی
گوپی ناتھ منڈے کا مرکزی وزیر ہونے کے باوجود بغیر سیکیورٹی کے ایک غیر
بولٹ پروف کار میں ہوائی اڈے جانا بھی ایک معمہ ہے ۔ ان کے بارے میں کہا
گیا کہ وہ پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک تیز رفتار انڈیکا نے ان کی
گاڑی کو ٹکر ماردی۔ ان کو معمولی چوٹ آئی۔ انہوں نے ڈرائیور سے پانی مانگا
لیکن جب ہسپتال لے جایا گیا تو سانس بند ہو چکی تھی۔ ایک عام آدمی کی سمجھ
میں تو یہ واردات نہیں آتی لیکن سی بی آئی نے اسے حادثہ قراردےکر فائل
بند کردی ۔ دراصل گوپی ناتھ منڈے اگر زندہ ہوتے تو مہاراشٹر کے معاملات میں
امیت شاہ کا عمل دخل اس طرح نہیں ہوتا ۔ وہ مودی جی کو مہاراشٹر میں بے
شمارجلسوں سے خطاب کرنےکی زحمت نہیں دیتے اور کامیابی کاکریڈٹ کا بھی انہیں
کو ملتا لیکن ان کے ہٹ جانے سے منظر بدل گیا۔
بی جے پی نے اس باراپنے نظریاتی حلیف شیوسینا سے پلہّ جھاڑ کر تنہا انتخاب
لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ شیوسینا کے علاوہ جو دیگرتین حلیف جماعتیں الحاق میں
شامل تھیں انہیں ساتھ لے کر شیوسینا کو بالکل تنہا کردیا گیا۔ بی جے پی نے
اپنے مخالف محاذ کے اندر بھی انتشار پیدا کیا اور راشٹروادی سے بغاوت
کرواکر اس کو اپنا پوشیدہ حلیف بنا لیا ۔ این سی پی کے حمایت واپس لیتے ہی
انتخاب تک وزیراعلیٰ کو کارگزار رکھنے کے بجائے فوراً گورنر راج نافذ کردیا
۔کانگریس اور اور این سی پی پر بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے ان کے ۵۰
ممبران کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے ٹکٹ دے دیا۔ وزیراعظم نریندر مودی کو
دلیّ سے گلی میں لے آئے اور ان سے ۲۷ عدد جلسہ کروائےجن میں مودی جی اپنے
ہلکے پن کا مظاہرہ کرتے رہے۔ عوام کو دھوکہ دینے کیلئے بالاصاحب ٹھاکرے کی
دہائی دینے سےلے کر ممبئی میں مہاراشٹر کو متحد رکھنے کا نعرہ لگانا اور اس
کے فوراً بعد ریاستی صدر کا ناگپور میں ودربھ کو الگ کرنے کی بات کرنا ۔اسی
کے ساتھ نتن گڑکری کا لوگوں کو کھلے عام ووٹ کے بدلے نوٹ لینے کی ترغیب
دینا ۔ یہ تماشہ دن رات چلتا رہا۔
بی جے پی دولت کا بے شمار استعمال کرکےسب سے بڑی پارٹی ضروربن کر ابھری
لیکن اگر اس کی کامیابی کا موازنہ پانچ ماہ قبل حاصل ہونے والے لوک سبھا
انتخاب سے کیا جائے تو پتہ چلتا ہے بی جےپی کے ۲۷ فیصد ووٹ میں ایک فیصد کا
اضافہ ہوا اور کانگریس کے ۱۸ فیصد میں ایک فیصد کی بھی کمی نہیں ہوئی ۔ بی
جے پی کو ۴۸ میں سے ۲۳ نشستیں یعنی تقریباً ۵۰ فیصد کامیابی ملی تھی جو اب
کی بار گھٹ کر تقریباً ۴۰ فیصد پر آگئی۔ این سی پی ۱۶ سے ۱۸ فیصد پر پہنچی
یعنی اگر این سی پی اور کانگریس اتحاد نہیں ٹوٹتا تو اس کے پاس بی جے پی سے
۸ فیصد ووٹ زیادہ ہوتے اور بی جے پی کسی صورت اقتدار میں نہیں آتی۔ شیوسینا
کے ووٹ کا تناسب ایک فیصد بڑھا یعنی ۱۹ سے ۲۰ پر پہنچا اس سے ثابت ہوتا ہے
کہ سینا نریندر مودی کی محتاج نہیں ہے۔ ویسے ان جماعتوں کی آپسی جوتم
پیزار نے ان کے چہرے پر پڑی سیکولرزم اور ہندوتوا کی نقاب نوچ کر پھینک دی
۔ یہ اور بات ہے کہ اس نقاب کشائی کے باوجود جو لوگ آنکھیں موندے بیٹھےہیں
انہیں نظر نہیں آتا کہ اس سیاسی اکھاڑے میں کوئی کسی کا دوست نہیں سب ایک
دوسرے کے اور عوام کے بھی جانی دشمن ہیں ۔ اسی لئے پل بھر میں برسوں کا
ساتھ چھوٹ جاتا ہے ۔ ایسے لوگ اس شعر کی مصداق ہیں کہ ؎
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
بھارتیہ جنتا پارٹی کی شیوسینا سے غداری تو قابلِ فہم ہے لیکن این سی پی کو
کیا پڑی تھی کہ اس نے انتخاب سے قبل کانگریس سے ناطہ توڑ لیا اور نتائج کے
بعد بی جے پی کی غیر مشروط حمایت کرنے میں زبردست پھرتی کا مظاہرہ کیاجبکہ
سیکولرزم کے نام پر اس کو ووٹ دینے والے مسلمان ابھی اس کے امیدواروں کی
کامیابی پر مٹھائی بھی تقسیم نہ کرسکے تھے۔ مسلمانوں اور سیکولر ہندووں کو
بے وقوف بنانے کیلئے این سی پی نے بی جے پی کے ساتھ اپنی ملی بھگت کو صیغۂ
راز میں رکھا لیکن اب بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے آئندہ الیکشن میں اس کا
حشر بھی راج ٹھاکرے کی طرح ہو جائیگا جس نے پچھلی بار بی جے پی کی حمایت کی
اس بارنونرمان کا صفایہ ہو گیا ۔ ایم این ایس کی حالیہ ناکامی کیلئے جس طرح
راج ٹھاکرے ذمہ دار ہے اسی طرح راشٹروادی کی محرومی کا سہرہ کسی اور کے
نہیں بلکہ خود شردپوار کے سر بندھتاہے۔ یہ دونوں حضرات اپنی اپنی جماعت کے
بانی بھی ہیں اور دشمن بھی بقول شاعر؎
ہر قدم پہ ناکامی ہر قدم پہ محرومی
غالباً کوئی دشمن دوستوں میں شامل ہے
ویسے بھولے بھالے مسلمانوں کا کیا ہے اس بار وہ اتحادالمسلمین کی کامیابی
کا جشن منارہے ہیں جیسے کبھی سماجوادی پارٹی یا مسلم لیگ کی کامیابی پر خوش
ہوا کرتے تھے ۔ انتخابی سیاست کا تو یہ معاملہ اسی طرح کا ہے کہ جیسے ایک
زمانے میں ہندوستان نے ورلڈ کپ جیت لیا تھا۔ شائقین ِ کرکٹ نے رائے دہندگان
کی مانند اس سے تفریح حاصل کی اور خوشی منائی ۔ کھلاڑیوں نے سیاستدانوں کی
طرح انعام حاصل کیا اور سٹہ بازوں نے سیاسی جماعتوں پر روپیہ خرچ کرنے والے
سرمایہ کاروں کی مانند اپنی تجوری بھری ۔حق بحق دار نصیب کی مثل ہر کسی کو
وہی ملا جس کا کہ وہ حقدار تھا۔
مہاراشٹر کے واقعات کو اگر جئے للیتا کی گرفتاری سے جوڑ کر دیکھا جائے تو
بات قدرے واضح ہو جاتی ہے۔فی الحال چند ایک کے علاوہ ساری سیاسی جماعتیں
بدعنوان ہیں الاّ ماشا اللہ۔ ایسے میں کرناٹک کےیدورپاّ کو جسے بدعنوانی کے
سبب اقتدار ہٹا دیا گیا تھا پارٹی کا نائب صدر بنا دیا جائے ۔وہ خود رکن
پارلیمان ہو اور اس کا بیٹا اسمبلی میں براجمان ہو اور بنگلور کی عدالت اس
سے آنکھیں موند کر جئے للیتا کو جیل بھیج دے کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں
ہے؟ ایسا اس لئے کیا گیا تاکہ شرد پوارجیسوں کوپیغام دیا جاسکے کہ اقتدار
کے باوجود تم سب جیل جاسکتے ہو ۔ اب جئے للیتا تمام بدعنوان رہنماؤں کیلئے
نشانِ عبرت ہے جس کی مثال دے کر انہیں بلیک میل کیا جاسکتا ہے۔ ادھر
انتخابات کا خاتمہ ہوا ادھر جئے للیتا کو ضمانت مل گئی اور وہ گھر آگئیں
کیا یہ سب اتفاقی واقعات ہیں؟
اس بار مہاراشٹر اور ہریانہ میں انتخابات ہوئے ۔ پانی پت کا میدان ہریانہ
میں واقع ہے اس کے باوجود ہریانہ کے بجائے مہاراشٹر میں اسے خوب یاد کیا
گیا ۔ اس لئے کہ مراٹھی زبان میں پانی پت کی تیسری جنگ کے حوالے جس قدر
محاورے ہیں دنیا کی شاید ہی کسی زبان میں ہوں ۔ مراٹھوں اور احمد شاہ
ابدالی کے درمیان ۱۷۶۱ کے اندر لڑی جانے والی اس جنگ نےمراٹھی نفسیات پر
جو اثرات مرتب کئے ہیں اس کا موازنہ مراٹھا تاریخ کے کسی اور واقعہ سے نہیں
کیا جاسکتا ۔ شیوسینا کے بارے میں تو بس یہی کہنا کافی ہے کہ ’’شیوسینے چے
پانی پت جھالے‘‘ یعنی شیوسینا کا پانی پت ہوگیا ۔ گویا پانی پت میں جوحالت
احمد شاہ ابدالی نے کی تھی وہی حالت امیت شاہ گجراتی نےشیوسینا کی کردی ۔
اتفاق سے دونوں فاتحین کے نام میں شاہ مشترک ہے۔ شیوسینا بی جے پی کو اپنا
دوست سمجھتی تھی اوراس نے بڑے جتن سے اس کو پال پوس کر بڑا کیا تھا لیکن اب
اس کے خطرناک تیور دیکھ کر ادھو ٹھاکرے کی زبان پر یہ شعر ہوگاکہ ؎
ہٹائے تھے جو راہ سے دوستوں کی
وہ پتھر مرے گھر میں آنے لگے ہیں
اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے کا خواب دیکھنے والی بی جے پی سے جس کو ۱۶۵
نشستوں پر کامیابی دلا کر وزیراعظم مودی نے دیوالی کاحسین تحفہ دینے کا
وعدہ کیا تھا پانی پت کا ایک اور محاورہ صادق آتا ہے’’ سنکرانتی کوسللی‘‘
یعنی ہم پر دیوالی کے بجائے اماوس کی رات چھاگئی۔ اس لئے کہ اب اقتدار میں
آنے کیلئے بی جے پی کو این سی پی یا شیوسینا کے سامنے جھولی پسارنا ناگزیر
ہوگیا ہے۔ کانگریس نے اس بار تشہیر کی
مہم نارائن رانے کےحوالے کی تھی وہ خود کڈال حلقۂ انتخاب سے ہار گئے اس
لئے ان کے بارے میں کہنا پڑے گا ’’ آمچا وشواس پانی پتات گیلا‘‘ یہ
ذومعنیٰ محاورہ ہے۔ پانی پت کی جنگ میں معروف مراٹھا سپہ سالار کا نام
وشواس راؤ تھاجو میدان جنگ میں کام آگیا تھا ۔ اسی کے ساتھ مراٹھا فوج
جنگ ہار گئی۔ چونکہ وشواس اعتماد کو بھی کہتے ہیں اس لئے اس کا ایک مطلب ہے
ہماری خود اعتمادی پانی پت کی جنگ میں ختم ہو گئی ۔ راشٹروادی کیلئے ایک
اور سپہ سالار دتاّ جی کے الفاظ مشعلِ راہ ہیں جو اس نے مرتے وقت کہے
تھے’’بچیں گے تو اور بھی لڑیں گے‘‘۔ ایسا لگتا ہے دتاّجی کی طرح لڑنے کا
موقع شردپوار کو نہیں ملے گا ایسے میں این سی پی کےمسلمان حامیوں پر فی
الحال یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی |