پاکستان اور بھارت کے درمیان
کشمیر بنیادی مسئلہ ہے۔ اس پر تین جنگیں لڑ چکے ہیں پاکستان اپنا آدھا وجود
ان جنگوں کی بھینٹ چڑھا چکا ہے…… اور بھارت بھی کشمیر کے مسلہ کی وجہ سے ہی
اندرونی طور پر علیحدگی کی تحریکوں کا سامنا کر رہا ہے ۔لیکن کشمیر کا
مسئلہ وہیں کا وہیں ہے ۔ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔
توپاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ تصور کرتا ہے…… انسان کا وجود اسکے کسی حصے
کے الگ کردئیے جانے کے باوجود قائم رہ سکتا ہے مگر شہ رگ کٹ جانے سے انسان
کا زندہ رہنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوتا ہے۔
پاکستان مسلہ کشمیر شروع دن سے کشمیری عوام کی رضامندی اور انکی رائے کے
مطابق حل کرنے کا خواہشمند ہے۔ لیکن بھارت کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے
پر بضد ہے۔ یہ اسی ضد کا شاخسانہ ہے کہ بھارت مسلہ کشمیر کو خود اقوام
متحدہ کی سلامتی کونسل میں لیکر گیا اور اب برسوں بیت جانے کے باوجود اقوام
متحدہ کی قراردادوں پر عمل پیرا ہونے سے انکاری ہے۔آج کا المیہ یہ ہے کہ
کہا جا رہا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جواہر لال نہرو کی
بجائیسردار پٹیل کو فالو کرتا ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا بدمعاشی ہوگی ہمیں
اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے وہ جس کو چاہیے فالو کرے مگر اقوام عالم کے
روبرو کیے ہوئے اپنے بڑوں کے سرکاری وعدے کو تو پورا کرے ،اور اقوا عالم کے
روبرو کیے گئے وعدوں کو تو فالو کرے ۔
یہ ستم ظریفی کیا کم ہے کہ اقوام متحدہ جس کا قیام دنیائے عالم کو جنگوں کی
تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنا اور اسے امن کا گہوارہ بناناتھا لیکن آج خود
اقوام متحدہ بڑی طاقتوں کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے۔ بڑی طاقتوں کے مفادات کے
تحفظ کے لیے تو منٹوں سکنڈوں میں دھڑا دھڑ قراردادیں منظور کرتی ہے اور ان
پر کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر عمل بھی کروایا جاتا ہے ،لیکن کشمیر اور فلسطین
کے مسلے پر اسے غیرت نہیں آتی۔اس سلسلے میں عراق لبیا اور افغانستان کی
مثالیں دنیائے عالم کے سامنے ہیں۔ ابھی حال ہی میں غزہ کے بے گناہ لوگوں کو
کس بیدردی سے قتل کیا گیا ہے لیکن اقوام متحدہ ……کہیں نظر نہیں آئی۔اسرائیل
بھارت کی طرح اقوام متحدہ کا مذاق اڑاتا ہے۔بھارت میں نریندر مودی کے
برسراقتدار آنے پر جو خدشات پاکستان کو لاحق تھے مودی سرکار نے پاکستان کے
اندر بلا اشتعال فائرنگ کرکے درست ثابت کر دئیے ہیں۔ فائرنگ کا سلسلہ ابھی
تک جاری ہے ۔اس بھارتی جارحیت کے نتیجہ میں کئی بے گناہ جانیں جا چکی ہیں ،گھر
تباہ ہو گئے ہیں۔لیکن عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی جانب سے کسی قسم کا
نوٹس نہ لینا ایک الگ ظلم ہے۔
اقوام متحدہ کی قراردادوں سے مکرنے کے بعد شملہ معاہدہ ہے۔ جس پر فریقین کا
اتفاق ہے کہ دونوں ممالک اقوام متحدہ کے مقاصد اور چارٹر کی پاسداری کریں
گے ۔اوراپنے تنازعات کو باہمی مذاکرات سے حل کریں گے۔ لیکن یہاں بھی بھارتی
سرکار فرار کی رہ پر گامزن ہے ……وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کو
جن میں سرفہرست مسلہ کشمیر ہے کو نہ تو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق
حل کرنے پر تیار و آمادہ ہے اور نہ ہی شملہ معاہدے پر عملدرآمد کرنے خواہاں
دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ جن حالات میں پاکستان نے شملہ معاہدہ کیا ہے وہ
پاکستان کے حق میں نہ تھے لیکن اس کے باوجود پاکستان نے شملہ معاہدہ کیا
اور آج تک بھارت سے اپنے تنازعات حل کرنے کا خواہشمند ہی نہیں کوشاں بھی
ہے۔
بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر نے کشمیری قیادت سے ملاقات کیا کرلی بھارت
سرکار نے سکریٹری کی سطح کے مذاکرات ہی ملتوی کر ڈالے ہیں۔ اوپر سے ہمارے
وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے بھی ’’ بھارتی موقف کی
تائید میں بیان دے دیا کہ پاکستانی ہائی کمشنر کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا
کیونکہ یہ ایسی ملاقاتوں کے لیے موزوں وقت نہ تھا‘‘جبکہ بھارتی سرکار جب
اور جہاں چاہے کشمیری راہنماؤں سے ملاقاتیں کرسکتی ہے اور کرتی بھی رہتی ہے
لیکن پاکستان کے ہائی کمشنر سے کشمیری راہنماؤں کی ملاقاتوں پر بھارت سرکار
سیخ پا ہے۔ کہا جاتا ہے حالیہ کنٹرول لائن پر بھارتی خلاف ورزیوں کے پس
پردہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پاکستان کو سبق سیکھانے کی خواہش
پنہاں ہے، جو اب راز راز نہیں رہی بلکہ عالمی میڈیا اور خود بھارتی میڈیا
نے اسکا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کو سرتاج عزیز کی جانب سے دئیے گئے بیان کی باز پرس کی
جانی چاہیے ورنہ حسین حقانی والی صورت حال پیدا ہونے کے قوی امکان ہیں اگر
یوں کہا جائے تو بجا نہیں ہوگا کہ ایسے حالات سے حکومت پہلے ہی گذر رہی ہے۔
خوشی کی بات ہے کہ بھارتی جارحیت کے خلاف ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کا
ایک موقف ہے۔ ہمیں بھارت پر واضع کردینا چاہیے کہ اگر اس کے دل میں کوئی
کھچڑی پک رہی ہے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اس کی کسی بھی حرکت کا منہ
توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن خطے میں ہماری امن کی کوششوں کو
کمزوری نہ سمجھا جائے اگر ایسا سمجھا گیا تو خطے کا امن تباہ ہونے کی ذمہ
داری بھارتی قیادت پر ہوگی…… کیونکہ ہندو بنیا کے متعلق یہ خیال کرنا کہ
نرم انداز گفتگو سے اسے کسی جارحیت سے باز رکھا جا سکتا ہے محض خام خیالی
ہے۔کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں سدھرتے۔بھارت ہٹ دھرمی ترک کرکے فہم
و فراست اور تدبر کا ثبوت دے تاکہ دونوں ممالک خطے کو جنگ کی تباہ کاریوں
سے محفوظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ |