مسلسل تین گھنٹوں کی کلاس
کے بعد ہم ایم فل سکالر اور استاد محترم کلاس میں ہیTeabreakمیں مصروف تھے
کہ استاد محترم نے ملالہ یوسفزئی پر ہونے والے حملے کے متعلق تمام کلاس کی
رائے معلوم کرنا چاہی ۔یہ2012ء کی بات ہے جب ملالہ پر حملہ کیا گیااور ملک
گیر سوگ کا مکان تھا اس روز ہم Structuralism،Post
structuralism،Modernism،Post modernism،مختصراً یہ کہ ہم خشک قسم کا لیکچر
لے چکے تھے اور کسی بھی موزوں پر با ت کرنے کا خاص موڈ نہ رکھتے تھے مگر
رائے کی آزادی سب کو ہے۔استاد محترم نے خود بھی خوبصورت رائے سے کلاس کو
نوازا۔جب ہم سب ملالہ پر بات کر رہے تھے اس وقت ملالہ پوری دنیا میں نہیں
تو کم از کم آدھی دنیا میں تو مشہور ہوچکی تھی۔ علاج کے لیئے سوات کی
شہزادی مختلف جہازوں کے ذریعے سفر کرتی ہوئی برطانیہ جاپہنچی اور پاکستانی
عوام نے دعاؤں کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔ کالم نگاروں نے قلم اٹھا لیئے اور
تجزیہ نگاروں کو تجزیہ کیلئے مصالحے دار chapterمل گیا۔
خیر بحث جاری تھی مختلف فیلو ز نے مختلف رائے دی،ایک نے تو یہاں تک کہہ
ڈالا کہ سر آج کل تو ہر جگہ ملالہ کا ہی ذکر ہو رہا ہے، لوگوں کی آنکھوں پہ
پٹی بندھ گئی ہے،لوگ سمجھ نہیں سکتے کہ سامر اجی ایجنڈوں نے خود ساختہ
حملوں کا یہ ڈرامہ چایا ہے۔ یقین مانیے میرا جی چاہتا ہے کہ اس ملالہ ڈالر
کماؤ کو موٹی موٹی گالیوں سے نوازوں۔کلاس کا ماحول خاصا بہتر ہو گیا۔سکالرز
مسکرانے لگے مجھ سے پوچھا گیا میڈم آپ کے آازاد کشمیر میں کس رنگ میں دیکھا
جاتا ہے ملالہ کو۔۔۔ میرا پوائنٹ تھا کے نفرت یا غصہ کا اختیار سبھی کو ہے
مگر پڑھے لکھے انسان پر یہ عائد ہو تا ہے کہ وہ ان جذبوں کے اظہار کا
اچھاطریقہ چنے بلا شبہ ملالہ ایک معمہ ہے۔اس معصوم بچی کو ڈھال بنا کر دشمن
پاکستان کو استعما ل کرے گاحیرت یہ کے ملالہ کے سر پہ گولی کے زخم کے نشان
دو تین دن ہی میں غائب ہوگئے ۔یہ بھی نہیں اس کے سر پہ تو بال بھی پورے
دیکھائی دیتے ہے۔ہمیں ایسی ٹیکنا لوجی سے بے خبر رکھا گیا ہے جس کے ذریعے
ملالہ کے سرکے اس حصے پہ جہاں گولی لگی بال صاف کیئے بغیر ہی آپریشن کامیاب
ہو گیا۔یہ سب ایک ڈرامہ ایک سازش نہیں تواور کیا ہے،لیکن اس کا یہ مطلب ہر
گز نہیں ہو سکتا کہ ہم گندی زبان استعمال کر کے خود کوبھی ہلکا کر
ڈالیں۔ایک وقت آئے گا جب ملالہ بھی ایک لڑکی کے نام سے نہیں بلکہMalalaism
سے جانی جائے گی،بالکل اسی طرح جس طرح بھٹو ایک شخص کا نام تھا مگر اب
Bhuttoismایک سوچ ایک تحریک کا نام ہے۔اورMalalism بھی بہت جلد منظر عام پر
آنے والا ہے۔چونکہ اس روز لیکچر بھی ازمز پر تھا اس لیئے سب نے کہہ ڈالا لو
جی پہلے (isms) کیاکم تھے جو کشمیر والوں نے ایک اور (isms) کا اضافہ کر
ڈالا۔۔۔
دو وسال قبل کی ہوئی یہ بات آج بھی سچ دیکھائی دے رہی ہے کہ واقعیMalalaism
ایک Planned تھا ۔ایک گولی نے ملالہ کو عرشوں پر بیٹھا دیا۔2012 میں ملالہ
کو پاکستان نے ستارہ شجاعت سے نوازہ۔ملالہ کو دنیا کی 100 با اثر شخصیات
میں شامل کیا گیا ۔یہی نہیں بلکہ 2012ء میںUNنے 21 جولائی کو ملالہ ڈے بھی
قرار دے دیا۔ کہانی یہاں نہیں ختم ہوتی سنتے جائیے8اکتوبر کو2013ء میں"I
Am Malala"کتاب شائع ہوئی۔ جس کے بعد اس بچی کو نڈر قرار دے دیا گیا۔
صاحبو! یہMalalaism۔۔2012سے2013ء کے بعد جب 2014ء میں داخل ہوا تو کیا
تبدیلی آئی ۔۔ پڑھیے 2014ء میں سویڈن میں ملالہ کو ورلڈ چلڈرن پرائز کیلئے
موزوں قرار دیا گیا ۔ اور مئی 2014میں ملالہ کو یونیورسٹی آف کنگز کالج نے
اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے ڈالی۔۔ اب 16اکتوبر 2014ء کو اس معصوم بچی کو
17سال کی عمر میں امن کا نوبل پرائز سے نواز دیا گیا۔
ملالہ ایک پاکستانی بچی ہے ایک رخ سے دیکھا جائے تو بے حد حسرت ہوتی ہے کہ
اس بچی نے ۱۷ سال کی عمر میں کامیابی حاصل کی۔سوال اٹھتا ہے جو نوبل
پرائزپاکستان کی ملالہ اور ہندوستان کے کیلاش ستیارتھی کو مشترکہ طور پر
دیا گیااس کی کیا وجہ تھی۔یہ دونوں شخصیتیں کس طرح اس انعام کو استعمال
کریں گے؟کس طرح پیش کریں گے؟آخر کیا ہوگا؟اگر مشترکہ انعام ہی دینا تھاتو
پاکستانی بچی کے ساتھ ہندوستانی کانام کیوں جوڑا گیا؟اس مقصدکے پیچھے کو ن
سا مقصد کار فرماں ہے۔آج ساری قوم انعام کی خوشی میں اس مقصد کی طرف نگاہ
نہیں ڈال رھی۔۔۔۔
اب دوسری طرف آتے ہیں انعام حاصل کرنے پہ ملالہ نے خوشی کااظہار کرتے ہوئے
کہاکہ جب یہ انعام دیا جائے تواس تقریب میں پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف
اور ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی موجود ہوں۔واہ کیا بات ہے ملالہ امن
پہ یقین رکھتی ہے ۔اس لیے اس امن کے انعام پر دونوں بھائیوں کوتقریب میں
اکٹھا دیکھنا چاہتی ہے۔کوئی اس ملالہ کو بتا دے کے بیٹا آپ کس امن کی بات
کرنا چاہتی ہوکیا آپ نے دیکھا نہیں کس طرح بھارت نے عید کے دن گولہ باری
بند نہیں کی۔ہندوستان کی اس جارحیت پر آپ کی معصومانہ امن کی سوچ سامنے
نہیں آئی۔ہندوستان کی اس شرمناک حرکت پہ آپ بھی نواز شریف کی طرح خاموش تما
شائی بنی رہی اور اب آپ نواز اور مودی کو اکٹھا دیکھنا چاہتی ہو۔یقین مانئے
نواز شریف ملالہ کی یہ خواہش ضرور پوری کریں گے۔کیونکہ وہ پاکستان کے
وزیراعظم کم اوردنیا کے زیادہ ہیں۔پاکستان میں تو وہ مہمانوں کی طرح رہتے
ہیں اور دنیا بھر میں دوروں پہ مصروف کار ہیں۔پاکستان میں سڑکوں پہ بچوں کو
قتل کیا جائے ،کسانوں سے زیادتیاں کی جائی،غریب کے منہ سے نوالہ چھین لیا
جائے ،اس سے حکومت کو کیا غرض۔۔۔پاکستان کی عوام تو سڑکوں پہ اچھلنے والے
مینڈک کیڑے ،مکوڑے ہیں جن کا کام ہے ،VIPگاڑیوں تلے آنا اور پھر مر جاناہے۔
ملالہ کے امن کے انعام پر بے شک ہمیں خوشی ہوئی کہ اس بچی نے پاکستان کا
نام روشن کیا،مگرسکون نہیں پڑتا کہ اس معصوم شہزادے اعتزاز حسن کو کیوں کسی
کھاتے میں نہیں ڈالاگیاجس نے سکول کے ہزارو ں بچوں کو دہشت گردوں سے بچانے
کیلئے خود کو موت کے حوالے کر دیا۔ملالہ نے آخر ایسا کیا کر دیا۔۔؟سر میں
ایک نام نہادگولی ہی توکھائی۔گجرات میں ایک استانی بچوں کی جان بچاتے ہوئے
آگ میں جھلس گئی۔تعلیم اور امن کیلئے ہی اگر ملالہ کو مثال بنایا گیا تو اس
میں داکٹر عافیہ صدیقی کا نام کیوں نہ لیاگیاجو عرصے سے امریکی جیل کی
سلاخوں کے پیچھے اپنی زندگی کی بازی ہار رہی ہے۔اگر دہشتگردوں کے حملوں کی
مذمت میں ملالہ کو انعام دیا گیا تواس میں نبیلہ کا نام کیوں نہیں لیا گیا
جو ڈرون حملوں میں ماری گئی۔۔۔؟
صاحبو!امریکہ نے ایک ملالہ کو اٹھا لیا۔۔۔مگر ایک اعتزاز حسن کو مار
دیا۔۔۔۔نبیلہ کو گرا دیا ۔۔۔ عافیہ کوبند کر دیا۔پاکستان میں اندرونی
سازشوں میں ملوث ہو گیا۔اسرائیلیوں کی مدد کرنے لگا۔۔معصوم فلسطینیوں کو
مروانے لگا۔۔دشمن کی یہ سازشیں کسی سے چھپی نہیں اور کسی سے نہیں بلکہ صرف
ملالہ سے ہی سوال ہے کہ اعتزاضات کی بھرمار ہو گی۔۔۔نام نہارامن ،تحمل اور
تعلیم کی ترقی کیلئے کوشش جاری ہے۔۔۔ مگر فلسطین میں مرنے والوں کیلیئے ان
کے دل میں درد کیوں نہ ہوا۔۔۔؟اگر ملالہ بچیوں کی تعلیم کیلئے اتنی ہی فکر
مند ہے تو پاکستان کیوں نہیں آتی۔؟
قارئین۔۔۔ مان لیتے ہے کہ ملالہ کا مقصد ذاتی دولت یا شہرت کا حصول نہیں
بلکہ تعلیم کا حصول ہے۔یہ بھی مان لیتے ہے کہ ملالہ نے پاکستان کا نام روشن
کیا۔یہ بھی مان لیتے ہے کہ ملالہ نے معاشرے میں عورتوں کی تعلیم کے لئے
مثبت قدم اٹھایا۔مگر یہ قدم پاکستان کی طرف کیوں نہیں بڑھ رہے۔؟ ملالہ ایک
باہمت لڑکی ہے مگر اس کی ہمت پاکستان آنے پہ کیوں جواب دے جاتی ہے۔۔۔؟آخر
اس کے پیچھے کون سی ایسی وجوہات ہیں۔ خیر ہماری یہ دعا ہے کہ ملالہ اسی طرح
ترقی و کامیابی حاصل کرتی رہے۔ اور اﷲ اس لڑکی کو پاکستان کی طرف قدم
اٹھانے کی توفیق عطا کریں۔تا کہ ملالہ کا سفر ملالہ کی ذات تک ہی رہے ۔نہ
کہ مغربی Malalaism تک۔۔۔ |