آ سیب

وہ پنجاب کے ایک خو ببصورت گا وں میں قدم ر کھتے ہی مسکرا ا ٹھی دادی دادا پھو پھو چچا سب اسکی اک مسکرا ہٹ کے ا سیر ہو جا تے وا لد ین اور بہن بھا ئی تو ا سے ٹوٹ کر پیا ر کر تے تھے وہ تھی ہی ا یسی چمکتا ہوا چہر ہ گلا بی ہو نٹ نر م و نا ز ک جسم جب مسکرا تی اسکے گا لوں میں ڈنپل وا ضح ہو جا تے غضب کی جا ذ بیت اور بے حد ذہین ہو نے کے سا تھ سا تھ وہ ننھی پری بے حد خو بصورت بھی تھی جب اسکے وا لد ین ا سے شہر سے گا وں میں لے آ ئے تو وہ بہت خو ش تھی شکو ہ تھا تو صر ف ایک کہ گا و ں میں بچے ا تنے گند ے کیو ں ر ہتے ہیں وہ اکثر اپنی ا می سے سوال کرتی اسکی امی اسکے سوا لوں سے تنگ آ کر کہتی بیٹا تم کم بو لا کرو تمھیں نظر لگ جا ئے گی وہ ایک لمھے کے لیئے خا مو ش ہو جا تی مگر ا سکے ذ ہن میں ا کثر ا یسے سوا لات ا بھر تے ر ہتے جنکا جوا ب ا سکی امی کے پا س بھی نہ ہو تا وہ اپنی بڑ ی بہن سے بہت محبت کر تی تھی اس کے سا تھ کھا نا پینا اور سو نا وہ د و نوں بہنیں صبح سو ر ج کی کر نیں طلو ع ہو نے سے پہلے ا پنے با غ میں چلی جا تیں جہاں طر ح طر ح کے تا زہ پھل لگے ہو تے بڑ ی بہن پھلوں کی تلاش میں در ختو ں اور پو دوں پر لٹکتی ر ہتی اور وہ ا ڑ تی ہو ئی خو بصو ر ت تتلیو ں اور پھو لو ں سے کھیلتی ر ہتی ا سکی عمر بمشکل چار سال ہو گی مگر با تیں بز ر گو ں جیسی کر تی د و نو ں بہنو ں کی ز ند گی ر نگا ر نگ اور بلبل کے تر نم کی ما نند گزر ر ہی تھی وہ ا کثر رات کو ا پنے کھیتو ں میں نکل جا تیں اور گھنٹو ں جگنو و ں کے پیچھے بھا گتی ر ہتیں اکثر ننھی پر ی جگنو پکڑ کر گھر لا تی وہ ا پنی بہن سے سوا ل کر تی یہ جگنو گھر آ کر رو شنی میں کیوں نہیں چمکتے اسکی بہن ا سے بتا تی جگنو ا ند ھر و ں میں ا جا لا کر تے ہیں اور ا سے علا مہ ا قبال کی جگنو اور بلبل کی کہا نی سنا تی جب آ خر ی مصر عے پر پہنچتی ہیں جہاں میں لوگ و ہی ا چھے آ تے ہیں جو کا م دو سرو ں کے وہ مسکرا د یتی اور کہتی میں بھی جگنو کی طر ح د و سر و ں کے کا م آ نا چا ہتی ہو ں مجھے اس کے لیئے کیا کر نا ہو گا اسکی بڑ ی بہن جو اس سے شد ید محبت کر تی تھی ا سے بتا تی کہ تم پڑھ لکھ کر ڈا کٹر بننا یعنی کہ جگنو بننا پھر د و سر و ں کے کا م آ نا وہ خو شی سے کو د پڑ تی ہا ں میں بھی ڈا کٹر بنوں گی اور غر یب لو گو ں کا مفت میں علا ج کر و ں گی دن یو ں ہی گز ر تے جا ر ہے تھے وہ دو نو ع بہنیں صبح میں تتلیاں پکڑ تیں اور شا م میں جگنو ز ند گی ر م جھم کی ما نند تھی اور تر تم کی ما نند گزر ر ہی تھی حیر ت کی با ت یہ تھی کہ وہ جو کہتی وہ سچ ہو جا تا بس پھر ا یک دن اس ننھی پر ی نے ا یک با ت کہ کر سب کو پر یشا ن کر د یا ا می میں نے ا للہ کے پا س جا نا ہے ا للہ کیسا ہے میں نے ا سے ا بھی د یکھنا ہے اس کے لیئے میں تین دن بعد مر جا و ں گی اسکی ا می نے پو چھا تم اللہ کے پا س کہا ں سے جا و گی اس نے کہا اسی اپنے دروا ز ے سے ہی چلی جا و ں گی ما ں کو ہو ل ا ٹھنے لگے اور ا سکی دا دی کو سا را وا قعہ سنا یا دا دی نے ما تھا چو متے ہو ئے کہا مر یں تیر ے د شمن تمہا ر ی تو ا بھی بہت ضرو ر ت ہے بیٹی وہ خا مو ش ہو گئی دو سر ے ہی دن اس نے چلنے اور بو لنے سے ا نکار کر د یا وا لد جاب کے سلسلے میں ایک شہر میں ر ہتے تھے دا دا دا دی نے بیٹے کو پر یشان کر نا منا سب نہ سمجھا اور ا سے ا یک سر کا ر ی ہسپتا ل لے گئے بے حس ڈا کٹرز نے ا سے گڑ یا بنا کر کھیلنا شرو ع کر د یا نئے نئے تجر بے کر نا شرو ع کر د یئے اور اس کے دادا دادی کو دوا یئں لکھ کر دے دیں کہ جا کر یہ دوا ئیں لے آ ئیں ہو سکتا ہے آ رام آ جا ئے مگر کو ئی فر ق محسوس نہ ہو ا وہ کرا ہتی ہو ئی تیسر ے دن مد ھم آ وا ز میں ا پنی امی سے بو لی ا می می مر ر ہی ہوں ماں تر ستی آ نکھو ں سے اسے د یکھتی ر ہی اور آ ہیں بھر تی ر ہی ڈا کٹرز کی منتیں کر تی ر ہی کبھی اد ھر چکر لگا تی گھر کے تو کبھی ہسپتال کے کبھی ڈا کٹر ز کے پا س جا تی خدا کے لیئے د یکھ لو میر ی بچی کی سا نسیں ا کھڑ ر ہی ہیں خدا کے لیئے ایک بار د یکھ لو مگر ڈا کٹرز قہقے پر قہقے لگا تے ہو ئے ا پنے لنچ میں مصرو ف ر ہے بچی آ خر ی سا نسیں لینے لگی تو ا یک ڈا کٹر نے آ کر معز ر ت کر لی کہ آ پکی بچی کسی صورت صحت یا ب نہیں ہو سکتی دادا دادی اور ماں ڈا کٹر ز کے پا وں پکڑ نے لگے خدا کے لیئے ہما ری ننھی پر ی کو بچا لو مگر بے سود ڈ ا کٹرز نے ڈرپ ا تا ر د ی اور اور ننھی پر ی کو زند ہ حا لت میں مر دہ خا نے بجھوا د یا دادا دادی اسی حا لت میں ا ٹھا کر بچی کو گھر لے آ ئے مو لو ی صا حب کو بلوا یا گیا تو اس نے بچی کی نبض پکڑ کر ا نا للہ و ا نا ا لیہ را جعو ن پڑ ھ کر کہا اسے د فنا نے میں د یر مت کر نا مو لو ی کی ما ن کر گھر وا لے اس ز ند ہ لا ش کو قبر میں اتار کر آ گئے ا سکی بہن نے اس کی مو ت کو تسلیم نہ کیا اور شد ت غم میں ا د ھر ا د ھر تلا ش کر نے لگی اس نے اس سے پہلے اس قسم کی مو ت نہ د یکھی تھی بعد میں جب کسی بز ر گ سے مشو رہ کیا گیا تو اس نے بتا یا کی بچی کو سا یہ تھا اور آ سیب کی حا لت میں ا یسے وا قعات ہی ہوا کر تے ہیں آپ ا گر کسی ا چھے پیر یا بزرگ کو پہلے د کھا تے تو ننھی پر ی ننھی سی عمر میں اللہ کو پیا ر ی نہ ہو تی سب کے سب صد ا فسو س ملتے ر ہ گئے اور سو چنے لگے کہ کا ش ہم نے پہلے یہ قدم ا ٹھا لیا ہو تا تو ننھی پر ی آ ج ہما رے در میان ہو تی مگر اب پچھت ئے کیا ہو ت جب چڑ یا چگ گئی کھیت مگر آج بھی ا سکی میٹھی متر نم آواز ہما رے کا نوں میں گو نجتی ر ہتی ہے جیسے وہ کہ ر ہی ہو

کون کہتا ہے کہ مو ت آ ئے گی تو مر جا ؤں گی
میں تو در یا ہو ں سمنر ر میں ا تر جا ؤں گی۔۔۔۔۔

naila rani riasat ali
About the Author: naila rani riasat ali Read More Articles by naila rani riasat ali: 104 Articles with 159608 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.