کیا پاکستان کو ایسی شخصیت کی ضرورت ہے ؟

لولا ڈی سلوا ------ برازیل کے سابق صدر

بہت پہلے ایک خبر نظر سے گزری تھی کہ کراچی یونیورسٹی میں طلباء نے ایک جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر اپنی ڈگریاں لینے سے انکار کردیا تھا - -سبب یہ بتایا گیا تھا کہ ایک میٹرک پاس گورنرکے ہاتھوں ڈگری وصول کر نا علم اور ڈگری کی بے توقیری ہے اسوقت سے ایک سوال ہمیشہ میرے ذہن میں کلبلاتا رہا کہ کیا ڈگری عطا کرتے وقت ڈگری دینے والے کی شخصیت کا پڑھا لکھا ہو نا لازمی امر قرار دیا جائے ؟ تو کیا پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کرتے وقت ڈگری عطا کر نے والی شخصیت بھی پی ایچ ڈی ڈگری کی حامل ہو؟

آخر ایک دن تنگ آکر میں نے تاریخ سے اس کا جواب جاننا چاہا- ماضی بعید کو کھنگالنے کی بجائے ماضی قریب میں گھوما اور پتہ چلا کہ ابھی صرف چار سال پہلے ہی ایک شخصیت گزری ہے جو بالکل پڑھی لکھی نہ تھی لیکن بطور وزیر اعظم اس نے ایسے کارنامے انجام دئے کہ ایسے افراد سے ڈگری حاصل کر نے کے بعد ایک گونہ فرحت - ایک دلی مسرت - ایک انجانی راحت کا احساس ہوتا ہے -
یہ شخصیت تھی برازیل کے صدر - لولا ڈی سلوا کی

انکا پیدائش کا مہینہ ہے اکتوبر - جب بھی اکتوبر کا مہینہ آتا ہے تو اس ماہ میں پیدا ہونے والی شخصیتوں کے نام میرے سامنے گھومنے لگ جاتے ہیں - کیسی کیسی ہستیوں نے اس ماہ جنم لیا جنہوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا - مہا تما گاندھی - بل گیٹس- امریکی صدر روز ویلٹ - امیتابھ بچن --اوراب ان میں نیا نام لولا ڈی سلوا کا جگ مگ جگ مگ کر رہا ہے -

اکتوبر -27 -1945 میں پیدا ہونے والے لولا ڈی سلوا کا بچپں نہایت نامساعد حالت میں گزرا - پیدائش کے بعد والد خاندان کو چھوڑ کر کہیں اور جا بسا - پیچھے رہ جانے والے بچوں اور بیوی پر کیا گزر رہی ہے اس کی پرواہ ہی نہیں کی - آخر بیوی نے خود ہی ادھر ادھر سے اپنے شوہر کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور ایک کھلے ٹرک پر اپنے بچوں بشمول لولا ڈی سلوا کو لےکر تیرہ دن کی مسافت کے بعد شوہر کے پاس پہنچی تو یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ اس نے دوسری شادی کر لی ہے - اس وفا کی پتلی نے کوشش کی کہ کسی طرح اسی گھر میں رہ جائے لیکن یہ نہ ہو سکا - تب وہ پھر اپنے بچوں کو لیکر دوبارہ نکلی اور ایک شراب خانے کے نچلے کونے میں زندگی کے دن بتانے لگی

یہ وہ حالات تھے کہ گھر میں کھانے کے لالے پڑ گئے - ایسے میں تعلیم کہاں اور اسکول کہاں - دس سال کی عمر تک یعنی 1955 تک تو لولا ڈی سلوا اپنی زبان کی الف بے بھی نہیں لکھ سکتا تھا - لیکن ماں نے کسی نہ کسی طریقے سے اسے اسکول میں داخل کر دیا کہ پڑھ لے - لیکن گھر کے معاشی حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے - مجبوری کے عالم میں لولا ڈی سلوا نے صرف دو گریڈ تک پڑھ کر تعلیم کو خیر باد کہا اور گھر کی حالت سنوارنے گھر سے نکلا - -اس وقت اس کی عمر چودہ برس کی تھی - کام کچھ آتا نہیں تھا -کوچہ و بازاروں میں پھر کر لوگوں کے جوتے پالش کر نے لگا - کیسی عجیب بات تھی کہ خود کے پاس جوتے نہیں اور ننگے پیر ہے لیکن لوگوں کے جوتے چمکا رہا ہے - آخر کسی نے ترس کھا کر اسے خراد مشین کا کام سکھادیا اور ایک تانبے کے کارخانے میں نوکری مل گئی - لیکن اس کے صبر کا امتحان یہیں پر ختم نہیں ہوا - خراد مشین پر کام کے دوران اس کی انگلی زخمی ہو گئی -

زخمی انگلی کا علاج کرانے کہاں کہاں نہیں گیا - کس ہسپتال میں نہیں پہنچا - ہسپتال تھے لیکن اس کے لئے نہیں - ڈاکٹر تھے لیکں اس کے لئے نہیں -دوائیاں تھیں لیکن اس کے لئے نہیں - شاید دنیا میں کچھ بھی اس کے لئے نہیں تھا- اس دوران مزدور یو نین نے اس سے پورا تعاون کیا اور اس کے صحیح علاج کے لئے کوشش کرتے رہے -آخر کار مزدور یونیں کی کوششوں سے اسے علاج کی سہولت میسر آئی اور وہ صحت یاب ہوا -

لولا ڈی سلوا نے مزدور انجمنوں کی جد و جہد سے کافی اثر لیا - اس نے بھی اس میں عملی شمولیت کا فیصلہ کیا تا کہ دوسرے مزدور اس کی طرح بے بسی کے عالم میں کسی تکلیف کا شکار نہ ہوں - مزدور یونین میں شامل ہو کر اس نے مزدوروں کے مسائل حل کر نے کے لئے دن کو دن اور رات کو رات نہ سمجھا - نتیجہ یہ ہوا وہ برازیل کی سب سے بڑی لیبر یونین اسٹیل مل لیبر یونیں کا صدر منتخب ہو گیا -

سٹیل مل کی لیبر یونین میں آکر اسے ملک کی سیاسی صورت حال سمجھنے کا موقع ملا - حکومت کی پالیسیوں سے آگاہی ہوئی - اس نے ان کی خامیوں کے تدارک کے لئے کئی دور رس نتائج کے حامل حل پیش کئے اور ان پر توجہ نہ دینے کی صورت میں آواز بھی اٹھائی - اس جد و جہد میں وہ گرفتار بھی ہوا اور پس دیوار زندان بھی رکھا گیا - لیکن وہ جو صحیح سمجھ رہا تھا اس سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں تھا - حکومت کے مختلف فیصلوں پر اس کے تجزیوں --اور ان فیصلوں سے مستقبل میں پیدا ہونے والے مسائل پر اس کی آراء کو -- دانشور حلقوں میں خوب پزیرائی ملی اور اس کی رائےکو ایک حیثیت دی جانے لگی

ان حالات میں اس نے دانشوروں اور مختلف مزدور یونینوں کے ساتھ مل کر ایک سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالی اور اس کا نام ورکرز پارٹی رکھا - اس سیاسی جماعت نے ملک کے دستور میں ترمیم کے مطالبات اٹھائے - سب سے برا مسئلہ تو یہ تھا کہ برازیل میں صدر کا انتخاب فوج کے جنرل کرتے تھے جب کہ اس کا کہنا یہ تھا کہ یہ عوام کا حق ہے - اس کی جد و جہد رنگ لائی اور حکومت نے دستور میں انتخاب سے متعلقہ دفعات میں تبدیلیاں کر نے پر مجبور ہوگئے -

لیکن اس ترمیم ۔ جو اس کی جد و جہد کے نتیجے میں ہوئی تھی ‘ کے تحت وہ انتخابات میں کھڑا ہوا تو اسے شکست ہوئی - اس کے بعد بھی مزید دو مرتبہ اور انتخابات میں ہار سے دو چار ہوا - لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور آخر کار 2002 میں اس کی پارٹی بر سر اقتدار آئی اور یوں اس نے جوتے پالش کر نے والے نے -- صدارت کا عہدہ سنبھالا -

اس نے قوم کے سامنے اپنا ایک نعرہ رکھا "مہنگائی عوام پر تھوپنے کی بجائے عوام پر سرمایہ کاری" - اس کے نزدیک بچوں کی تعلیم بھی عوام پر سرمایہ کاری کی ایک قسم ہے اور عوام کے قیمتی پن میں اضافہ کر تا ہے یعنی دوسرے الفاظ میں انہیں ویلیو ایڈ یڈ بناتاہے -

اقتدار میں آنے کے بعد اس نے غیر ضروری اخراجات میں کمی کے لئے کئی اقدامات کئے -

لیبر یونین کے تجربے کی بنیاد پر اسے بخوبی علم تھا کہ سرکاری ملازمین اور پرائیویٹ اداروں میں کام کر نے والے افراد کے حالات کار میں زمین آسمان کا فرق ہے - سرکاری اداروں کے اخراجات زیادہ ہیں - اور کام کا معیار وہ نہیں جو پرائیویٹ اداروں میں ہے - اسنے اس جانب خصوصی توجہ دی اور اختیارات سنبھالنے کے سات ماہ کے اندر ہی سرکاری اداروں کے ملازمین کے ضوابط پر مشتمل ایک بل پارلیمنٹ میں پیش کردیا - اس سے اخراجات میں کمی واقع ہوئی جو اس کے دوسرے منصوبوں میں کام آئی
غریب خاندانوں کی امداد کے لئے اس نے “خاندانی امدادی نظام متعارف کروایا - اس غرض سے “غریب “ اور “بہت غریب “ کی صحیح تصریحات یعنی "اس پے سی فیکیشن" مقرر کی گئیں - ان تصریحات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک کروڑ کے قریب مستحق خاندانوں کو مدد پہنچائی جارہی ہے -ان تصریحات کےسبب پیسوں کی تقسیم میں کرپشن کے امکانات کم سے کم ہیں - یہ امداد دو شرائط سے مربوط کی گئی -ایک یہ کہ خاندان اپنے بچوں کو پڑھائیں گے - بچوں کی صحت کا خیال کرتے ہوئے ان کی ویکسینیشن کروائیں گے


برازیل معدنی وسائل سے مالا مال ہے لیکن کسی صحیح منصوبہ بندی نہ ہونے کے سبب اس سے کچھ فائدہ نیں حاصل کیا جارہا تھا - ملک آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دباہوا تھا - دنیا میں معدنی لوہے کا سب سے بڑا ذخیرہ یہاں پر واقع ہے لیکن قدرت کی یہ سب مہربانیاں پچھلے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے سبب بے فیض ہو کر رہ گئی تھیں - لولا ڈی سلو ا نے ان معاملات پر نظر ڈالی - خام مال کی ترسیل کے فرسودہ ٹرک والے طریقوں کو الوداع کہا اور متحرک پٹے یعنی کنویئر کا نظام لانے کی منصوبہ بندی کی - معدنیات میں اس کی معاشی چابک دستی اور فنی رہبری سے ایک انقلاب آیا - اور چند ہی سال میں خام معدنی لوہے کی پیداوار دگنی ہو گئی - برازیل کی وہ معدنی کمپنیاں جو دنیا میں تو کیا خود اپنے ملک میں کسی شمار میں نہیں آتی تھیں وہ دنیا میں بڑی معدنی کمپنی کے طور پر ابھریں - یہ سب کامرانیاں لوگوں کے لئے نئی نوکریوں کے دروازے بھی کھولتی جارہی تھیں -

زراعت میں بھی یہ ملک کسی سے پیچھے نہیں لیکن اسے بھی نظر انداز کیا جاتا رہا - ان کے معا ملات بھی سنوارے -

نتیجہ یہ نکلا کہ ملک جو آئی ایم ایف کے قرضے تلے دباہوا تھا اس حالت میں آگیا کہ مقرہ مدت سے دو سال پہلے ہی سارا قرضہ بے باک کر دیا بلکہ بعد میں آئی ایم ایف کو کسی پروگرام کو چلانے کے لئے فنڈز کی ضرورت پڑی تو برازیل نے وہ رقم بطور قرضہ آئی ایم ایف کو دی -

بلاشبہ تبدیلی آچکی تھی

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے انتخابات میں عوام نے پہلے انتخابات کے مقابلے میں زیادہ ووٹ ڈالکر اپنے اعتماد کا اظبار کیا اور یوں وہ دوسری مرتبہ بھی صدر منتخب ہوئے - اس وقت دنیا کی دس مضبوظ معاشی قوت رکھنے والے ممالک میں برازیل ساتویں نمبر پر آرہا ہے - یہ سب صرف ایک شخص کی جد و جہد فراست محنت اور سب سے بڑھ کر خلوص کا ثمر ہے - لولا ڈی سلوا پر ایک الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ اس نے اپنے ملک میں ذرائع نقل و حمل جسے انفرا اسٹرکچر کہتے ہیں کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی - اس سلسے میں کچھ تجزیہ نگاروں کی رائے یہ ہے کہ ملک مضبوط ہو تو یہ چیزین خود ہی در آتی ہیں انہیں کوئی روک نہیں سکتا - جب دسمبر 2010 میں لولا ڈی سلو ا اپنے صدارت کے عہدے کی دوسری معیاد مکمل کر کے اقتدار چھوڑ رہے تھے تو عوام چاہتی تھی کہ وہ اگلے انتخابات میں پھر کھڑے ہوں لیکن انہوں نے نیلسن منڈیلا اور مہاتیر کے رستوں پر چلتے ہوئے مزید حصہ لینے سے انکار کر دیا اور سیاست سے بھی دست برداری کا اعلان کیا -

جاتے جاتے ایک اور تحفہ لولا ڈی سلو ا اپنے ملک کو دے گئے اور وہ ہے 2016 کے اولپمک کھیلوں کے مقابلے ان کے ملک میں ہوں گے - ان کے نزدیک یہ بھی ملک کی ترقی کے گراف کو اونچا کر نے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے - بشرط یہ کہ عوام اس سے فائدہ اٹھائیں - اس اولمپک کی پچاس سے ساٹھ لاکھ ٹکٹیں فروخت ہوں گی -اتنے لوگوں کی مہمان داری کے لئے جو محنت یہاں کی عوام کریں گے اس سے لوگوں کو روزگار میسر آنے کے کئی موقعے ملیں گے - یہ برازیل کے مختلف شہروں میں کھیلے جائیں گے -اس کے نتیجے میں ان تمام شہروں کے ایر پورٹ کا نظام جدید خطوط پر استوار ہو گا - ریلوے اسٹیشنوں کا معیار صحیح کیا جائے گا- سڑکیں انٹر نیشنل لیول کے معیار کے مطابق بنیں گی- تفریحی مراکز اپنا معیار بلند کرین گے - یہ سب ایک قسم کے انفرا اسٹرکچر کی بہتری کی طرف ایک قدم ہو گا - اور یوں جو ایک شکوہ کیا جاتا ہے کہ انفرا اسٹرکچر کی طرف توجہ نہیں دی اس سے وہ شکوہ کافی حد تک دور ہو جائے گا -

یاد رہے کہ اس مرتبہ دو نئی کھیلیں یعنی گولف اور رگبی کو بھی اولمپک گیمز کا حصہ بنایا گیا ہے -یہ ایک نیا چیلنج ہے جو برازیل کو عوام نے قبول کیا ہے - اولپک گیمز کے لئے بے تحاشہ چیزوں کی ضرورت پڑے گی مثلآ کرسیاں .میزیں - پلنگ - یہان تک کہ لباس لٹکانے کے لئے ہینگرز - کھانے کے لئے کٹلری یعنی چمچے کانٹے چھریا ں - -دوبئی وغیرہ مین ایسے کئی چیزین درآمد کی تھیں لیکن برازیل یہ اشیا خود بنانے کی سوچ رہا ہے تاکہ لوگوں کو روزگار مل سکے-

علم نجوم اور ستاروں سے قسمت کا حال نکانے والے کہتے ہیں کہ جن افراد کی پیدائش اکتوبر کی ہوتی ہے ان کے اندر کچھ کر دکھانے کا عزم موجزن رہتا ہے -لولا ڈی سلو ا کی زندگی کے نشیب و فراز دیکھ کر لگتا ہے وہ صحیح ہی کہتے ہوں گے -
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 355072 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More