اکیس اکتوبر کوڈاکٹر طاہر
القادری نے اسلام آباد سے دھرنا ـختم کرنے کا اعلان کیا اور دھرنے کو ختم
کرنے کا سبب محرم الحرام کی آمد بیان کیا ہے۔صحافتی حلقوں میں تو یہ چہ
مگوئیاں جاری تھیں ہی مگر انقلاب کے منتظر پاکستانیوں اور یہاں تک کہ دھرنے
کے شرکاء کے لئے بھی یہ اعلان حیرت کا باعث تھا۔ قادری صاحب کا کہنا تھا کہ
حکومت نے ہماری ایک نہ مانی، نہ ہم نے حکومت کی مانی، چھوٹے انقلاب کا سوچ
کر آئے تھے ہم کامیاب رہے۔ ہر پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ انقلاب سے’’
چھوٹے انقلاب ‘‘تک کا یہ سفر نئے پاکستان کے حسین خواب کو کس قدر شرمندہ
تعبیر کر سکا۔
بعض ذرائع کے نزدیک طاہر القادری نے یہ دھرنا مجلس وحدت المسلمین کے دباؤ
پر ختم کیا ہے جو محرام الحرام کے دوران دھرنے میں شریک ہونے پر رضامند نہ
تھے۔ اُدھر کراچی سے شائع ہونے والے ایک اخبار نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ’’
سربراہ عوامی تحریک علامہ طاہرالقادری نے دھرنا ختم کرنے کے عوض حکومت سے
خطیر رقم وصول کرنے کی یقین دہانی حاصل کر لی ہے جس کا ایک معمولی حصہ
سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثا کو دیا جائے گا جبکہ
بقیہ رقم خاموشی سے غیرملکی اکاؤنٹ یا پھر منہاج القرآن کے اکاؤنٹ میں
منتقل کر دی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق اب حکومت اور طاہرالقادری کے درمیان
طے پانے والی ڈیل کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ہلاک شدگان کے ورثا کے لئے
دیت کے نام پر فی کس ستر لاکھ روپے وصول کئے جائیں گے، جن میں سے لگ بھگ دس
لاکھ کی رقم ورثا تک پہنچے گی جبکہ بقیہ رقم منہاج القرآن کے اکاؤنٹ میں
منتقل کی جا سکتی ہے۔ تاہم بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس سے کئی گنا
بڑی رقم طاہرالقادری یا ان کے کسی معتمد کے غیرملکی اکاؤنٹ میں منتقل کرنے
کی یقین دہانی حاصل کر لی گئی ہے۔‘‘
مذکورہ اخبار کی اسی رپورٹ میں ڈیل کو خفیہ رکھے جانے، سودے بازی کی تردید
کی آزادی اور ای سی ایل میں نام نہ ڈالے جانے کی شرائط اور حکومتی و پارٹی
راہنماؤں کو قادری کے خلاف بیان بازی سے روکے جانے کے انکشافات بھی کئے گئے
ہیں۔ اب اس میں کتنی حقیقت اور کتنا فسانہ، یہ تو میں نہیں جانتا تاہم
دھرنا ختم کرنے کے طاہرالقادری کے اعلان کے بعد سے اب تک جو بات مجھے
جھنجوڑ رہی ہے وہ اسلام آباد روانگی سے قبل ماڈل ٹاؤن لاہور میں یوم شہداء
کے حوالہ سے دس اگست کا علامہ کا یہ بیان ہے کہ ’’ میرے اور عمران خان میں
سے جو بھی انقلاب لائے بغیر اسلام آباد سے واپس آئے، اسے شہید کر دیا جائے۔
کارکن انقلاب کا انتظار کریں یا میری شہادت کا۔ ا نقلاب کی فتح تک میرے
ساتھ رہو ، نہیں تو میرا جنازہ پڑھ کر جانا۔‘‘
کیا انقلاب آ چکا۔ کیا نیا پاکستان بن گیا۔ کیا بیس کروڑعوام کی تقدیر بدل
چکی۔ نہیں جناب، ایسا نہیں ہوا۔ یہ سب اب بھی اک سہانے خواب کے سوا کچھ
نہیں۔ بلکہ قادری صاحب خود ہی فرما چکے ہیں کہ حکومت نے ہماری ایک نہیں
مانی، لیکن پھرمولانا کے اس بیان کا کیا کریں جو رہ رہ کر یاد آ رہا ہے۔
گویا
’’یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا‘‘
آج بھی کچھ نہیں بدلا۔ سب کچھ ویسا ہی ہے۔ آج بھی غریب کے بچے بھوکے سوتے
ہیں۔ لوگ انصاف کی خاطر آج بھی دربدر ہیں۔ آج بھی اپنے پر بیتی ظلم کی
داستانوں کو ایوان اقتدار تک پہنچانے کے لئے مظلوم کو خود سوزی کرنا پڑتی
ہے۔آج بھی وڈیرے کا قرض چکانے کے لئے ہاری کو اپنا گردہ بیچنا پڑتا ہے۔ آج
بھی ایک ایم اے پاس طالب علم کو نوکری نہ ملنے کی وجہ سے سروس اسٹیشن پر
کاریں دھونی پڑتی ہیں اور ایک یتیم بچے کو آج بھی اپنی ماں کی دوا لینے کے
لئے چائے کے ڈھابے پر کام کرنا پڑتا ہے۔ انقلاب کی طفل تسلیوں سے مجھے اور
آپ کو کیا ملا۔کچھ بھی تو نہیں( سوائے ملک کی معیشت کو اربوں کے نقصان
کے)۔نئے پاکستان کی جھوٹی نوید سنانے والو ! ہمیں نہیں ضرورت تمہارے انقلاب
کی، خدا کے لئے اپنے انقلاب سمیت کینیڈا چلے جاؤ۔ ۔۔۔ |