جمہوریت کے استحکام کا راستہ

پاکستان میں جمہوریت کا پودا نیا ہے۔ہر مارشل لاء کے بعد اسے نئے انداز سے لگایاجاتا ہے۔مشرف کے بعد ابھی دوسرا الیکشن ہی ہوا ہے۔اگر ہر پانچ سال بعد انتخابات تسلسل سے ہوتے رہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ اب پودے نے جڑیں پکٹر لی ہیں۔الیکشن میں عوام جس پارٹی کومینڈیٹ دیں اسے کام کرنے کا پورا وقت ملنا ضروری ہے۔2013ء کے انتخابات میں پاکستانی عوام نے مرکز میں مسلم لیگ ن اور صوبوں میں مختلف پارٹیوں کو حق حکومت دیا۔آئین پاکستان کے مطابق ان تمام پارٹیوں کو 5سال تک عوام کی خدمت کا اختیار حاصل ہے۔یہ پارٹیاں اپنے اپنے منشور کے مطابق جب عوام کے مسائل حل کریں گی تو اگلے انتخاب کے وقت عوام کو اپنی خدمت سے متعلق بتائیں گے۔اور عوام نے یہ محسوس کیا کہ ان پارٹیوں نے واقعی لوگوں کی خدمت کی ہے۔تو لوگ انہیں دوبارہ منتخب کریں گے۔ورنہ نئے لوگوں کو خود بخود ہی موقع مل جائے گا۔آج کل 2نئے لیڈر جو کچھ کررہے ہیں یہ جمہوریت کے استحکام کے لئے درست نہیں ہے۔اپنے70دنوں کے دھرنے اور بہت سے جلسوں سے اپنا کوئی بھی مطالبہ پورا نہیں کرا سکے۔اوراب ایک لیڈر نے تو اعلان کردیا ہے کہ وہ دھرنا لپیٹ کر گھروں کوجا رہے ہیں۔دوسرے لیڈر کے دھرنے کا یہ انجام سامنے آنے والا ہے۔طاہر القادری صاحب انقلاب لانے گئے تھے ۔پورا موجودہ نظام لپیٹ کر نیا نظام قائم کرنے کی باتیں لگاتار کرتے رہے۔انہیں مایوسیوں کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا۔انہوں نے مایوس فضا میں اپنے کارکنوں کو الوداع کہا۔الوداعی ملاقاتوں میں خواتین گلے مل رہیں تھیں اور ساتھ ہی تسلسل سے آنسو بھی بہا رہی تھیں۔ان بیچاری مرید خواتین کو یہ کہہ کر لایاگیاتھا۔کہ پیر صاحب اونچے درجے کے انقلابی ہیں۔اسلام آباد میں دھرنا شروع ہوتے ہی حکومت گھر کو چلی جائے گی۔اسمبلیاں ٹوٹ جائیں گی۔ٹیکنوکریٹ کی حکومت آجائیگی۔اور پیر صاحب اپنی نگرانی میں آئندہ پورے ملک میں انتخاب کرائیں گے۔چند دنوں سے بھی آگے بیچارے مرد و خواتین پورے70دن تک امید لگائے بیٹھے رہے۔اور اپنے پیر سائیں کی دھواں دھار تقریریں سنتے رہے۔انہیں جو کچھ تبرک کے طور پر حاصل ہوا وہ پیر سائیں کا پسینہ تھا۔امید ہے کہ مریدین ان ٹشوز کو بوتل میں بند کرکے سالہا سال سنبھال کر رکھیں گے۔ہو سکتا ہے یہ بہت سے امراض کے لئے شفاء بن جائے۔اندھی عقیدت انسان سے بہت کچھ کروا لیتی ہے۔عمران خان صاحب کادھرنا جس میں اب شام کے وقت صرف چند سو افراد شریک ہوتے ہیں۔یا شرکت کے لئے لائے جاتے ہیں۔یہ بھی اب دوچار دن کا مہمان ہے۔بہانے کے لئے محرم شروع ہونے والا ہے۔پوری پاکستان کی تاریخ کے لمبے ترین دھرنے بغیر کچھ حاصل کئے ختم ہورہے ہیں۔عمران خان نے اپنے رشتے کی بات کرکے بہت سی لڑکیوں کے دلوں میں امید کے دیئے جلا دیئے ہیں۔اگر عمران خان دھرنے سے اپنا یہ مسلۂ حل کر لیتے ہیں تو اسے کامیابی ہی کہا جائے گا۔اور نیا پاکستان اسی روز سے شروع ہوجائے گا۔ہماری یادداشت کے مطابق اس سے پہلے کسی بھی لیڈر نے اس طرح جلسوں میں رشتے کے لئے اپنے آپ کو پیش نہیں کیا۔پاکستان میں اس روایت کا قائم ہو جانا اور جس تاریخ سے یہ قائم ہوگی۔اسی تاریخ سے نیا پاکستان شمار ہوگا۔اب دوسرا پلان دونوں کا یہ ہے کہ اتنے جلسے کرو کہ حکومت مجبور ہوجائے اور وسط مدتی الیکشن کا اعلان کرنے پر مجبور ہوجائے۔عمران کے جلسے کافی ہوچکے ہیں۔بڑا جلسہ ملتان کا تھا۔لیکن فوری طور پر یہ المناک بن گیا۔یہ جلسے زیادہ سے زیادہ 2تا3ماہ شروع رکھ سکتے ہیں۔پلان بی جو مختلف شہروں میں جلسوں پر مشتمل ہے اگر نواز شہباز نے اسے بھی اپنی خاموش حکمت عملی سے ناکام کردیا۔جیساکہ نظر بھی آرہا ہے۔تو پھر دونوں پہلوان تیسرے کے بارے میں سوچیں گے۔دونوں لیڈروں سے غلطی ہوئی ہے۔ان دونوں کو یہ دھرنے اور جلسے 2017ء میں شروع کرنے چاہیے تھے۔جلسے شروع ہوتے ہوئے مئی2018ء قریب آجاتا اور جلسوں میں شامل یہ لوگ دونوں لیڈروں کے ووٹر بن جاتے اور انتخاب میں فائدہ ہوتا۔2014ء اور2018ء کے درمیان ابھی بہت فاصلہ ہے۔درمیان میں حالات نہ جانے کس کے حق میں ہوتے ہیں۔حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔آج جو لوگ دونوں کے جلسے سن رہے ہیں ضروری نہیں کہ مئی2018ء تک وہ ان کے ساتھ ہی ہونگے۔جن لوگوں نے لندن پلان لکھا۔انہوں نے وقت کا غلط انتخاب کیا۔کسی بھی منتخب حکومت کے ایک سال بعد اسکے خلاف تحریک چلانا عقلمندوں کاکام نہیں ہوتا۔ہر شخص جانتا ہے کہ ابھی تو مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو اپنے ترقیاتی پروگراموں پر عمل درآمد کے لئے کافی وقت پڑا ہے۔لگتا ہے کہ عمران خان کو وزیراعظم بننے کی جلدی ہے۔آئین میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہوا کہ 66سال کا لیڈر وزیراعظم نہیں بن سکتا۔Now or neverکی بات نہ جانے عمران خان کو کس نے بتادی۔کانوں میں لقمہ دینے والے تو کنٹینرز پر ایک دو ہی نظر آتے ہیں۔کسی نے شرارت کرکے عمران خان کو پھنسا دیا۔ورنہ ہم بھی عمران خان کو نواز شریف کے بعد بطور وزیراعظم ہی دیکھتے تھے۔2013ء میں عمران خان کی کارکردگی کافی اچھی تھی۔یہ ان کا پہلابھرپور الیکشن تھا۔ایک صوبے کی حکومت اور مرکز میں 34سیٹیں اسے کون ناکامی سے تعبیر کرسکتا ہے۔2017 ء میں اگر جلسے اور دھرنے شروع کئے جاتے تو عمران خان کے Sweepکرنے کے چانسزبن سکتے تھے۔سارا کچھ آئین کے مطابق ہوتا۔پوری دنیا میں جہاں جہاں جمہوریت مستحکم ہے۔وہاں متعین عرصے کے بعد تسلسل سے انتخاب ہوتے ہیں۔Tenureمکمل ہونے کے بعد جب اپوزیشن پارٹیاں عوام کے پاس جاتی ہیں تو عوام کو بتانے کے لئے ان کے پاس ٹھوس اعداد وشمار پر مبنی معلومات ہوتی ہیں۔پاکستان جیسے ملک کے معاشی حالات اتنے خراب ہیں۔کہ کوئی بھی حکمران پارٹی5سال میں مسائل حل نہیں کرسکتی۔2017ء یا2018ء کے شروع میں عمران خان کے پاس بتانے کو حقیقی اعداد وشمار ہوتے۔اور لوگ ان کی بات پر یقین بھی کرتے۔آجکل جو وعدے کئے جارہے ہیں جو محنت کی جارہی ہے۔اس کے نتائج عمران خان کے حق میں جاتے نظر نہیں آتے۔یہ باتیں بے وقت کی راگنی ہیں۔جب الیکشن کا اعلان ہوجائے تو لیڈروں کی باتوں کو لوگ زیادہ Seriousلیتے ہیں۔انہیں باتوں سے لوگ متاثر ہو کر آئندہ الیکشن میں ووٹ دیتے ہیں۔مجھے تو وسط مدتی انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے۔جب پوری پارلیمنٹ اکٹھی ہوجائے جیسا کہ ابھی تک ہے۔تو وہ اپنا تحفظ کریگی۔کوئی بھی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے لئے تیار نہ ہوگا۔دھرنوں کا Pressureاگر نواز۔شہباز نے برداشت کرلیا ہے تو جلسے تو اس سے کم دباؤ ڈالتے ہیں۔شاہراہ دستور اور ریڈ زون جب خالی ہوجائیں گے تو روزمرہ حکومتی کاروبارکے راستے میں حائل رکاوٹ ختم ہوجائے گی۔لاڑکانہ اور ایبٹ آباد کے جلسے تو جمہوریت کی عام روایت شمارہونگے۔ان سے حکومت کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا۔جلسوں سے عوام میں بیداری اور نواز کے خلاف نفرت تو ضرورپیدا ہورہی ہے۔لیکن دونوں لیڈروں کی خواہش کے مطابق الیکشن چند ماہ بعد ہوجائیں۔پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔پاکستان میں اگر جمہوریت کے پودے کو پروان چڑھنا ہے تو ضروری ہے کہ ہر منتخب پارٹی کو کام کرنے کے لئے پورا وقت ملے۔وقت سے پہلے حکومتوں کو دباؤ ڈال کر گھر بھیجنے کے نقصانات پوری قوم 90ء کی دہائی میں دیکھ چکی ہے۔امید ہے کہ قوم بڑی غلطی دوبارہ نہیں کرے گی۔2008ء کے بعد2013ء اورپھر2018ء جمہوریت کی گاڑی5سال کے بعد ہی سٹیشن پر آکر ٹھہرے تو منظر خوش کن لگتاہے۔ 5سال بعدFreshڈرائیور سیٹ پر آکر بیٹھے اورپھر پوری رفتار سے گاڑی چلائے۔پوری دنیا میں یہی طریقہ کارہے۔انتخاب لڑو۔جیتنے والا سیٹ پر بیٹھے ۔یہی مستحکم راستہ ہے۔پاکستان میں جمہوریت اسی طریق سے مستحکم ہوتی چلی جائیگی۔اگر اب اچھے حکمران نہیں ہیں ۔اگلی باری میں اچھے لوگ اپنی کوشش کریں۔صبر کا پھل ہی میٹھا ہوتا ہے۔
Prof.Ch.Jamil
About the Author: Prof.Ch.Jamil Read More Articles by Prof.Ch.Jamil: 18 Articles with 12238 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.