سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا لکھوں
اور کہاں سے شروع کروں،بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے یا دل کے
ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے،نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم،مگر ٹھریئے خدا کی
تلاش کس کو تھی،مقصد کیا یہی تھا یا کچھ اور،عزم کتنا پختہ نظر آتا تھا اور
کتنا بودا نکلا،،شروع میں یہ نظام گندہ بدبودار اٹھا کر پرے پھینک دو اور
اب مجھے ووٹ دو سپورٹ دو اور اور نوٹ دو ،واہ جی واہ، ایک طرف خواب ،بشارتیں
،تم بہترین لوگ مر گئے تو شہید،تم امت کی زکوٰۃ ،دوسری طرف قبریں اور کفن
حالانکہ شہیدوں کو تو اسی کفن میں دفن کیا جاتا ہے جس میں وہ شہید ہوتے ہیں
مگر یہاں،یہ صاحب جب سے پاکستان سے گئے اور کینیڈا پہنچے اس وقت سے لیکر آج
تک آپ ان کی تحریریں اور تقریریں اٹھا کر دیکھ لیں تضادات کی بھرمار کا
مجموعہ ،یہ مکمل طور پر ایک کنفیوزڈ پرسنلٹی ہیں،صبح کچھ کہتے ہیں شام تک
بھول چکے ہوتے ہیں،ایک اوسط ذہن کا بندہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ کنیڈا اور
امریکہ اپنی شہریت کسی کو کیوں دیتے ہیں،کینیڈین شہریت اور وہ بھی ایک
مولوی ٹائپ بندے کو ممکن ہی نہیں،مگر جب مولوی فضل الرحمن یا طاہر القادری
ہو تو پھر کچھ بھی بعید نہیں کچھ بھی ہو سکتا ہے وہ کچھ بھی دے سکتے ہیں
اور یہ کچھ بھی لے سکتے ہیں،سو ہر سال ڈیڑھ کے بعد اپنا نام اور عہدہ بدلنے
والے مولوی طاہر صاحب نے کینیڈین شہریت چوم کر آنکھوں سے لگائی اور بجائے
کینیڈا میں اسلام پھیلانے یا انقلاب لانے کے پاکستان کی جانب عازم سفر
ہوئے،یہاں پہنچ کر پہلے ہلاہلالا کرتے اسلام آباد پر چڑھائی کی ،حکمران آصف
علی زرداری جیسا شاطر انسان تھا چار چھ دن بٹھا کر کچھ لارے کچھ وعدے اور
کچھ دے دلا کر فارغ کر دیا،آصف علی زرداری نے اتنا کچھ ضرور تجوری میں ڈال
دیا کہ کم ازکم اپنا باقی ٹائم آرام سے علامہ بلکہ خود ساختہ شیخ الاسلام
سے بچ کے گذار لیا،پھر میاں نواز شریف کی حکومت آتے ہی ادھر پرویز مشرف کا
ٹرائل میں تیزی آئی تو دوسری طرف ایک دفعہ پھر شیخ الاسلام کی رگ انقلاب
پھڑکنے لگی،ابتدا ویسے بھی ہر دفعہ جناب شیخ لاہور سے ہی کرتے ہیں،جناب نے
ایک دفعہ پھر فیصلہ کن لڑائی کا اعلان کر دیا کہ اب انقلاب آئے گا یا میں
مر جاؤں گا جو بھی انقلاب کے راستے سے واپس آئے اسے شہید کر دیا جائے لیکن
حسب معمول اگلے دن اپنا بیان بدل لیا،اپنے پہلے سفر انقلاب میں آتے ہی
اسمبلیاں ختم حکومت ختم وزیراعظم ختم،سپریم کورٹ زندہ باد چیف جسٹس زندہ
باد اور جب اسی چیف جسٹس نے کھری کھری سنائیں تو سب مردہ باد ہونا شروع ہو
گیا،اسمبلیاں کیا ختم ہونا تھیں جنہیں یزید قرار دیتے رہے پوری قوم نے
دیکھا کہ وہ کنٹینر میں ان کو گھٹ گھٹ کے جپھیاں ڈالتے رہے،انہوں نے اپنی
جان چھڑا لی،قمر زمان کائرہ کی پریس کانفرنس یاد گاربن گئی مولوی صاحب نے
دوبارہ سانحہ ماڈل ٹاوٗن کو جواز بنایا،غریب لوگوں کے قتل عام کی ایف آئی
آر کا ستیاناس کراد یا،نہ جانے وہ کون سے مشیر تھے اعلیٰ حضرت کے کہ جنھوں
نے مشورہ دیا کہ اس ایف آئی میں وزیراعلیٰ سے لیکر وزیرا عظم سمیت ہر
حکومتی شخصیت کا نام دے دیا جائے،اس سے اوٹ پٹانگ مشورہ کوئی دے سکتا ہے
کسی کو،کسے نہیں پتہ کہ جھوٹ جھوٹ ہوتا ہے اور ایک سچے واقعے میں جھوٹ کی
ملاوٹ اس واقعے کی سچائی پہ سوالیہ نشان لگا دیتی ہے،کیا اتنی عام سی بات
بھی نہیں پتہ علامہ صاحب کے پیاروں کو کہ کسی بھی ایف آئی آر کے لیے چشم
دید گواہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں،کیا علامہ صاحب کے علاوہ ان کا
کوئی ایک بھی مرید اس بات کی قسم دے سکے گا کہ اس واقعے میں میاں نواز شریف
،شہبا شریف،چوہدری نثار،خواجہ سعد رفیق،پرویز رشید اور خواجہ آصف وغیرہ
شامل تھے ، کوئی ایک بندہ بھی ایسی انٹ شنٹ گواہی نہیں دے سکتا البتہ علامہ
صاحب کی بات نہیں کرتا کہ انہیں الہام ہوتا ہے اور خواب میں بھی روزانہ
بشارتیں ملتی ہیں کیوں کہ انہوں نے تو پڑھا بھی چالیس سال عالم رویا میں ہے
پتہ نہیں یہ کون سا عالم ہے اور اس کا ٹکٹ کہاں سے ملتا ہے یہ بھی علامہ
صاحب کو ہی پتہ ہو گا،اس کے علاوہ چودہ اگست سے لیکر دھرنے کے اختتام تک
علامہ صاحب نے بہت کچھ پالیا ہو گا اپنے کینیڈین آقاؤں سے بھی اور یہاں کے
حکمرانوں سے بھی مگر ایک عام پاکستانی اور خاص کر اس کارکن کو جو دو مہینے
سے اپنے کام کاج چھوڑ کر اپنے خرچے پر اسلام آباد بیٹھا رہا نام نہاد
انقلاب کی امید پر،دھرنے کے اختتام پر لوگوں کی دھاڑیں بے وجہ ہر گز نہ
تھیں کہ یہاں ہر دفعہ عوام کے ساتھ ایسا ہی ہاتھ ہوتا ہے ہم نے تو شروع کے
دنوں میں ہی لکھ دیا تھا کہ عوامی تحریک کے کارکنوں سے ایک اور ہاتھ ہونے
جا رہا ہے کہ جس انقلاب کی نوید علامہ صاحب دے رہے ہیں اس کی آمد اس طرح
ممکن ہی نہیں جس طرح جناب چاہتے ہیں،اس کے لیے باقاعدہ ایک طریقہ کار ہے،یہ
ایک ملک ہے منہاج القرآن کا کوئی اسکول نہیں کہ اس میں کسی ایک شخص کی من
مرضی کی تبدیلی کر دی جائے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو،یہاں ایک نظام ہے جس
کا اس ملک کا ہر ادارہ پابند ہے،عدلیہ ہے انتظامیہ ہے،فوج ہے ،میڈیا ہے اور
سب سے بڑھ کر باشعور سول سوسائٹی ،یہاں یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ایک گروہ
یا لیڈر اپنے ساتھ چند ہزار کا جتھا لیکر بیس کروڑ عوام کی منتخب حکومت کو
گھر بھیج دے،کیا ایسے انقلاب کا علامہ کینیڈا اپنے وطن کینیڈا میں تصور بھی
کر سکتے ہیں انقلاب تو دور کی بات کسی ایک سڑک پر تین دن کا دھرنا ہی دیکر
دکھا دیں دن میں تاروں بھرا انقلاب نظر آ جائے گا،یہ اپنے لوگ تھے اپنی
حکومت تھی اپنی فوج تھی اور اپنی پولیس تھی کہ جس نے جناب شیخ الاسلام صاحب
کی ہر ممکن کوشش کے باوجود لڑائی سے حتیٰ الامکان گریز کیا اور بے چارے شیخ
کا لاشوں پہ سیاست کا خواب ادھور ارہ گیا،اس سارے کھیل میں کون جیتا کون
ہارا اس کا فیصلہ وقت کرے گا ،ابھی تو قربانی سے پہلے قربانی اور حکومت کا
جان ٹھر گیا ہے والوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے حکومت قائم دا ئم ہے اور اب
دور دور تک ان کو کوئی ڈر بھی نہیں،اب انہوں نے اس قوم سے گن گن کر بدلے
لینے ہیں،لوڈشیڈنگ کی بھرمار اس کا آغاز ہے ،مولانا صاحب نے کھایا پیا کچھ
نہیں اور گلاس توڑا بارہ آنے کے مصداق سوائے اپنا اور قوم کا وقت اور
سرمایہ برباد کرنے کے کیا حاصل کیا ،اپنا رہا سہا اعتبار بھی برباد کر ڈالا
کہ جب رفتار سے انقلاب انقلاب کرتے آتے ہیں اس سے دگنی رفتار سے واپس
بھاگتے ہیں،اب قوم مزید اور ان کی کتنی آنیاں جانیا ں برداشت کرے، جس دن
ریڈ زون سے باہر کھڑے تھے اس دن جو چاہتے منوا لیتے لیکن میں نہ مانوں ہار
کہ سجنا دل نہ مانے ہار، ان کے مارچ سے قوم کا فائدہ کیا ہوتا بے حد و حساب
نقصان ہو گیا میں چائنہ کے صدر اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی بات نہیں کروں
گا،میں تو لوڈشیڈنگ ،بے روز گاری اور مہنگائی کی بات کروں گا بلدیاتی
انتخابات کی بات کروں گا کہ مولانا ان میں سے ہی کوئی ایک بات منوا لیتے تو
قوم کچھ تو ان کی احسان مند رہتی مگر،لیکن اس سارے کھیل میں اور کسی کو
کوئی سبق ملا یا نہیں جناب شیخ الکنٹینرکو یہ سبق ضرور مل گیا کہ اصل
انقلاب اور اصل تبدیلی کینیڈا اور امریکہ کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہو نے کی
بجائے عوام کی طاقت سے ممکن ہے،اور اس کے لیے عوام کے پاس جاناان سے ووٹ
لینا ہی واحد راستہ ہے اور یہ نہایت خوش آئند ہے اﷲ کرے اب کوئی خواب ان کو
اس راہ سے بھی دائیں بائیں نہ کر دے،،،،،،،،،اﷲ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر
ہو- |