عوام کیا چاہتے ہیں؟

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ عوام ہمارے خلاف کیوں ہو جاتے ہیں :وزیر اعظم صاحب کا وہ جملہ جو ہر پاکستانی نے سنا ہو گا حالانکہ کہ ان سمیت سبھی لوگ جانتے ہیں کہ انھیں ملک کا وزیر اعظم تیسری بار چنا گیا ہے اور نوجوان ان سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جناب آپ کے تمام ادوار کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ نے عوام کے لئے کچھ خاص نہیں کیا آج کا نوجوان بہت سمجھ دار اور پڑھا لکھا ہے وہ جاننا چاہتا ہے کہ اگر کوئی شخص تین بار اس ملک کا سربراہ بن کر بھی کچھ نہ کر سکا تو اس سے کس اچھے کا م کی امید کی جا سکتی ہے الیکشن کی گہما گہمی کے دوران آپ نے نوجوانوں کو وہ وہ خواب دیکھائے تھے جن کا پورا کرنے کا وقت آہستہ آہستہ گزر رہا ہے اور اگر سوا سال گزرنے کے باوجود آپ کی وہ کارکردگی نہیں ہے جو ہونی چاہے تو آپ خود اندازہ کر لیں کہ آگے آنے والے الیکشنوں میں چاہیے وہ بلدیاتی ہوں یا ضمنی یا پھر مڈ ٹرم آپ کو ووٹ کیسے ملیں گے الیکشن کی گہماگہمی میں کئے گئے تمام وعدوں پر عمل کرنے کا وقت گزر رہا ہے اب وہ زمانہ نہیں رہاکہ صرف زبانی دعووں کی بنیادپر کوئی بھی امیدوار اپنی حکمرانی کا سکہ جما سکے۔آج کے دور میں عوام پارٹی سے بے نیاز ہوکر صرف اپنے مسائل کا حل چاہتی ہیں،اپنے آپ کو ترقی اور امن کی راہ کا مسافر دیکھناچاہتی ہے اپنے لئے محفوظ مستقبل کی گارنٹی لیناچاہتی ہے زبانی دعووں جھوٹے وعدوں سے اب عوام کو مزید بے وقوف نہیں بنایاجاسکتاہے جس کاجیتاجاگتاثبوت ملتان میں ہونے والے ضمنی الیکشن ہیں جس میں رائے دہندگان نے بڑے قدآور لیڈر کو مستردکر دیا۔یہ بات خوش آئیند ہے کہ وزیراعظم اورپارلیمانی رہنماؤں میں اس امر پر اتفاق کیاگیاکہ انتخابی اصلاحات کو تیزکیا جائے اور تحریک انصاف کے استعفوں کی منظوری میں جلدی نہ کی جائے اور تمام سیاسی مسائل پارلیمنٹ کے فورم پر بحث کے ذریعے حل کئے جائیں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پارلیمانی جماعتوں کے اتحاد کی وجہ سے ہی جمہوریت پر منڈلاتے ہوئے خطرات کو دور کرنے میں مدد ملی تاہم حکومت کو اس حقیقت کا ادراک ہوگا کہ پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں نے ا نہیں ،نہیں بلکہ جمہوری نظام کو تحفظ فراہم کیاہے حکومت کا تحفظ کسی دوسری جماعت یا ادارے نے نہیں کرنا بلکہ حکومت نے خود کرناہے اور یہ تحفظ اسی صورت ممکن ہے جب ہر سطح پر عوام کے مسائل حل کئے جائیں اور ان کے سماجی ومعاشی حقوق کو تحفظ دیاجائے حکومت کو اپنی سوا سال کی کارکردگی کا جائزہ لے کر اس کی رفتار کو تیز کرناہوگا اور عوام پر یہ ثابت کرناہوگا کہ وہ اپنے مینڈیٹ کے تقاضوں پر پورا اتر رہی ہے اور یہ بات بھی کھرا سچ ہے کہ عوام حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں زندگی کے مختلف شعبوں میں حالات جوں کے توں ہیں بلکہ اگر یہ کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بعض شعبوں میں مزید ابتری پیدا ہوئی ہے عوام اپنی زندگیوں میں کوئی بھی مثبت تبدیلی محسوس نہیں کر رہے حکومتی پالیسیوں سے انہیں فوری طور پر کسی تبدیلی کے آثار بھی دکھائی نہیں دیتے مسائل وہیں کہ وہیں گیس اور گیس کی لائینیں اور طویل ،بجلی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ پہلے سے کئی گنا زیادہ،مہنگائی اور مہنگائی کا جن جو قابو سے باہر ہو رہا ہے ،بے روزگاری اور لاقانونیت، موجودہ حکومت کی کارکردگی روایتی حکومتوں جیسی بھی نہیں ہے سوا سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود یہ اپنا وجود تک مکمل نہیں کرسکی نامکمل حکومتی ڈھانچے سے کیسے کوئی حکومت اپنی کارکردگی میں اضافہ کرسکتی ہے اور اس حکمت عملی سے اس نے کیا حاصل کیاہے کیا عوام کو پیسہ بچا کر دیا ہے یا اپنے غیر ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کروائی ہے یا پھر وزیر اعظم ہاؤس یا دیگر محکموں کے غیر ترقیاتی فنڈز کوبروئے کار لا کر کوئی اچھا ہسپتال،کوئی یونیورسٹی ،کوئی ادارہ قائم کر لیا ہے یا کسی ادارے کو اوور ہال کر لیاہے کسی کارپوریشن کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر لیا ہے جب ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو عوام یہ پوچھنے کا اور حکومت یہ بتانے کی پابند ہے کہ ان سرکاری خبروں میں کتنی صداقت ہے کہ وزیر اعظم نے غیر ترقیاتی فنڈز میں اتنی کٹوتی کر دی اتنے وزیر کم کیے اتنے غیر ملکی دورے کم کیے اگر حکومت کے پاس ان سوالوں کے جواب ہیں تو عوام کو بتایا جائے اور اگر نہیں ہیں تو اسے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کی آج کی کارکردگی اور پیپلز پارٹی کی گزری ہوئی کارکردگی میں کوئی خاص اور بڑا فرق نہیں تھا یہ درست ہے کہ حکومت نے سب سے بڑے مسئلے یعنی توانائی کے بحران کو حل کرنے کے سلسلے میں بہت سے طویل المدت اور قلیل المدت منصوبے شروع کئے ہیں لیکن ان منصوبوں کے ثمرات عوام تک کب پہنچیں گے اس بارے میں کوئی نہیں جانتا مہنگائی میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے منصوبے حکومتی اجلاسوں میں تو سنے جاتے ہیں لیکن عوام کو ریلیف فراہم کرنے اور ان کی معاشی مشکلات کو کم کرنے کے معاملے میں قابل ذکر اقدامات نہیں کیے جاتے ۔ حکومت کرپشن فری ہونے اور کارکردگی بہتر بنانے کی باتیں تو کرتی ہے مگر دوسری طرف ہر سطح پر بدعنوانی مسلسل فروغ پا رہی ہے قیمتوں پر کنٹرول ہے نہ ملاوٹ کا سدباب چنانچہ عوام لوٹ کھسوٹ کا شکار ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں اس لئے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کسی بھی قسم کی نئی مہم جوئی میں الجھنے کی بجائے سوچے کہ عوام کیا چاہتے ہیں۔اور تمام سیاسی جماعتوں میں اتحاد اور سیاسی یگانگت پیدا کرنے کی کوشش کرئے تاکہ ملک میں انتشار اور ہجیانی کیفیت کا خاتمہ ہو عوام کو ان کے بنیادی مسائل کا حل ملے انھوں نے جس کام کے لئے مسلم لیگ ن کو مینڈیٹ دیا تھا وہ پورا ہو سکے ۔
Raja Tahir Mehmood
About the Author: Raja Tahir Mehmood Read More Articles by Raja Tahir Mehmood: 21 Articles with 14538 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.