یہ 1954کی بات ہے ڈھاکا میں
تبلیغی جماعت کا گشت ہورہا تھا ، دکانوں اور مکانوں کے درمیان جماعت اسلامی
کا دفتر آگیا ۔جماعت کے دفتر میں اپنا پیغام پہنچانے کے لیے جائیں یا نہ
جائیں ،اس بات پر گشت کے شرکاء دو گروپوں میں تقسیم ہو گئے جس گروپ کی یہ
رائے تھی کہ ہمیں جانا چاہیے اس میں ایک پرجوش نوجوان بھی تھاجس کا کہنا
تھا کہ ہمیں جماعت کے دفتر میں جا کر اپنی بات تو کہنی چاہیے چنانچہ دفتر
میں جانے کا فیصلہ ہو گیا دفتر میں اس وقت کے ذمہ دار شاید مولانا
عبدالرحیم صاحب بیٹھے ہوئے تھے ۔تبلیغی وفد نے اپنی بات شروع کی اور زیادہ
تر بات یہی پرجوش نوجوان کررہا تھا ۔جب ان کی بات ختم ہو چکی تو مولانا نے
کہا کہ آپ لوگوں نے جو بات کی ہے وہ بالکل ٹھیک ہے آپ بھی دین کا کام کررہے
ہیں اور جماعت اسلامی بھی دین کا نفاذ چاہتی ہے ۔ہم آپ کے سامنے ایک سوال
رکھنا چاہتے ہیں آج نہیں کل پرسوں یا کسی وقت بھی سوچ کر اس کا جواب دے
دیجئے گاکہ ہم جب انبیا کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ
دین کی دعوت پہنچانے کے لیے انھیں کس طرح کی صعوبتوں کا مقابلہ کرنا پڑا
کسی کو قتل کیا گیا کسی کو جلاوطن کیا گیا کسی کے بدن کو آروں سے چیر دیا
گیا حتیٰ کے جب ہم اپنے آخری نبیﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے
ہیں کہ ان کی پوری زندگی آزمائشوں اور مشکلات میں گزری ہے وہ کون سی اذیت
ہے جو آپﷺ کو نہیں پہنچائی گئی کہ خود نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ میں تمام
انبیا سے زیادہ ستایا گیا ہوں ۔پھر خلفائے راشدین کے بعد چودہ سو سالہ
تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں جن لوگوں نبیﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے احیائے
اسلا م کے لیے کام کیا انھیں سخت آزمائشوں کا مقابلہ کرنا پڑالیکن یہ آپ کی
کیسی تبلیغ ہے کہ جو ٹھنڈے ٹھنڈے ماحول میں کام کرتی ہے اور اسے کسی مزاحمت
کا سامنا نہیں کرنا پڑتا آپ سوچ کر بتایے ایسا کیوں ہے ؟پھر جاتے وقت اس
نوجوان کو مولانا مودودی کے کچھ بنیادی لٹریچر پڑھنے کے لیے دیا کہ ان
کتابوں کے مطالعے سے آپ کو ہماری دعوت کا معلوم ہو جائے گا کہ ہم اس ملک
میں کیا تبدیلی لانا چاہتے ہیں ۔دوسرے دن صرف یہی نوجوان آئے جو اس وقت
کالج میں پڑھتے تھے انھوں نے اور کتابیں طلب کیں اور جماعت اسلامی میں شامل
ہو گئے یہ تھے جنب پروفیسر غلام اعظم ،رات کو جب اخبار کا مطالعہ کرنے
بیٹھا تو ساڑھے بارہ بجے موبائل پر ایک ایس ایم ایس آیا جس میں پروفیسر
غلام اعظم کے انتقال کی خبر تھی ،جس وقت آپ کا انتقال ہوا ہے آپ جیل میں
90سال کی سزا کاٹ رہے تھے بڑھاپے کی بیماریوں کے ساتھ آپ کو حسینہ واجد کی
حکومت کی طرف سے جن آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کی تفصیلات تو پہلے
بھی آتی رہی ہیں اور رحلت کی خبروں کے ساتھ بھی تفصیلات شائع ہو رہی ہیں ۔میرا
ذہن تو اپنی ہی اس بات کی طرف چلا گیا کہ پچھلے ایک ہفتے سے نہ جانے کیوں
بار بار میں یہ سوچ رہاتھا کہ میں پروفیسر غلام اعظم کی وہ تقریر قلمبند
کروں جس کے نکات اب تک میرے ذہن میں محفوظ ہیں بالخصوص محمود اعظم فاروقی
صاحب کے مضمون کے بعد یہ خیال شدت سے ستا رہا تھا لیکن موقع نہ مل سکا اور
اس دوران یہ خبر آگئی ۔یہ تقریباَ1974کی بات ہے اس وقت کراچی کا نظم سات
علاقوں پر مشتمل تھا۔ہمارا علاقہ شرقی تھا جو چار بڑی آبادیوں لیاقت آباد ،فیڈرل
بی ایریا ،پیر کالونی اور سوسائٹی پر مشتمل تھا اور اس علاقے کے ناظم اعلیٰ
جناب عبدالرشید صاحب مرحوم اور نائب ناظم اعلیٰ جناب شمیم صاحب مرحوم تھے
علاقہ شرقی کی طرف سے شرف آباد کلب میں دوروزہ تربیتی پروگرام ہوا ہفتے کی
شب کو پروگرام کا آغاز ہوا اتوار کی دن بھر تقاریر ہوئیں اس زمانے میں
پروفیسر غلام اعظم صاحب لندن سے آئے ہوئے تھے اس تربیتی پروگرام میں ایک
تقریر غلام اعظم صاحب کی بھی تھی جس کا عنوان تھا انقلاب کیسے آتا ہے ہو
سکتا ہے الفاظ کچھ اور ہوں لیکن تھیم یہی تھی ۔پروفیسر غلام اعظم صاحب نے
بنگلہ لہجے میں انتہائی صاف شفاف اندازاور اردو کے شستہ اور آسان الفاظ میں
اتنی شاندار تقریر کی کہ اختتام پر شرکاء کے چہرے یہ بتا رہے تھے کہ انھوں
نے اتنے مضبوط نکات پر اتنی موثر اور منضبط تقریر پہلے کم ہی سنی ہے ۔پروفیسر
صاحب نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ انقلاب کیسے آتا ہے یہ ایک اہم موضوع ہے اب
تک کی معلوم تاریخ میں دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی بھی انقلاب آیا ہے تو
وہ تمام شرائط جو انقلاب کے لیے ضروری ہوتی ہیں جب پوری ہو گئیں تو انقلاب
برپا ہو گیا انقلاب کی جو شرطیں ہیں اس میں پہلی شرط" نظریہ "کہ جس کی
بنیاد پر ہم انقلاب لانا چاہتے ہیں دوسری شرط "نظریاتی قیادت" تیسرا "نظریاتی
کارکن "چوتھی شرط" تنظیم"پانچویں شرط"مقامی قیادتیں"چھٹی شرطـ"شعبہ جاتی
ماہرین"ساتویں اور آخری شرط"عوامی خواہش کا ہونا"یہ وہ سات شرطیں ہیں جو
اگر پوری ہوجائیں تو انقلاب برپا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔پہلی شرط کہ
نظریہ کیا ہے کمیونسٹ انقلاب لانا ہوتو پہلے اس کے نظریے کو متعارف کرانا
پڑے گا اگر سرمایہ دارانہ انقلاب مطلوب ہو تو لوگوں کو سرمایہ داری کے
نظریے سے روشناس کرانا ہوگا پھر جو اپنے نظریات کے مطابق انقلاب لانا چاہتا
ہے پہلے خود اپنی ذات کو اس نظریے کے مطابق ڈھالنا ہوگا یعنی ایک نظریاتی
قیادت تیار کرنا ہو گا ۔پھر یہ نظریاتی قیادت اپنے نظریات کی تبلیغ کرکے
اپنے ساتھ چلنے والوں کو اس نظریے سے محبت کرنے والوں کو اس انقلاب کے لیے
تیار کرنا ہوگا یہ آسان کام نہیں ہے ۔دنیا کا سب سے مشکل کام فرد سازی اور
کارکن سازی ہے جب اس نظریے کے مطابق کارکنوں کی ایک مطلوبہ تعداد ہوجاتی ہے
تو پھر اس کے بعد ان سب کو ایک تنظیم میں پرونا ہوتا ہے تاکہ تاکہ انقلابی
جدوجہد منظم اور منضبط انداز میں آگے بڑھے اس کے بعد پانچواں اہم کام مقامی
قیادتوں کی فراہمی تاکہ یہ قیادتیں انقلاب کے لیے عوامی قوت کی فراہمی کا
ذریعہ بنیں اور انقلاب کے بعد انقلابی حکمرانوں اور عوام کے درمیان رابطے
کا ذریعہ بھی بنیں ۔یہ قیادتیں مرجع خلائق ہوں کہ لوگ اپنے دینی و دیناوی
معاملات میں ان سے رجوع کریں ۔مقامی قیادتوں کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں
کے ماہرین کی ٹیم بھی تیار کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ماہرین اس نظریے کے
مطابق اپنے اپنے شعبوں میں تبدیلی لا سکیں اس میں ماہر تعلیم ،ماہر
معشیت،ماہر سوشیالوجی،داخلی امور کی نزاکتوں کو سمجھنے والے لوگ اور خارجی
امور کی باریکیوں اور حساسیت سے واقف ماہرین ۔اگر یہ ساری چھ شرائط پوری
ہوگئیں تو بھی انقلاب نہیں آسکتا جب تک کے یہ آخری شرط پوری نہ ہو کہ جس
خطہ میں ہم انقلاب لانا چا ہتے ہیں وہاں کے رہنے والوں کے اندر اس انقلاب
کی خواہش پیدا ہویا یوں سمجھیے کہ ان کی تمام خواہشات پریہی خواہش غالب ہو
جائے۔دنیا میں اب تک جہاں اور جتنے بھی انقلابات آئے ہیں ان میں یہ تمام
شرائط پوری ہوتی نظر آتی ہیں ۔اگر ہم نبی اکرمﷺ کے انقلاب کو دیکھیں ہمیں
یہ تمام شرائط اپنے پورے جما ل وکمال کے ساتھ پوری ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔خود
نبی اکرمﷺ اﷲ کے آخری رسول تھے اس لیے دنیا میں آپ سے اچھی نظریاتی قیادت
کس کی ہو سکتی ہے آپﷺ نے انقلاب کا جو نظریہ پیش کیا وہ کلمہ لاالہ اﷲ
محمدالرسول اﷲ تھا کہ سوائے اﷲ کے کوئی معبود خالق اور مالک نہیں ہے اور
محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں جو لوگ اس دعوت پر ایمان لاتے گئے وہ آپ کے نظریاتی
کارکن بنتے گئے ایسے کارکن جو آپﷺ کے اشارے پر اپنی جان دینے کے لیے تیار
رہتے تھے آپ ﷺ کے وضو کا پانی زمین پر گرنے نہیں دیتے تھے پھر آپﷺ نے ان
کارکنان کو ایک تنظیم میں پرویا اور سمع و طاعت ایسا خوبصورت ڈسپلن قائم
کیا کہ دنیا حیران رہ گئی اس کے بعد مقامی قیادتیں اس طرح تشکیل دی گئیں کہ
جس قبیلے کا جو فرد ایمان لاتا وہ اس انقلابی تحریک کی طرف سے اس قبیلے کا
ذ مہ دار بن جاتا کہ اب وہ اپنے قبیلے میں جاکر اس دعوت کو پھیلانے کا
فریضہ انجام دیتا اگر کسی قبیلے کا سردار ایمان لاتا تو یہ کام آسانی سے ہو
جاتا اور کوئی عام فرد ہوتا تو اس کے لیے مشکل تو ہوتی لیکن وہ اپنی ذمہ
داریوں سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہ ہوتا اس طرح اس انقلاب بنبوی کے لیے
مقامی قیادتیں جو اصلاَتو قبائلی قیادتیں ہوتیں وجود میں آگئیں جنھوں نے اس
انقلاب میں بہت اہم رول ادا کیا ۔مکہ میں انقلاب کی یہ تمام شرائط پوری ہو
چکی تھیں لیکن آخری شرط اس خطہ میں عوامی خواہش کا پیدا ہونا یا اس سرزمین
کے رہنے والوں میں اس انقلاب کی تڑپ کا پیدا ہونا ہم دیکھتے ہیں مکہ میں یہ
شرط پوری ہوتی نظر نہیں آئی تو پھر آپ ﷺؑ کو ہجرت کا حکم دیا گیا کہ مدینے
کے لوگوں کیاندر یہ خواہش پیدا ہو چکی تھی اور مدینے سے اہل ایمان کا ایک
وفد بھی مکہ میں آپﷺ سے ملنے آیا تھا جس نے آپﷺ کو دعوت دی کہ آپ مدینے
تشریف لے آہیں ہم آپ کو اپنا سربراہ بنانے کے لیے تیار ہیں اس طرح مدینے کی
زمین انقلاب کے لیے زرخیز اور نرم ہو چکی تھی ۔پھر غلام اعظم صاحب نے
پاکستان میں جماعت اسلامی کے کام کا تجزیہ پیش کیا جس کی تفصیل کی گنجائش
نہیں ہے بس اس کا خلاصہ یہ تھا پاکستان میں جماعت اسلامی تقریباَچھ شرائط
تو پوری کرچکی ہے آخری شرط کے لیے جدوجہد جاری ہے جب اس ملک میں شفاف
انتخابات کی ریت پڑجائے گی تو پھر دو تین انتخاب کے بعد جماعت اسلامی عوام
کی امیدوں کا مرکز بن جائیگی آپ کارکنان کے کرنے کا کام یہ ہے عوام میں
جماعت کی دعوت کو اتنا عام کریں کے عام لوگ ہماری انقلابی جدوجہد کے
پشتیبان بن جائیں تو پھر یہ مرحلہ بھی طے ہو جائے گا اور پاکستان کا کوچہ
کوچہ اس اسلامی انقلاب کے نور سے جگمگائے گا ۔ان شاء اﷲ
|