طاہر القادری کی ناکامی انا اور ضد

ایک زمانہ تھا جب نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے طاہر القادری کو پی ٹی وی پر انہیں ایک وکیل (عالم نہیں) ہونے باوجود (غالباََحسرت موہانی نے وکیل کے موضوع پریہ شعر کہہ کر اپنا مافی الضمیر بیان کر دیا تھا،کہتے ہیں کہ پیدا ہوا جب وکیل تو شیطان نے کہا لو آج ہم بھی صاحبِ الاد ہوگئے) ایک مذہبی اسکالر اور پاک باز شخصیت کے طور پر پیش کر کے قوم کے ایک بڑے طبقے کو ان کی پی ٹی وی پر چرب زبانی سے ان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔اس احسان مندی کا صلہ وہ مسلسل نواز شریف کو بوٹ بردار جمہوریت کے علمبردار چوہدریوں کے ساتھ مل کر دیتے بھی رہے ہیں۔طاہر القادری نے اپنی شہرت کے زعوم میں منہاج القران نامی تنظیم بھی بناڈالی جس کے بینر تلے وہ کئی بار ناکام انتخابات لڑ چکے ہیں۔جس سے ہم سمجھتے ہیں کہ اُن کا غرور تو خاکستر ہوجانا چاہئے تھا۔مگر ان نا کامیوں کے باوجود وہ پیپلز پارٹی کے آخری دور ِاقتدار میں دھرنوں کی سیاست لے کرکینیڈا سے پاکستان تشریف لے آئے تھے۔ جس میں غیر ملکی ایجنڈے کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے۔مگر اس کھیل میں انہیں بری طرح سے نا کامی کا منہ بھی دیکھنا پڑا تھا۔اس کے بعد بھی اسٹیٹس کو کے خواہاں بعض سیاست دانوں اور بعض ریٹائرڈ اور حاضر سروس جلد ریٹائر ہونے والے جنرلز نے محسوس کر لیا تھا کہ طاہر القادری کو استعمال کر کے جمہوریت کی بساط لپیٹ کر حکومت کوآسانی کے ساتھ فارغ کر کے گھر بھیجا جا سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں بعض مغربی قوتوں سے مل کر لندن پلان ترتیب دیا گیا اس پلان میں بھی ہمارا بوٹ بردار طبقہ اور عمران خانکے ساتھ مل کر اپنی اسٹیج سجا رہا تھا۔ پاکستان کی حکومت کو ناکام کرنے کے لئے عمران خان کے بعض یہودی دوستوںنے اپنے مخصوص ذرائع سے خفیہ راستوں سے میلینز آف ڈالرز کی فنڈنگ کی ۔تاکہ پاکستان کے جمہوری سسٹم کو بریک لگایا جاسکے۔ 79 دنوں تک اِ ن دھرنوں اور جلسوں پرمغرب کا پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا ۔مگر ہاتھ کسی کے بھی کچھ نہ آیا۔ جب طاہر القادری اسیٹیٹس کو کی بوٹ بردار جمہوریت سے مکمل طور پر نا امید ہو گئے اور کہیں سے بھی کامیابی کے آثار دکھائی نہ دیئے تووہ 22،اکتوبر 2014، کو دھرنوں کی بساط لپیٹنے پر مجبور ہو گئے ۔جو ( سابق کرکٹر ) عمرا ن خان کی سیاست کو زمین بوس کر گئے۔کیونکہ طاہر القادری کے اکثر حامی تفریح طبع کے لئے عمران خان کے دھرنے کو رونق بخشتے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں راگ رنگ کی محفلوں کے ساتھ باقاعدہ رقص و سرود کی محفلیں بھی جماکرتی تھیں،رقص و سرود کی ان کے ہاں بھی کوئی پابندی نہ تھی،کیونکہ طاہر القادری خود اسٹیج پر ٹُھمکے لگاتے دیکھے گئے اور ان کے رحی ± قادری تو لوگوں کے اندر بیلی ڈانس سے مسلسل سب کو تفریح فراہم کر رہے تھے۔یہی وجہ تھی کہ ان کے ذریعے وہ لوگ اپنی دن بھر کی بوریت اور تھکن سے نجات کے سامان کر لیا کرتے تھے۔کیونکہ بظاہر دونوں گروپ ہی ایک ہی کشتی کے سوار تھے۔

کرکٹر کی بد قسمتی کہ طاہر القادری مزید اپنے حامیوں کی جان کو جوکھم میں ڈالنے کو تیار نہ تھے۔وہ تو ایک مہینے سے زیادہ لمبے عرصہ دھرنوں میں بیٹھنے کے حامی بھی نہ تھے مگر بوٹ برداروں کی ترجمانی کرتے ہوئے چوہدری اینڈ کمپنی کی طرف سے روزانہ کی بنیاد پر کہا جاتا رہا ہوگا کہ بس اگلے لمحے نواز شریف کا اقتدار ختم کر دیا جائے گا۔جس پر طاہر القادری چیخ اٹھتے کہ بس اب نواز شریف کے اقتدار کی بساط لپٹنے ہی والی ہے، اور بے چارے قادری اقتدار کی چمک آنکھوں میں بسائے بار بار ان کی یقین دہانیوں کا شکار ہو کر صبر کا دامن پکڑلیتے اور یوں یہ دہرنا دو ماہ کی حدیں بھی عبور کر گیا ۔طاہر القادری کا کہنا ہے کہ وہ تو ایک ماہ پہلے ہی دھرنے ختم کرنے کا پروگرام بنا چکے تھے۔عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری 21اکتوبر 2014،کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر کے اپنے کارکنوں سے کہاہ دیا کہ آپ لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا سکتے ہیں ۔دھرنے ختم کر کے اگلے مرحلے میں داخلے کا اعلان کر دیا۔منگل کی رات ریڈ زون میں 16،اگست سے جاری دھرنے کے شرکا سے کہا کہ انقلاب مارچ کے بعد دھرنے کا مرحلہ بھی مکمل ہوگیا ہے۔لہٰذا دھرنوں کو ملک بھر میں پھیلانے کا اعلان کرتا ہوں۔اب دھرنے گھر گھر، شہر شہر اور نگر نگر جائیں گے۔ہر شہر میں دو دن دھرنا دیا جائے گا۔قومی حکومت کیلئے پریشر بڑھاتے رہیں گے۔انقلاب کا سفر ختم نہیں ہوا ہمارے نعروں سے ملک میں انقلاب آگیا ہے؟؟؟اپنی خفت کو مٹانے کی غرض سے طاہر القادری نے کہا کہ حکومتی تبدیلی سے قبل سوچ کی تبدیلی ہوگی!!!جس پر کسی نے پھبتی کسی کہ ”بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کچے سے ہم نکلے“ چند ہزار افراد کے سوئے ملک میں ان کی عزت کرنے والا ہے ہی کون؟قادری کا کہنا تھا تحریکِ انصاف کے ساتھ اشتراک عمل کے باوجود ہم اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں اس کے ساتھ ہی طاہر القادری نے اپنے کار کنوں سے کہا کہ (دھرنے ورنے کا تصور چھوڑو اور اب)بلدیاتی الیکشن کی تیاری کریں ۔آپ کندن بن کرجارہے ہیں۔پتہ نہیں کونسی کسوٹی پر یہ مفلوک الحال لوگ کندن بنا دیئے گئے۔ساری سعوبتیں بر داشت کرنے کے بعد جعلی مرشد و عالم نے کہہ دیا کہ تباہی تو تمہارا مقدر تھی اس میں، میں قصور وار ہر گز نہیں ہوں۔طاہر القادری کے لوگوں کو دھرنے کے خاتمے پر یہ کہتے بھی سُنا گیا کہ علامہ نے اپنے چاہنے والوں کے ساتھ خطرناک قسم کا دھوکہ کیا ہے۔اگر یہ ہی سب کچھ کرنا تھا تو ہمیں سوا دو مہینے سولی پر کیوں لٹکا ئے رکھا گیا اور کیوں بار بار تبدیلی کی جھوٹی نویدیں سُنائی جاتی رہیں؟؟؟اس صورتِحال سے کاکنوں میں انتہائی شدت سے مایوسی کی لہر پیدا ہو چکی ہے۔اب ا ن کے اپنے پیرو کاربھی انہیں انتہائی شاطر اور بے عمل کہہ رہے ہیں۔کیونکہ اہنوں نے دس مرتبہ سے زیادہ یہ نوید سنائی تھی کہ نواز شریف کا اقتدار اب گیا ، ان کا استعفیٰ آیا ،ایک ہفتہ بعد ، دو دن بعد، چوبیس گھنٹوں کے بعد اور رات بارہ بجے ،نواز شریف کا استعفیٰ اب آیا کہ جب آیا،مگر بد قسمتی سے ان کا استعفیٰ کبھی نہ آیا۔اس فیصلے سے طاہر القادری کی جعلی روحانیت کا پول پٹہ بھی کھل گیا ، کچھ بھی نہ ہوا۔اور جس انقلاب کی وہ باتیں کرتے تھے وہ انقلاب پاکستان میں فی الوت تو آنے سے رہا۔سیانے انہیں بار بار کہہ رہے تھے کہ اس طرح انقلاب ہر گز نہیں آیا کرتے ہیں۔اس ملک میں اگر انقلاب لانا ہے تو وہ ،ووٹ کی پرچی سے ہی آئے گا۔چرب زبانی دھرنوں، جلسوں سے جمہوری معاشروں میں انقلاب تو نہیں آیا کرتے ہاں مگر بد طینت ڈنڈا بردار کوئی بھی غیر آئینی کام کر کے منتخب ایوان کو ڈنڈے کے زور پر گھر بھیجنے کا سوچ سکتے ہیں۔ مگر پرویز مشرف کی جس قدر تذلیل ہو چکی ہے اُس کو دیکھ کر کوئی سمجھدار تو کبھی بھی بوٹوں کی دھمک نہیں سُنائے گا۔ ہاں کچھ بے روزگار اور ہونے ولے بے رازگار وں کی یہ خواہش ضرور ہوگی۔جس وہ اس خواہش کی تکمیل کی شدت بھی رکھتے ہیں۔

جس وقت عمران خان کو قادری کے دھرنے ختم کرنے کی بھنک کان میں پڑی تو موصوف نے فوری طور پر اپنی دھرنوں کی حکمتِ عملی تبدیل کی اور ملک کے مختلف علاقوں میں جلسے کرنا شروع کر دیئے تاکہ سیاسی نااہلیت کی سُبکیوںسے اپنے آپ کو بچا جا سکے اور انہیں یہ احساس بھی ہو چلا تھا کہ قادری کے چلے جانے کے بعد ان کی دھرنیوں کی اہمیت ہی ختم ہو جائے گی۔سیاست کی وہ بازی جو وہ جیتنے کو تھے اپنی نااہلیوں کے نتیجے میں ہا ر جانے پر سیاسی لوگوں کے سامنے کیا منہ لیکر جائیں گے؟عمراں خان کے سیاسی میدان میں نا بالغ پن اور طاہر القادری اور عمران خان کی ضد اور ہٹ دھرمی اور انا پرستی نے جیتی ہوئی بازی ہار دی ہے۔جس کا ہم سمجھتے ہیں کہ سب سے زیادہ نقصان کر کٹر کو ہوا۔طاہر القادری کے دھرنوں کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ ہی عمران خان سیاست کے میدان میں اکیلے بے یارو مددگار ہو کر سیاسی یتیمی کے دور میں ایک مرتبہ پھر داخل ہو چکے ہیں۔در حقیقت طاہر القادری اپنی ضد اور انا کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ان کے لئے سب سے بہتر راستہ یہ ہی ہے کہ وہ خاموشی سے کینڈا واپس جا کر اپنے اسپونسرز سے اپنی اس عظیم الشان ناکامی پر معافی کے خواست گار ہوجائیں تاکہ انہیں اگلا ٹاسک زیادہ منظم اور زیاہ بہتر بنا کر انہیں دیا جاسکے۔

طاہر القادری کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہی ہے کہ وہ اس قوم کی اکثریت کو بےوقوف سمجھتے ہیں ۔ان کا خیال یہ تھا کہ ان کی چرب زبانی کا شکار پوری قوم ہو جائے گی جو ہو نہ سکا۔ وہ اپنے آپ کو کوئی بہت بڑی روحانی اور ماورائی شخصیت بنا کر پیش کرتے رہے ہیں ۔جو لوگ ان کے جھوٹ فریب کی حقیقت سے واقف ہیں انہوں نے کبھی بھی انہیں ایک معمولی وکیل سے زیادہ درجہ نہیں دیا۔مگر چند ایسے لوگ جو اپنے عقل و شعور سے کام نہیں لیتے بلکہ قادری کی روحانیت کے سحر میں مبتلا ہیں ۔وہ تو ان کے ہر فریب پر سر دھنتے نظر آتے ہیں۔ ہر نئے آنے والے دن نئی پیشنگوئی کرتے اور اُس پیشنگوئی کی نا کامی پر وہ شرمندہ ہونے کے بجائے ڈھٹائی سے اگلی پیشنگوئی کرتے دیکھے جاتے رہے ہیں ۔اپنے دھرنے کے دنوں کی جگار کو انہوں نے نعوذ باللہ،لیلت القدر کی عبادتوں کے برابر تک قرقر دیدیا تھا ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ کہاں لیلت القدر اور کہاں ناچ گانے اور اوبای کے مناظروالی رات۔جس کو گمراہی کے سوائے کیا نام دیا جا سکتا ہے؟جس سے ان کی ذہنی کیفیت کا قوم خود اندازہ لگا سکتی ہے۔ کبھی شیخ عبدالقادر جیلانی سے ان کا ٹاکرا چل رہا ہوتا ہے ۔تو اکثر اوقات پیغمبرِ اسلام حضرت محمدﷺتو جیسے ان انہیں راستہ بتارہے ہوتے ہیں ۔یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے میرے پیارے نبی ﷺ جب کسی کی رہنمائی فرماتے ہیں اور راستہ بتاتے ہیں تو اس کے نتائی سو فیصد وہ ہی ہوتے ہیں جو بتائے جاتے ہیں۔مگر قادری تو جتنی بھی باتیں کرتے رہے ان میں سے ایک بھی سچی ثابت نہیں ہوئی۔ان کے کفریہ بیانات پر قوم توجہ دے کر ان کا کڑا احتساب کرنا چاہئے۔تاکہ اس قسم کے خود پرست اور انا نیت کے مارے لوگوں کے راستے میں دیوار کھڑی جی جا سکیں۔آخر میں ان کی جانب سے یہ ہی کہا جاسکتا ہے ”بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے“

Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 213125 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.