پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ " ڑوند پہ خپل کور خہ پوھیگی
اور نہ سترگہ ور" مطلب یہ کہ اگر ایک آدمی اندھا بھی ہو تو وہ اپنے گھر
کےافراد کے ،مزاج، طور طریقوں، کام کاج کی صلاحیت اور جذبات سے اس بندے کے
مقابلے میں اچھی طرح واقف ہوتا ہے جنکی آنکھیں تو کام کرتا ہو لیکن ان کا
تعلق پرائے گھر سے ہو، اسی طرح کی مثال ہمارے قبائلی عوام کا ہے کیونکہ
قبائلی علاقے کے رہنے والا ہی قبائلوں کے مزاج کو سمجھ سکتا ہے انکے رسم
ورواج کا خیال رکھ سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ہر چیز الٹی سمت
جا رہی ہے جس پر ہم صرف افسوس ہی کر سکتے ہیں ،
فاٹا سکریٹریٹ قبائلی عوام کی فلاح وبہبود کے لئے بنایا گیا ایک انتظامی
ادارہ ہے جس کا مقصد قبائیلی عوام کی جان ومال کا تحفظ اور انکو ترقی کی
راہ پر گامزن کرنا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو اس ادارے میں بامشکل 2 فی صد
افسرز ایسے ملیں گے جن کا تعلق فاٹا سے ہو یا فاٹا کے متعلق جانتا ہو باقی
98 فی صد ایسے لوگ بیٹھےہیں جنہوں نے آج تک فاٹا کے کسی ایجنسی یا ایف آر
تک دیکھا نہیں ، دیکھنا کیا انہوں نے فاٹا کے رسم رواج ،تاریخ اور
جغرافیائی صورتحال کے متعلق پڑھا تک نہیں ، تو ایسی حالت میں یہاں بیٹھے
اہلکار فاٹا کی ترقی کے لئے کیسے پالیسیاں بنائیں گے؟ یہاں چپڑاسی سے لے کر
اعلٰی افیسر تک کی سیٹیں فروخت ہوتے ہیں جن پرکروڑوں کی بولیاں لگ جاتی ہے
اور پھر یہ اہلکار جب بولی سے منتخب ہو کر آتے ہیں تو ان کا کام صرف اور
صرف بینک بیلنس بڑھانا ہوتا ہے اور کچھ نہیں کیا ان حالات میں فاٹا
سکریٹریٹ سے اچھائی کی امید کی جا سکتی ہے ؟
قبائلی عوام کی جان ومال کا تحفظ اور انکو ترقی کی راہ پرگامزن کرنے کے لئے
انفراسٹرکچر میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی ضرورت ہے اور افراسٹرکچر کی
تبدیلی کا آغاز فاٹا سکریٹریٹ کے تنظیم نو سے کرنی چاہئے یہاں ایسے لوگوں
کو تعینات کرنا چاہئے جن کا تعلق فاٹا سے ہو، وہ فاٹا میں رہائش پذیر ہو،
وہ یہاں سے لکھا پڑھا ہو، انکو یہاں کے موسموں کا بھی علم ہو ،یہاں کی بھوک
اور پیاس بھی دیکھی ہو اور وہ یہ بھی جانتا ہو کہ یہاں کے عوام میں چھپی
ہوئی صلاحیت کس طرح ابھر آ سکتا ہے ،وہ یہاں کے تہذیب وتمدن سے بھی باخبر
ہو اور رسم ورواج سے بھی، انکے سینے میں قبائلی عوام کے لئےایک درد بھی ہو
اور اگر اس طرح کے لوگ فاٹا سکریٹریٹ میں آگئے تو حقیقت میں قبائلی عوام کا
حال بدل جائے گا، لوگ خوشحال ہونگے، بچے پڑھیں گے اور فاٹا دنیا کا حسین
ملکہ بن جائے گا ، پھر ہمارے بچوں کے ذہنوں میں بم بلاسٹ کی صدائیں نہیں
گونجیں گے بلکہ انکے ذہنوں میں دنیا کے ساتھ مقابلے کی رجحانات امنڈ لائیں
گے ، ان میں ڈاکٹر عبدل السلام، ڈاکٹر قدیر خان جیسے شخصیات پیدا ہونگے جس
پر پوری قوم فخرکرے گی-
لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور وہ یہ کہ ہمارے حکمران جانتے ہیں کہ ایسا ہی
ہونا چاہئے لیکن پھر بھی وہ کرنے کو تیار نہیں ، اور نہ ہی وہ ہمارے بچوں
کو ڈاکٹر قدیر خان اور ڈاکٹر عطاءالرحمان کی روپ میں دیکھ سکتے ہیں، آخر
کیوں؟ لیکن اس کیوں پر صدیاں لگ گئی کسی کو اس کی حقیقت معلوم نہ ہو سکی
اور جن کو معلوم ہو سکا تو فوراً سسٹم نے انکو اپنے لپیٹ میں لیا اور کیوں
کی حقیقت ان سے بھولا دیا گیا اسی لئے اج تک کسی نہ انکے بدلنے کی کوشش
نہیں کی، کتنی مرتبہ فاٹا پارلیمینٹرین سے پارلیمینٹ سج گئی لیکن نہ تو
فاٹا کے حالات کو بدلنے کی کوشش کی گئی اور نہ ہی فاٹا سکریٹریٹ میں بیٹھے
بڑے بڑے مچھلیوں کو شکار کرنے کی منصوبہ بندی، فاٹا کے حالات روزبروز خراب
ہوتے جارہے ہیں جس سے فاٹا سکریٹریٹ میں بیٹھے شکاریوں کے بینک بیلنس بڑھتے
جارہے ہیں فاٹا کے نام پر لئے گئے فنڈز کا 85 فی صد فاٹا سکریٹریٹ میں ہی
ہڑپ ہوجاتے ہیں باقی ماندہ 15 فی صد گراؤنڈ تک آتے آتے چھوٹے مچھلیوں کے
منہ میں جاتا ہے اور عوام ایسے کے ویسے رہ جاتے ہیں-
فاٹا عوام رونا روئے تو کس سے ، اپنے نمائندوں کو اسمبلی بھجواتے ہی پرائے
بن جاتے ہیں ، پھر وہ ان لوگوں کو بھول جاتے ہیں اور اسلام آباد میں کسی
اور کے مسائل حل کرنے اور انکے گن گانے لگ جاتے ہیں، اسلام آباد کی ہوا بھی
کیا مست ہوا ہے جو اپنوں کو بھی غیر بنا دیتے ہیں ، لیکن زندہ قومیں ہمیسہ
امید کا دامن تھامیں رہتے ہیں قبائلی عوام بھی کل کی اچھی امید کے منتظر
ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فاٹا افسران کی فاٹا سے لاعلمی آخر کب تک
رہے گی؟ |