تھر:بھوک پیاس ایک بار پھر زندگیاں نگلنے لگی!
(عابد محمود عزام, karachi)
بے بسی کی تصویر بنا سندھ کا
علاقہ تھر پارکر ایک بار پھر بھوک وپیاس کی وجہ سے بچوں کی پے در پے اموات
کی لپیٹ میں ہے۔ ذرائع کے مطابق رواں ماہ تھر پارکر میں مرنے والے بچوں کی
تعداد 33 ہوگئی ہے، جبکہ بہت سے بیمار بچے سرکاری ہسپتالوں میں زیر علاج
ہیں، جن میں سے متعدد کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ تھر میں بھوک پیاس
کی وجہ سے باسیوں کی حالت انتہائی قبل رحم بتائی جارہی ہے۔ اطلاعات کے
مطابق گزشتہ دنوں تھر میں ایک ایسے گاﺅں کا پتا چلا ہے، جہاں کے لوگ مفلسی
اور مجبوری کا منہ بولتا نمونہ ہےں۔ ”اسلام کوٹ“ میں ایک نواحی گاﺅں گوٹھ
مﺅ اکھیراج کے مکین ہڈیوں کی موذی بیماری میں مبتلا ہیں۔ اس گاﺅں کے ہر گھر
کا کوئی نہ کوئی فرد ہڈیوں کی بیماری کے باعث چارپائی سے لگ گیا ہے۔ اس گاﺅں
میں 25 سال کی عمر کو پہنچنے والا ہر فرد ہڈیوں کی پراسرار بیماری میں
مبتلا ہو جاتا ہے، جس میں ان کی ٹانگیں اور جسم کے دیگر حصوں کی ہڈیاں مڑ
جاتی ہے۔ متاثرہ مریض چلنے پھرنے سے ہی محروم ہو جاتا ہے، ہڈیوں کا مرض صرف
تکلیف دہ ہی نہیں، بلکہ جان لیوا بھی ہے۔ اس گاﺅں کے متاثرہ افراد کی اوسط
عمر 40سال سے بھی کم ہے، جبکہ بیماری میں مبتلا 30 سال کا مریض 70 سال کا
دکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق بیماری کی بنیادی وجہ پینے کا پانی ہے،
جس میں زہریلے اجزا کی مقدار انتہائی خطرناک ہے۔ دوسری جانب تھر میں پانی
کا بحران شدت اختیار کر رہا ہے، چھاچھرو اور ڈاھلی تحصیل میں 114 ٹیوب ویل
ناکارہ ہونے کے بعد پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا۔ 75 سے زاید ٹیوب
ویلوں کے آلات بھی غائب ہیں۔ چھاچھرو انتظامیہ کو ملنے والی دو کروڑ کی
گرانٹ شہر کے لیے 7 سال کے عرصے میں پانی کی فراہمی کا مسلہ حل نہ کر سکی۔
شہری پانی خرید کر استعمال کرنے پر مجبور ہیں، حتی کہ نقل مکانی کرنے والے
قافلوں کو بھی پانی فراہم نہیں کیا جا رہا۔ اس حالت زار پر سندھ حکومت چپ
سادھے بیٹھی ہے اور سسکتے بلکتے متاثرہ افراد کی نقل مکانی کا سلسلہ جاری
ہے اور اب تک سیکڑوں گاو ¿ں خالی ہو گئے ہیں اور حکومت ان حالات سے صرف نظر
کیے ہوئے ہے۔ حکومت کی نا اہلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ
قحط متاثرین کے لیے بھیجی گئی منرل واٹرکی لاکھوں بوتلیں انتظامیہ کی غفلت
کے باعث رواں ماہ خراب ہوئی ہیں۔ تھر کے قحط زدہ متاثرین حکمرانوں کی جانب
سے دیے گئے شفاف پانی ملنے کے باوجود تشنہ لب رہے، قحط زدہ مٹھی کے عوام کے
لیے بھیجی گئی منرل واٹر کی لاکھوں بوتلیں انتظامیہ کی غفلت اور لاپرواہی
کے باعث متاثرین کی تشنگی دور کیے بغیر ضائع ہوگئیں۔ سندھ حکومت نے قحط اور
خشک سالی سے بے حال تھرپارکر میں منرل واٹر کی تین لاکھ بوتلیں بھیجی تھیں،
لیکن کلچرل کمپلیکس میں پانی کی بوتلوں کے تین ہزار کارٹن پڑے پڑے خراب ہو
گئے۔ تھرپارکر انتظامیہ کی بے حسی کی اطلاع ملنے پر ریلیف انسپکٹنگ جج نے
گودام پرچھاپہ مارا اور زاید المیعاد تین لاکھوں بوتلیں برآمد کیں۔ حکومت
کی ایسی نا اہلی کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ضلعی انتظامیہ قحط متاثرین کی
امدادی سرگرمیوں میں سنجیدہ نہیں ہے۔
خیال رہے کہ صوبہ سندھ میں غذائی قلت کے شکار افراد کی مدد کو پاک فوج کے
جوان پہنچ گئے ہیں۔ فوجی جوان اپنے ساتھ 60 ٹن سامان لے کے پہنچے ہیں، جس
میں کھانے پینے کا سامان، دال، چاول اور آٹا، جبکہ متاثرین کے قیام کے لیے
شامیانے اور خیمے بھی شامل ہیں اورمریضوں کے علاج کے لیے میڈیکل کیمپ بھی
قائم کیے گئے ہیں، لیکن ان حالات میں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ یہ
ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں کہ تھر میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں، ان کا
کہنا ہے کہ تھر میں بچے بھوک سے نہیں، بلکہ غربت سے مررہے ہیں۔ اس کے اسباب
وہ ہیں ، جن کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں میں بھی بچوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں،
سول ہسپتال کراچی اور مٹھی کے ہسپتالوں میں بچوں کی اموات کے اعداد و شمار
جمع کیے جائیں تو سب کو اندازہ ہو جائے گا۔ تھر کے 16 لاکھ لوگوں کے لیے 2
ارب روپے کی گندم فراہم کی اور ہم کیا کریں، غربت سے تو پنجاب میں بھی
سیکڑوں بچے مرتے ہیں، تھر کے ہسپتالوں کی حالت آج سے نہیں، برسوں سے خراب
ہے، پچھلی حکومتوں نے اس پر توجہ کیوں نہیں دی، آج کا میڈیا بہت ایڈوانس ہو
گیا ہے، ریکارڈ سے تعداد بتائی جاتی ہے تو یہ 10کر دیتے ہیں، ہم نے تھر میں
بہت محنت کی ہے، ماضی کی حکومتوں نے تھر میں کچھ نہیں کیا۔ تھر میں 16لاکھ
لوگ رہتے ہیں، اب 16 لاکھ لوگوں کو ایک ساتھ بٹھا کر کھانا تو کھلا نہیں
سکتے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کا اس قسم کے بیانات دینا
انتہائی افسوس ناک بات ہے، حقیقت یہ ہے کہ تھر میں ایک عرصے سے بچوں کی
ہونے والی اموات میں حکومت سندھ کی نااہلی شامل ہے، حکومت سندھ نے مسلسل
اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی برتی ہے، آج تک حکومت سندھ نے تھر کے حالات کو
بدلنے کی کوشش ہی نہیں کی اور نہ ہی ان کے مسائل حل کرنے ی کوشش کی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت تھر پارکر کے باسیوں کے مسائل کا مستقل حل
نکالتی، لیکن اس نے اس جانب کوئی توجہ ہی نہیں دی۔ حالانکہ تھر میں غذائی
قلت اور بیماریوں سے صرف اس سال مرنے والے بچوں کی تعداد 278 ہو گئی ہے،
جبکہ اسی عرصے کے دوران اب تک 316 بچوں کی بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں منتقل
کیا گیاہے۔ مرنے والے تمام بچوں کی عمر یں پانچ سال سے کم تھیں، جبکہ زیادہ
تر اموات نوزائیدہ بچوں کی ہوئیں اور تھر میں قحط سالی کوئی پہلی بار نہیں
آئی، بلکہ ہر سال تھر کو قحط کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن میڈیا کے توجہ
کروانے پر حکومت وقتی طور پر تو متاثرین قحط کی کچھ امداد کر دیتی ہے، لیکن
دوبارہ پھر ان کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ گزشتہ دنوں بھی متعدد
رہنماﺅں نے تھر میں بچوں کی اموات کے واقعات پر گہری تشویش کااظہا ر کرتے
ہوئے کہا تھا کہ ہر سال مرد، خواتین اور بچے قحط سالی کا شکار ہوکر سسک سسک
کر دم توڑ جاتے ہیں، اب بھی تھر میں قحط سالی کے باعث کئی خاندان نقل مکانی
پر مجبور ہوچکے ہیں اور جو لوگ تھر سے نقل مکانی نہیں کرپارہے ہیں، وہ
غذااور پانی کی شدید قلت اور طبی سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث زندگی اور
موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ تھر میں برسوں سے قحط سالی کے باعث خواتین،
بچوں اور مردوں کی اموات کے سیکڑوں واقعات کے باوجود حکومت سندھ کی جانب سے
پانی اور غذائی ضروریات کی قلت کو ختم کرنے کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں
کیے جا رہے ہیں اور تھر کے لوگوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر حکومت
سندھ کے وزرا صرف اور صرف حکومت کے مزے لوٹ رہے ہیں، جس کی جتنی بھی مذمت
کی جائے کم ہے۔ اس کے باوجود وزیر اعلیٰ سندھ یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ
تھر میں بچے بھوک سے نہیں، غربت سے مرے ہیں، حالانکہ بھوک بھی تو غربت کے
باعث آتی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے ہمیشہ تھر کے لوگوں کو نظر انداز کیا ہے،
ماضی میں بھی تھر کے لوگوں کے لیے بڑے بڑے اعلانات کیے تھے، مگر اس کے
باوجود عملی طور پر جس پیمانے پر امداد اور بحالی کا عمل ہونا چاہیے تھا،
وہ نہ ہو سکا۔ گزشتہ تین برسوں سے تھر میں یہ صورت حال جاری ہے، مگر اس
مسئلے کے حل کے لیے حکومتی سطح پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔ پچھلے برس
وزیراعظم نے تھر کے لوگوں کے لیے اربوں روپے امداد دینے کا اعلان کیا تھا۔
صوبائی حکومت نے بھی اس ضمن میں کئی اقدامات کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ اس
میں پانی کے حصول کے لیے ٹیوب ویل لگانے، شہروں میں ہسپتالوں میں ادویات کی
بڑے پیمانے پر فراہمی اور عوام کو مفت خوراک کی فراہمی، مگر ان میں سے کسی
منصوبے پر عمل نہ ہونے سے عوام سخت ترین مشکل میں مبتلا ہیں۔ وزیر اعلیٰ
سندھ نے سول ہسپتال مٹھی میں اعلان کیا تھا تھا کہ ہر مرنے والے بچے کے
لواحقین کو 2 لاکھ روپے دیے جائیں گے، مگر اس پر بھی عمل نہیں ہوا۔ گزشتہ
برس صدر زرداری کے دورے کے موقع پر صوبائی وزیر شرجیل میمن نے درجنوں
مقامات پر بے نظیر دستر خوان لگانے کا اعلان کیا تھا، وہ بازار بھی کہیں
نہیں لگے۔ ان حالات میں تھر کے شہریوں کے لیے وفاقی اور سندھ حکومت مل کر
فوری طور پر ہنگامی امدادی پیکیج دیں۔ پانی اور راشن فوری طور پر فراہم کیا
جائے، طبی ٹیمیں بھیجی جائیں، بیمار اور کمزور بچوں کا علاج معالجہ کیاجائے،
پورے ڈویژن میں جامع سروے کر کے متاثرین کی درست تعداد کا تعین کرنے کے بعد
مکمل اور بھرپور امداد شروع کی جائے اور اس امر کا خیال رکھا جائے کہ ہر
خاندان کو اس کے گھر جا کر امداد دی جائے۔ امداد کی خورد بردر نہ کی جائے
اور امدادی سامان و اشیا کو ضائع ہونے سے بھی بچایا جائے، جس طرح گزشتہ
دنوں پانی کی تین لاکھ بوتلیں ضائع کر دی گئی ہیں۔ تھر کا مسئلہ کوئی ایسا
لاینحل مسئلہ نہیں، جو حل نہ ہو سکے۔ |
|