ڈاکٹر طاہر القادری کا سیاسی مستقبل
(Muhammad Kamran Akhter, Skardu)
پاکستان اس وقت مختلف اندرونی
اور بیرونی مسائل کا شکار ہے جبکہ موجودہ حکومت ان مسائل پر قابو پانے میں
مکمل طور پر ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ سیاسی حوالے سے حکومت پاکستان کے لیے
سب سے بڑا چیلنج عمران خان کی تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہر القادری کی عوامی
تحریک اور ان کے اتحادیوں کی طرف سے جاری دھرنے اور سیاسی اجتماعات ہیں۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد میں جاری
دھرنا تو ختم کر دیا ہے مگراپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے جلسوں کا سلسلہ
شروع کر دیا ہے۔اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بظاہر اس دھرنے کو ختم کرانے
میں حکومت کا کوئی قابل ذکر کردار نہیں ہے۔ اس لیے قادری کے اس فیصلے کو
حکومت کی جیت کی بجائے قادری کی ہار قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف اندرون
خانہ ڈیل کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں۔ ان افواہوں نے حقیقت کا روپ دھار
لیا تو قادری کی سیاست کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہونے سے کوئی قوت نہیں
بچا سکتی۔
ڈاکٹر طاہر القادری گذشتہ کئی سالوں سے انقلاب کا نعرہ لگا رہے ہیں اور اسی
نقلاب کے سنہری نعرے کو بنیاد بنا کر وہ کئی مرتبہ سیاست میں قدم رکھ چکے
ہیں اور کئی مرتبہ سیاست سے تائب بھی ہو چکے ہیں۔ یوں وہ کئی مرتبہ اپنی
توبہ کا خون کر چکے ہیں۔ تاہم میں اتنا ضرور کہوں گا کہ انہوں نے کارکنوں
کو کے جذبات کو ہمہ وقت شعلہ بیانیوں کے بل بوتے پر گرمائے رکھا اور ان کا
حوصلہ ٹوٹنے نہ دیا۔ وہ اپنی سیاسی تقریروں میں جلد ہی آفتاب انقلاب طلوع
ہونے کی نوید سناتے رہے۔ اور ان کے کارکن اور عقیدت مند یہ خوش کن پیشن
گوئیاں سن کر سر دھنتے رہے اور آفتاب انقلاب کے طلوع ہونے کا انتظار کرتے
رہے۔
آخر کار پیپلز پارٹی کی کمزور اور بدنام حکومت کے آخری ایام میں انہوں نے
اپنے انقلاب کی جدو جہد کے آخری مرحلے کا اعلا ن کر دیا اور اپنے کارکنوں
کو سر دھڑ کی بازی لگا نے کا حکم صادر کر دیا۔ اور لانگ مارچ کے بل بوتے پر
کرپٹ حکومت اور فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ کر لیا۔ لانگ
مارچ لاہور سے اسلام آباد آیا۔ کچھ دن شعلہ بیانیوں نے اپنا رنگ دکھایا اور
بالآخر زرداری کی مفاہمتی پالیسی سب پہ بھاری ثابت ہوئی اور قائد انقلاب کو
واپس کینیڈا چلے جانے پر راضی کر لیا گیا۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنی اس ناکامی کو نماز انقلاب کے لیے اذان قرار دے کر بہت
چالاکی اور مہارت سے اپنے کارکنوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی اور کینیڈا
روانہ ہو گئے۔اس صورت حال میں امید تو یہ کی جا رہی تھی کہ انہو ں نے اس
ناکام تجربے سے درس حاصل کیا ہوگا اور وہ آئندہ اس قسم کی سیاسی غلطی نہیں
کریں گے اور اپنے کارکنوں کی عقیدت کا مزید امتحان نہیں لیں گے اور آئندہ
کی سیاسی حکمت عملی وضع کرتے ہوئے وہ زمینی حقائق کو پیش نظر رکھیں گے۔
الیکشن کے بعد جب نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تو قادری نے دوبارہ چھیڑ
چھاڑ شروع کر دی اور اپنے کارکنوں کو باور کرانا شروع کر دیا کہ اب انقلاب
ضرورآئے گا ۔ لہذا وہ نئے جوش و جذبے سے ایک نئے لانگ مارچ کی تیاری شروع
کر دیں۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن نے جذبہ انقلاب میں انتقامی جذبات کو بھی شامل کر دیا۔ اس
طرح کارکن ڈنڈو ں سے لیس ہو کر دوبارہ میدان میں اتر آئے ۔
14 اگست کو لاہور سے روانہ ہونے والا قافلہ انقلاب اسلام میں آ کر رکا ۔
حکومت کی ہر طرح کی مخالفت کا مقابلہ کیا۔ پولیس گردی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ کفن پہن کر اپنے عزم اور ولولے کو دنیا کے سامنے
پیش کر دیا۔مقصد انقلاب سے پیچھے ہٹنے والو ں کے لیے مرنے مارنے کی باتیں
ہوتی رہیں ۔اور آخری وقت تک سادہ لوح مگر مخلص کارکنان انقلاب کی راہیں
تکتے رہے۔مگر اب کی بار انہوں کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا قادری صاحب ان
کے جذبات کا خون کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ نجانے قائد انقلاب کے قلب و ذہن
میں فکری انقلاب کب موجزن ہوا اور انہو ں نے کارکنوں کی قربانیوں کو نظر
انداز کرتے ہوئے راتوں رات دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ شاید قادری تو
مطمئن ہوں گے ۔ کہ اب وہ کنٹینر کی زندگی سے آزاد ہو گئے مگر ان کارکن
خواتین و حضرات کے صبر کے پیمانے لبریز ہو گئے جو تبدیلی اور انقلاب کی آس
اپنی نگاہوں میں سجا کر آئے تھے اور اب آنسو بہاتے ہوئے مایوس ، ناکام و نا
مراد ہو کر لوٹ رہے تھے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے دل کو بہلانے کے لیے اور اپنے کارکنوں کے زخموں
پر مرہم رکھنے کے لیے جلسوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اور دوبارہ الیکشن
میں حصہ لینے کا اعلا ن کر دیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی عام لوگ
ان کے جھوٹے وعدوں پہ اعتبار کریں گے۔ جس کرپٹ اور فرسودہ نظا م پر وہ لعنت
بھیجتے رہے ہیں کہ اس نظا م کا حصہ بن کر وہ کچھ حاصل کر پائیں گے؟
بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ دھرنے کی سیاست نے ڈاکٹر قادری کو بند گلی میں
دھکیل دیا تھا اور اب ان کی سیاست دھرنوں نے نگل لی ہے۔ کیونکہ دھرنے کی
ناکامی نے ان کے کارکنو ں کی کمر توڑ د ی ہے اور اپنے کارکنوں کے ساتھ ان
کے سلوک نے عام لوگوں میں ان کی ساکھ کو شدید متاثر کیا ہے۔اگر چہ جلسوں
میں عوا م کی اچھی خاصی تعداد جمع ہو رہی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں
یہ لوگ ان کو ووٹ بھی دیں گے۔ اور وہ الیکشن میں اچھی کارکردگی دکھا پائیں
گے۔
ڈاکٹر قادری کی سیاست کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ وہ مفاہمتی سیاست کے
فن سے نابلد دکھائی دیتے ہیں ۔ دیگر سیاسی قوتوں کو ساتھ ملا کر چلنے کا
ہنر نہیں جانتے ۔ وہ کچھ لو کچھ دو کی پالیسی کی بجائے سب کچھ لو کی پالیسی
کے قائل ہیں یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف جیسی جماعت ان کے ساتھ اتحاد کرنے
سے گریزاں ہے۔ اس صورت حال میں ڈاکٹر طاہر القادری کی سیاست ایک قصہ پارینہ
معلوم ہو رہی ہے ۔ہاں اگر وہ سچ مچ سیاست میں سنجیدہ ہیں اور وہ مستقبل میں
خو د ایک سیاسی لیڈر کی حیثیت سے منوانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے مزا ج اور
اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا پڑے گی اس کے علاوہ اپنے کارکنوں کے
زخموں پہ مرہم بھی رکھنا پڑے گی ۔ بصورت دیگر ایوان اقتدار کی بجائے کینیڈا
کے دروازے ان کے لیے کھلے ہیں۔ |
|