ریاست جموں وکشمیرمیں نیشنل کانفرنس کی قیادت والی نیشنل
کانفرنس۔کانگریس مخلوط سرکارکی چھ سالہ مدت کاخاتمہ ایسے وقت میں ہورہاہے
جب ریاست ایک مشکل دوراوربحرانی صورتحال سے دورچارہے۔گذشتہ ماہ
ستمبر2014میں ریاست جموں وکشمیرمیںآئے غیرمعمولی اورقہرانگیزسیلاب نے پوری
ریاست میں جوتباہی مچائی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔قہرانگیزاورغیرمعمولی سیلاب
کی وجہ سے وادی کشمیرکے علاوہ صوبہ جموں کے پیرپنچال (سرحدی اضلاع راجوری
اورپونچھ )،ادھمپور،ریاسی اورجموں اضلاع میں لوگوں کی قیمتی املاک اوربھاری
تعدادمیں رہائشی مکانات تہس نہس ہوگئے ۔ہزاروں لوگ بے گھرہوکرکھلے آسمان
تلے زندگی گذارنے پہ مجبورہوچکے ہیں،بے سروسامانی کے عالم میں سیلاب
متاثرین کی کثیر تعداد کو بازآبادکاری کامسئلہ درپیش ہے ۔تاہم ریاستی
سرکارنے سیلاب متاثرین کوامدادبہم پہنچانے اوران کی بازآبادکاری کےلئے کچھ
اقدامات اُٹھائے ضرورہیں مگرتباہی اس پیمانے پرہوئی ہے کہ سرکاری طورپرسست
روی سے چل رہی بازآبادکاری کے کام کاچندمہینوں میں مکمل ہوناممکن نہیںبلکہ
سیلاب متاثرین کی بازآبادکاری کےلئے ایک عرصہ درکارہے۔ریاست جموں وکشمیرکے
قہرانگیزسیلاب کی تباہ کاریوں کااندازہ اس بات سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ
ریاست میں 1996 کے بعدقائم ہونے والی تمام سرکاروں کی طرف سے کیے گئے
تعمیری کاموں کے نام ونشان تک سیلاب نے مٹادیئے ہیں۔سڑک رابطے ،پل ،سرکاری
عمارتیں اوردیگرانفراسٹریکچرآناًفاناً میں سیلاب نے اپنے ساتھ بہاکرحکومت
کی کارکردگی اورمحنت کوضائع کردیاہے۔بڑے پیمانے پرسرکاری وغیرسرکاری املاک
کی مالی تباہی کے علاوہ سینکڑوں قیمتی انسانی جانیں بھی سیلاب نے تلف کیں۔
اب جبکہ ریاست میں مخلوط سرکارکی مدت مکمل ہونے کے قریب ہے توایسے میں
الیکشن کمیشن نے بھی اپنے ذمہ عائداہم ذمہ داری کونبھادیا۔الیکشن کمیشن نے
یہ فیصلہ لے لیا کہ ریاست جموں وکشمیرمیں انتخابات وقت مقررہ پرہی ہوں گے
اورانتخابات کےلئے تاریخوں کابھی باضابطہ طوراعلان کردیاہے۔ الیکشن کمیشن
آف انڈیاکی ایک ٹیم نے گذشتہ ہفتے جس کی قیادت کمیشن کے سربراہ و ی ایس
سمپت کررہے تھے نے ریاست جموں وکشمیرمیں انتخابات کرانے یاموخرکرنے سے
متعلق فیصلہ لینے کی خاطرریاست کادورہ کرکے موجودہ صورتحال کاجائزہ لیا۔چناﺅکمیشن
آف انڈیاکی ٹیم نے ریاستی گورنراین این ووہرا،وزیراعلیٰ عمرعبداللہ،اہم
سیاسی پارٹیوں کے لیڈران،اہم سماجی تنظیموں کے علاوہ معززشہریوں سے بات چیت
کی اورسیلاب کے بعدپیداہوئی بحرانی صورتحال پرتفصیلی گفت وشنیدکی ۔اس دورے
کے دوران چناوکمیشن ٹیم نے انتخابی مراکز،چناﺅسے متعلق سامان کوپہنچے نقصان
کی بھی ریاستی سرکارکے ذمہ داران سے جانکاری حاصل کی۔ٹیم نے مختلف علاقہ
جات کے سڑک رابطے بحال ہونے سے متعلق بھی جانکاری حاصل کی تاکہ چناوی دستوں
کوانتخابی مراکزتک پہنچنے اورانتخابات عمل کوپرامن طریقے سے مکمل کرنے میں
دشواریاں نہ آئیں۔چناﺅکمیشن آف انڈیاکوسیکورٹی خدشات سے متعلق آرمی چیف
دلبیرسنگھ سہاگ نے بتایاکہ انتخابات کے دوران عسکرت پسندوں کے حملوں پرروک
لگانی ہوگی اورفوج ہمیشہ کی طرح آئندہ اسمبلی انتخابات کوپرامن ڈھنگ سے
کرانے کےلئے تیارہے۔ریاستی پولیس کے ڈائریکٹرجنرل آف پولیس کے۔ راجندرانے
بھی کمیشن سے کہاکہ ریاستی پولیس اپنی ذمہ داریوں کوحسب سابق احسن طریقے سے
نبھانے کےلئے وعدہ بنداورمکمل طورپرتیارہے اوریہ بھی واضح کیاکہ پرامن چناﺅکرانے
کےلئے اضافی دستوں کی ضرورت پیش آئے گی۔چناﺅکمیشن کی ٹیم کے حالیہ دورے کے
بعدالیکشن مقررہ وقت پرکرانے سے سیلاب متاثرین کے جذبات
کوگہرادھچکالگاہے۔جہاں سیلاب متاثرین کے پاس سردیوں سے بچنے کےلئے کوئی
خاطرخواہ انتظامات نہ ہیں وہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے وقت مقررہ پرالیکشن
کابگل بجادینے سے سیاستدان ٹولامسرت سے جھوم اُٹھاہے کیونکہ سیلاب کی وجہ
سے سیاست پرکچھ وقت کےلئے روک لگ گئی تھی مگرالیکشن کمیشن کے فیصلہ کے
بعدپھرسے سیاسی گہماگہمی شروع ہوگئی ہے ۔سیلاب متاثرین یہ سمجھ رہے ہیں کہ
سیاستدانوں کوان کے دُکھ دردکاکوئی احساس نہیں۔الیکشن کمیشن کوکئی پارٹیوں
نے وقت پر اسمبلی انتخابات منعقد کرنے کامشورہ دیا کیونکہ یہ جماعتیں سیلاب
متاثرین کی پریشانیوں کوپس پشت ڈال کرپہلے سے ہی الیکشن میں کودنے کےلئے
تیار دکھائی دے رہی تھیں تاہم ان سیاسی جماعتوں کو یہ فکر بھی لاحق ہوگئی
ہے کہ جس مشکل ترین صورتحال کا سامنا سیلاب متاثرین کو کرنا پڑرہا ہے ان کے
پاس وہ کس طرح ووٹ مانگنے کےلئے جائیں گے۔ حکمران نیشنل کانفرنس و چند ایک
سیاسی پارٹیوں کو چھو ڑ کر باقی سبھی جماعتوں نے وقت پر الیکشن منعقد کرنے
کی وکالت کی۔نیشنل کانفرنس نے کہاکہ اس وقت ریاست کے سیلاب متاثرین کی
بازآبادکاری کوترجیح دینے کی ضرورت ہے نہ کہ انتخابات کی طرف توجہ دینے
کی۔ایک طرف جہاںکانگریس میں انتخابات کرانے یانہ کرانے سے متعلق اندرونی
طورپرمخمصے کی صورتحال تھی وہیںدوسری طرف اپوزیشن پارٹی بی جے پی اور پی ڈی
پی ہر حال میں فوری انتخابات کے حق میں نظرآئی ۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے
کہ پی ڈی پی کو ایسا لگ رہا تھا کہ موجودہ صورتحال میں وہ وادی کشمیر میں
اچھی خاصی کامیابی حاصل کرے گی جبکہ بی جے پی کو جموں میں فائدہ ملنے کی
امید نظرآرہی ہے۔ اب جبکہ الیکشن کمیشن نے ریاست میں پانچ مرحلوں
میںانتخابات کرانے کاحتمی فیصلہ لے لیاہے ایسے میں عوام کابڑاحلقہ جس
کوسیلاب متاثرین سے گہری ہمدردی ہے کا یہ مطالبہ کہ اسمبلی انتخابات کو کچھ
وقت تک کےلئے موخر کیا جائے ٹھکرادیاگیاہے۔سیلاب متاثرین اوروادی کشمیرکی
اکثریت کا یہ کہنا مانناہے کہ گذشتہ ماہ کے تباہ کُن سیلاب کے حالات سب کے
سامنے تھے کہ کس طرح اب بھی لوگ مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ ایسے میں
الیکشن کمیشن کوچاہیئے تھاکہ وہ سیلاب متاثرین کے جذبات کااحترام کرتا۔ اب
عوام کی کثیرتعدادالیکشن کمیشن کے انتخابات کرانے کے فیصلے کوعوامی خواہشات
کے عین برعکس فیصلہ تصورکررہی ہے ۔عوام کاکہناہے آخرانتخابات کرانے کی اتنی
جلدی بھی کیاتھی،جمہوری عمل میں سب سے زیادہ احترام عوامی رائے
کاہوناچاہیئے تھامگرالیکشن کمیشن نے عوامی رائے بالخصوص سیلاب متاثرین کے
زخموں پہ مرہم لگانے کے بجائے نمک پاشی کاکام کیاہے جوکہ جمہوری اقدارکے
عین مخالف بھی ہے۔عوام کا کہنا ہے کہ جو سیاسی جماعتیں وقت پر الیکشن منعقد
کرنے کی جلدی میں ہیں انہیں عوام کو درپیش مشکلات و مصائب کو بھی دیکھنا
چاہیے تھا۔ عوام کاکہناہے کہ سیلاب نے لوگوں پر جو مصیبتوں کا پہاڑ توڑا ہے
اس کوالیکشن کمیشن نے مدنظرنہیں رکھااورسیاستدانوں کے حق میں فیصلہ
لیکرسیلاب متاثرین کی پریشانیوں کی طرف کوئی توجہ نہ دیکرپریشان حال عوام
کے جذبات کوٹھیس پہنچائی ہے۔ ادھرریاستی ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کے تحت
سیلاب متاثرین سے متعلق دائر کی گئی پٹیشن کی شنوائی کے دوران ریاستی ہائی
کورٹ کے بینچ نے حکومت کو احکامات صادر کرتے ہوئے کہاکہ تباہ کن سیلاب کے
نتیجے میں ٹینٹوں میں رہائش اختیار کرنے والے سیلاب زدگان کو موسم سرما
شروع ہونے سے پہلے تحفظ فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ مفاد عامہ کے تحت
دائر رٹ پٹیشن کی شنوائی کے دوران جسٹس محمد یعقوب میر اور جسٹس مظفر حسین
عطار نے کہاکہ تباہ کن سیلاب کے بعد سیلاب زدگان کھلے آسمان تلے ٹینٹوںمیں
زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ہی سردی میں
اضافہ ہو رہا ہے اور ریاستی حکومت فوری طورپر ایسے افراد کو تحفظ فراہم
کرنے کیلئے کارگر اقدامات اٹھائیں۔بینچ نے کہاکہ اطلاعات موصول ہو رہی ہیں
کہ سیلاب متاثرہ علاقوںمیں لوگ ٹینٹوںمیں زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں
اور سردی میں اضافہ ہونے کے باعث ٹینٹوں اورکھلے آسمان تلے مجبوری
اورلاچاری کی زندگی گذاررہے لوگوں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں ۔ہائی کورٹ
نے سیلاب متاثرین کے ساتھ ہمدردی کااظہارکرتے ہوئے موسمی حالات کو مد نظر
رکھتے ہوئے احکامات صادرکیے کہ حکومت فوری طور پر ٹینٹوں میں زندگی گزارنے
والوں کو مکمل تحفظ فراہم کریں اوراب تک سیلاب متاثرین کی بازآبادکاری
کےلئے اُٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات پیش کی جائیں۔ہائی کورٹ کی جانب سے
سیلاب متاثرین کی حالت زاربیان کرنے سے ہرکس وناکس کواندازہ ہوجاتاہے کہ
سیلاب متاثرین کس قدرمشکلات سے دوچارہیں اورالیکشن کمیشن آف انڈیاکی جانب
سے انتخابات وقت پرکرانے کے فیصلے سے متعلق سیلاب متاثرین کوجوخدشات لاحق
ہیں وہ بجاہیں،ہرکوئی یہ سوچنے پرمجبورہے کہ کیاالیکشن کمیشن نے انتخابات
وقت پرکرانے کافیصلہ صحیح ہے یاغلط ۔عوام کااکثریت کایہی خیال ہے کہ الیکشن
کمیشن آف انڈیاکافیصلہ غیرجانبدارانہ نہیں ہے بلکہ سیاسی ٹولے کوخوش رکھنے
کےلئے عوامی جذبات کااحترام کیے بغیریکطرفہ فیصلہ لیا۔اب جبکہ الیکشن کمیشن
نے یہ فیصلہ لے ہی لیاہے کہ انتخابات وقت مقررہ پرکرائے جائیں گے توایسے
میںالیکشن کمیشن پریہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ اس بات کوملحوظ خاطررکھے
کہ انتخابی عمل کااثرراحت وبازآبادکاری کے کاموں پرنہ پڑے ۔چناﺅکمیشن کو
تمام پہلوﺅں پرغورکرناچاہیئے تاکہ وہ انتخابات وقت پرکرانے کے فیصلے سے
پیداشدہ خدشات کودورکرسکے اورکہیں کمیشن کایہ فیصلہ سیلاب متاثرین کی
پریشانیوں میں اضافہ کاسبب نہ بنے اورسیاستدانوں کے حق میں لیاگیافیصلہ
ثابت نہ ہوجائے؟۔اگرانتخابی عمل کی وجہ سے سیلاب متاثرین کو امدادفراہمی کے
عمل میں رکاوٹیں درپیش آئیں اورسیلاب متاثرین کی پریشانیوں میں اضافہ
ہواتویہ سمجھاجائے گاکہ الیکشن کمیشن کافیصلہ واقعی غیرموزوں تھا۔بہرحال
الیکشن کمیشن کافیصلہ کس قدرمناسب یاغیرمناسب ہے اس کافیصلہ وقت ہی کرے
گا۔الیکشن کمیشن کویہ دھیان میں رکھناچاہیئے کہ ریاست جموں وکشمیرمیں
انتخابی عمل ہمیشہ ہی کافی اہم رہا ہے ۔اس حساس خطہ جموں وکشمیرکے چناوی
عمل پرنہ صرف پڑوسی ممالک کی گہری نگاہ رہتی ہے بلکہ عالمی برادری بھی
ریاست میں ہونے والے انتخابات پرعقابی نظررکھتی ہے۔الیکشن کمیشن آف انڈیاکو
ریاست کے موجودہ حالات کے پیش نظرتمام ترباریکیوں کودھیان میں رکھناچاہیئے
تاکہ ریاست میںانتخابی عمل سیلاب متاثرین کی بازآبادکاری پراثراندازنہ
ہواورساتھ میں انتخابات نہ صرف پرامن ہوں بلکہ ان کی شفافیت پربھی کوئی
سوال نہ اُٹھاسکے۔ |