”نیلوفر“ طوفان میں شدت....ساحلی علاقوں میں تباہی کے خطرات

پاکستان کے جنوبی ساحلی علاقوں سے چند سو کلو میٹر دور پہنچ جانے والے سمندری طوفان ”نیلوفر“ سے پاکستان اور بھارت میں آئندہ چند گھنٹوں کے دوران تباہی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق پاکستانی ساحلی علاقوں کی صورتحال جمعے تک خطرناک ہوسکتی ہے، جس کے پیش نظر سندھ اور بلوچستان کے ماہی گیروں کو کھلے سمندر میں جانے سے روکا گیا ہے اور جو پہلے ہی کھلے سمندر پر موجود ہیں، انہیں واپسی کی ہدایت کی گئی ہے۔ نیلوفر جسے ”انتہائی شدید سمندری طوفان“ قرار دیا گیا ہے، ہوسکتا ہے کہ زمین سے ٹکرانے سے پہلے کمزور ہوجائے۔ ماہرین کے مطابق سمندری طوفان جمعہ کی صبح بھارت اور پاکستان کے ساحلی علاقوں سے ٹکرائے گا۔ طوفان کا ”مرکز بھنور (آئی آف دی اسٹورم)“ پاکستان میں شاہ بندر کے قریب واقع بھارتی علاقے جاکھن پرلینڈکرے گا اور اس کے زیر اثر بھارتی ریاست گجرات کے ساحلی علاقوں، جبکہ پاکستان سندھ میں ننگر پارکر، مٹھی، چھور، عمرکوٹ، چھاچھرو، اسلام کوٹ میں زبردست طوفانی ہواﺅں کے ساتھ 100 سے 150 ملی میٹر بارش کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے اور کراچی، ٹھٹھہ، جاتی، کیٹی بندر اور بدین میں بھی انتہائی تیز ہواﺅں کے ساتھ موسلا دھار بارشوں کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ بارشوں کا سلسلہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں تک پھیلے گا، جبکہ سندھ کے ساحلی علاقوں میں سیلاب کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ موسمیاتی جائزوں کے مطابق نیلوفر طوفان کیٹیگری ”تھری“ اور جمعرات کو مزید کمی کے ساتھ ”ٹو“ اور پھر ”ون“ کے طوفان میں تبدیل ہو جائے گا، تاہم اس میں بھی طوفانی ہواﺅں کی رفتار 150 کلو میٹر فی گھنٹہ تک ہوگی۔ ڈائریکٹر محکمہ موسمیات کے مطابق نیلوفر طوفان جمعرات کو رات میں کراچی کے جنوب میں 250 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہوگا، اس وقت کراچی میں تیز ہوائیں چلیں گی اور بارش ہوگی۔ کراچی میں محکمہ موسمیات کے سربراہ توصیف عالم کا کہنا ہے کہ سمندری طوفان نیلوفر، پھیٹ نامی سمندری طوفان کی مانند ہے، جو 2010ءمیں سندھ سے گزرا تھا، جبکہ 2007ءمیں آنے والا بہت بڑا سمندری طوفان سب سے زیادہ تباہ کن تھا، جو ساحلی علاقوں میں تیز موسلا دھار بارشوں کا سبب بنا تھا اور بلوچستان کے کچھ علاقوں کو ملک کے باقی حصے سے کاٹ کر رکھ دیا تھا۔ اس طوفان سے کیٹی بندر اور ٹھٹھہ کے علاقے بھی متاثر ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ سمندری طوفان کا نام سمندری طوفانوں کی نگرانی کرنے والی دنیا کی پانچ تنظیموں کے رکن ملکوں کی جانب سے رکھا جاتا ہے۔ اس سمندری طوفان کو ”نیلوفر“ کا نام پاکستانی محکمہ موسمیات کی جانب سے دیا گیا ہے۔ پاکستان شمالی بحر ہند کے ناموں کی فہرست میں شامل ہیں، اس کے دیگر رکن ملکوں میں بنگلادیش، انڈیا، میانمار، اومان، سری لنکا اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔

نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے ترجمان کے مطابق ہم نے صوبائی سطح پر ماہی گیروں کو انتباہ جاری کیا ہے کہ وہ آئندہ چند روز تک کھلے سمندر میں شکار کے لیے جانے سے گریز کریں۔ جبکہ بلوچستان میں صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل نے دعویٰ کیا ہے کہ مکران ڈویژن میں کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ضروری انتظامات کرلیے گئے ہیں۔ مکران ڈویژن میں امدادی سامان پہنچا دیا ہے اور ہم شدید بارشوں سے پیدا ہونے والی کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔ دوسری جانب کراچی اور سندھ کی صوبائی انتظامیہ نے طوفان کے بعد کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے منصوبہ تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے سندھ کے مطابق ساحلی پٹی پر طوفان سے تین لاکھ کے لگ بھگ افراد متاثر ہوسکتے ہیں۔ کراچی، ٹھٹھہ، سجاول اور بدین میں دفعہ 144 کا نفاذ کر دیا گیا ہے اور متعلقہ اداروں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ ساحلی پٹی سے ملحقہ اضلاع کے ہسپتالوں میں بھی ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا گیا ہے اور عملے کی تعطیلات کو منسوخ کر دیا گیا ہے، جبکہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ساحلی علاقوں سے فوری طور پر ماہی گیروں کو منتقل کرنے کے اقدامات پر بھی بات چیت کی جا رہی ہے۔ ساحلی علاقوں کے رہائشیوں کو کیمپس میں رکھنے کی بجائے حکومتی عمارات میں رہائش فراہم کی جائے گی، تاکہ وہ بارشوں اور گردآلود ہواﺅں سے محفوظ رہیں، جبکہ متاثرہ افراد کو تمام ضروری سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی۔ پی ڈی ایم اے سندھ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ مقامی انتظامیہ کو بھی الرٹ رہنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔ کمشنر کراچی شعیب صدیقی نے پاکستان فشر فورک فورم اور دیگر این جی اوز سے درخواست کی ہے کہ وہ ماہی گیروں سے رابطہ کرکے انہیں احتیاطی اقدامات کے لیے اپنانے کا مشورہ دیں اور کنٹونمنٹ بورڈ اور بلدیاتی حکام بھی خطرناک اور بے کار سائن بورڈز کو فوری طور پر ہٹا دیں، تاکہ سمندری طوفان کے دوران وہ کسی سانحے کا سبب نہ بن سکیں۔ ایم سی، ضلعی بلدیاتی اداروں اور دیگر متعلقہ حکام بھی دفعہ 144 کے نفاذ پر عملدرآمد یقینی بنائیں اور سمندر میں نہانے پر پابندی برقرار رکھی جائے۔

پاکستانی فشرفوک فورم کے چیئرپرسن محمد علی شاہ نے این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے، ڈی ڈی ایم اے اور دیگر حکومتی اداروں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے سانحات کے خطرات کے باوجود تباہی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کسی قسم کی منصوبہ بندی اور مناسب انتظامات نظر نہیں آتے۔ حکومت کی جانب سے کوئی بھی کشتیوں اور عملے کی مدد کرتا نظر نہیں آتا، ان کے پاس کوئی نظام نہیں، اس کے مقابلے میں وہ بس پی ایف ایف سے ہی تعاون کی درخواست کرتے ہیں۔ پی ایف ایف برادری کے رضاکار ساحلی پٹی پر ماہی گیروں کو خبردار کرنے کے لیے سرخ جھنڈوں کو لہراتے ہیں، مگر حکومتی انتظامیہ کی جانب سے اس حوالے سے کسی قسم کی مدد اور سہولیات فراہم نہیں کی جاتی۔ اب تک کسی حکومتی نمائندے نے اس کے گاﺅں کا دورہ نہیں کیا اور نا ہی انخلا کے انتظامات دیکھنے میں آئے ہیں۔ ماہی گیر گاﺅں کے رہائشیوں نے طوفان کے پیش نظر اپنی کشتیاں اور چھوٹے جہاز اپنی مدد آپ کے تحت نسبتاً محفوظ علاقوں میں منتقل کر دیے ہیں۔ 23 ساحلی بستیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں، ان بستیوں کے مکین حکومت کی جانب سے حفاظتی اقدامات نہ کیے جانے کی وجہ سے سخت پریشانی کا شکار ہیں، جن کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ ان حالات میں حکومت سندھ کی نا اہلی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اسپیکر سندھ اسمبلی طوفان کے معاملے کو سنجیدگی سے لینے پر تیار نہیں۔ منگل کو سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایک رکن اسمبلی نے کہا کہ طوفان کی آمد کے پیش نظر حکومت کو احتیاطی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، تو اسپیکر سراج درانی نے ان کی بات کو مذاق میں اڑاتے ہوئے کہا کہ یہ تو کسی لیڈی کا نام ہو سکتا ہے اور اسپیکر سندھ اسمبلی کا کہنا تھا کہ جب تک سمندر کنارے عبداللہ شاہ غازی کا مزار ہے، کراچی کو کچھ نہیں ہوسکتا۔ عبداللہ شاہ غازی کے مزار کی وجہ سے آج تک بچتے آئے ہیں اور انشااللہ اس مرتبہ بھی بچیں گے اور جن لوگوں کو طوفان کا خوف ہے وہ اندرون سندھ چلے جائیں۔ مبصرین کے مطابق قدرتی آفات کا مقابلہ کرنا اگرچہ ممکن نہیں، لیکن پیشگی حفاظتی انتظامات کر کے قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ بارشیں، سیلاب، زلزلے اور طوفان ساری دنیا میں آتے ہیں، بیشتر ممالک مثلاً یورپ وغیرہ میں قدرتی آفات کی وجہ سے نقصانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں، وہاں بڑے بڑے طوفان بھی آتے ہیں تو جانی نقصان بہت کم ہوتا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ پیشگی حفاظتی انتظامات کر لیتے ہیں، لیکن پاکستان میں حکومتوں کی جانب سے پیشگی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے زلزلوں، بارشوں، سیلابوں اور طوفانوں بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے اور حکومتیں ان نقصانات سے بچنے کی کوئی سبیل نکالنے کی کوشش کرنا بھی گوارا نہیں کرتیں۔ موجودہ طوفان کے پیش نظر حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ پیشگی انتظامات کرتے ہوئے فوری طور پر حساس علاقوں کا تعین اور وہاں سے عوام کی فوری منتقلی کا انتظام کیا جائے، لیکن ابھی تک حکومت کی جانب سے کوئی حفاظتی انتظامات دیکھنے میں نہیں آرہے، بلکہ یہاں بھی اسی قسم کی کوتاہی برتی جا رہی ہے جیسی کوتاہی تھرپارکر میں برتی گئی ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636576 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.