پاکستانی دنیا میں کہیں بھی چلے
جائیں، اپنی روایتی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ
بیرون ملک مقیم پاکستانی ہمارے مقابلے میں زیادہ مہذب ہیں، انہیں ملک کی
عزت کا ہم سے کہیں زیادہ احساس ہوتا ہے، اس لیے وہ لوگ قدم قدم پر ملک کے
وقار کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ سب ہوائی باتیں ہیں، امریکا اور یورپ میں بسنے
والے پاکستانی کی بھی وہی عادتیں ہیں جو ہماری ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ہم
آزاد لوگ ہیں، کسی قانون کو کھاتے میں نہیں لاتے، جو دل چاہتا ہے کرگزرتے
ہیں، مگر بیرون ملک بسنے والا پاکستانی قانون کے خوف سے اصل ’’پاکستانیت‘‘
کا مظاہرہ کبھی کبھار ہی کرپاتا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے میں نے یہ کیا پاکستانیوں کی قلمی غیبت شروع کردی ہے،
دراصل اتوار کے روز لندن میں ہونے والے واقعے نے بہت دکھی کردیا ہے۔
پاکستانی وہاں بھی ’’پاکستانیت‘‘ کا مظاہرہ کرنے سے باز نہیں آئے، جس سے
پاکستانی کمیونٹی کا سر شرم سے جھک گیا ہے، بلکہ سر پیروں میں آلگا ہے۔ 27
اکتوبر کا دن کشمیر کے حوالے سے خصوصی اہمیت رکھتا ہے، 1947ء میں اسی روز
بھارتی افواج ایک جھوٹی دستاویز کی بنیاد پر کشمیر میں داخل ہوئی تھیں اور
اس پر قبضہ جمالیا تھا، کشمیری اس روز کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں،
پاکستانی اور کشمیری چونکہ یک جان ہیں، اس لیے پاکستانی بھی اس روز کشمیری
بھائیوں کے ساتھ جلسے، جلوسوں اور مظاہروں میں شریک ہوتے ہیں۔
مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت کی گیدڑ بھبکیوں میں اضافہ ہوا ہے تو
ردعمل کے طور پر کشمیریوں نے بھی نئی انگڑائی لی ہے۔ کشمیریوں کی ایک بڑی
تعداد برطانیہ میں مقیم ہے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ عالمی برادری کی توجہ
مسئلہ کشمیر کی طرف مبذول کرانے کے لیے یوم سیاہ کے موقع پر لندن میں ملین
مارچ کا اہتمام کیا جائے۔ بڑے جوش وخروش سے اس مارچ کی تیاریاں کی گئیں،
ہزاروں کشمیری اور پاکستانی اس مارچ میں شریک ہوئے، مگر ایک واقعے نے سارا
مزا کرکرا کردیا۔ ہوا یوں کہ بلاول زرداری جب اسٹیج پر آئے تو مارچ میں
شریک بہت سے لوگ انہیں دیکھ کر مشتعل ہوگئے، بعض افراد نے پیپلزپارٹی کے
چیئرمین پر پانی کی بوتلیں اور ٹماٹر پھینکے، جس کی وجہ سے اسٹیج پر بدنظمی
پھیل گئی۔ صورت حال پر قابو پانے کے لیے برطانوی پولیس کو اسٹیج پر آنا پڑا،
پولیس اہلکار بلاول اور ان کی بہنوں کو اسٹیج سے اتارکر محفوظ مقام پر چھوڑ
آئے۔ بدنظمی کا اندازہ آپ اس سے لگاسکتے ہیں کہ دھکم پیل کے نتیجے میں
پیپلزپارٹی کے رہنما بیرسٹر سلطان محمود اسٹیج سے نیچے جاگرے، جس کی وجہ سے
ان کا ایک ہاتھ بھی ٹوٹ گیا۔ پولیس کو اسٹیج کا مکمل کنٹرول دیا گیا، جس کے
بعد جلسے کی کارروائی آگے بڑھی۔
یہ ملین مارچ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے کیا گیا تھا مگر ہماری
سیاست بازی کشمیر پر حاوی ہوگئی، عالمی میڈیا نے کشمیر کی بجائے جلسے میں
ہونے والی بدنظمی پر فوکس رکھا، خاص طور پر بھارتی حکومت اور وہاں کا میڈیا
خوب بغلیں بجا رہا ہے۔ بھارتی حکومت مارچ سے بہت پریشان تھی، بھارتی وزیر
خارجہ نے باضابطہ طور پر برطانوی ہم منصب سے مارچ کو روکنے کی استدعا کی
تھی، مگر برطانوی حکام نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا۔ بھارت کو علم تھا
کہ اگر ہزاروں لوگ لندن میں نکلیں گے تو عالمی برادری تک ان کی آواز ضرور
پہنچے گی مگر اس کے باوجود وہ مارچ نہ رکواسکا لیکن اپنے ہی لوگوں کی سیاست
بازی نے مارچ کو ٹھس کردیا۔
آصفہ زرداری نے بیان دیا ہے کہ مارچ میں بدنظمی کرنے والے بھارتی ایجنٹ تھے،
ہمیں سچائی کا سامنا کرنا چاہیے۔ کام تو واقعی ایجنٹوں والا ہے، مگر یہ لوگ
بھارتی نہیں اپنے ہی گندے انڈے تھے۔ ہم لوگوں کو اپنے قومی ایشوز کو بھی
ذاتی مفادات کی عینک سے دیکھنے کی عادت ہے، پاکستان میں سارا دن یہی کچھ
ہوتا ہے اور بیرون ملک پاکستانی بھی تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں۔ وہاں بھی
سیاسی دھڑے بندیاں عروج پر ہیں، ہر شخص لیڈر ہے، خاص طور پر جو شخص تھوڑا
سا سیٹ ہوجائے اپنا سیاسی دھڑا بنانے میں لگ جاتا ہے۔ کشمیر ڈے ہو، یوم
آزادی ہو، رمضان یا عیدین ہوں، پاکستانیوں میں گروپ بندیاں ہر موقع پر
نمایاں ہوتی ہیں۔ لندن واقعہ بھی اسی طرح کی گروپ بندیوں کا نتیجہ ہے۔
شرپسندوں نے جو گھٹیا حرکت کی اس کی مذمت ہورہی ہے، مگر جلسے کے منتظمین کو
بھی کلین چٹ دینا مناسب نہیں۔ آزاد کشمیر میں ان دنوں پیپلزپارٹی کی حکومت
ہے، لندن مارچ عملاً آزاد کشمیر حکومت کی سرپرستی میں ہورہا تھا، ان لوگوں
نے ظلم یہ کیا کہ اسے صرف پیپلزپارٹی کا شو بنادیا، حالانکہ مارچ سے قبل یہ
تاثر دیا جارہا تھا کہ یہ جلسہ کسی ایک جماعت کا نہیں، بلکہ پوری پاکستانی
اور کشمیری کمیونٹی کا ہے۔ اسی لیے ہر مذہبی اور سیاسی گروہ سے وابستہ
افراد جوق درجوق مارچ میں آئے، مگر جب انہیں وہاں پہنچ کر پتا چلاکہ اسٹیج
کو تو پیپلزپارٹی نے ہائی جیک کرلیا ہے، تو وہ مشتعل ہوگئے۔ اگر منتظمین
بلاول کے ساتھ ساتھ دیگر پارٹی قائدین کو بھی مدعو کرلیتے تو اس سے مارچ کی
آواز مزید توانا ہوتی لیکن زیادہ ہوشیار بننے کے چکروں میں انہوں نے جگ
ہنسائی کا سامان فراہم کیا۔
بیرون ملک پاکستانیوں کا سب سے بڑا شہر لندن ہے، اسی حساب سے یہاں پاکستان
کی تقریباً ساری ہی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی شاخیں قائم ہیں۔ پاکستان کی
طرح یہاں بھی ہر جماعت کے کئی کئی گروپ ہیں۔ حب الوطنی نہ سہی، کم ازکم عقل
مندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ قومی دنوں کے موقع پر اجتماعی پروگراموں کو
فروغ دیا جائے، اس سے صرف پاکستان ہی نہیں وہاں بسنے والے پاکستانیوں کی
بھی عزت میں اضافہ ہوگا۔ ملین مارچ تو ماضی کا حصہ بن گیا، اس کے جو برے
اثرات وہاں کی کشمیری وپاکستانی کمیونٹی اور مسئلہ کشمیر پر پڑے ہیں، اس کے
تدارک کی کوئی راہ ضرور تلاش کرنی چاہیے۔
بیرون ملک پاکستانیوں میں جو تقسیم پائی جاتی ہے، اس پر پاکستانی سیاست
دانوں کو بھی کچھ سوچنا چاہیے، اوورسیز پاکستانی ان جماعتوں کے لیے فنڈنگ
کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ جب کوئی سیاسی یا مذہبی رہنما بیرون ملک جاتا ہے تو
وہاں مقیم پاکستانی اس کی آؤبھگت کرتے ہیں، مگر یہ رہنما آتے ہوئے انتشار
ان کی جھولی میں ڈال آتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی کے اخبارات
پر نظر ڈالیں تو آدمی دل تھام کر رہ جائے۔ آدمی سوچنے لگتا ہے کہ یہ لوگ
لڑنے جھگڑنے کے علاوہ بھی کوئی کام کرتے ہیں یا نہیں۔ وہاں لوگ جتنے زیادہ
تقسیم ہوں گے، جتنے زیادہ گروپ بنیں گے، ان رہنماؤں کو اتنا ہی زیادہ فائدہ
ہوتا ہے، مگر یہ فائدہ ملک کے لیے سراسر گھاٹا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو بیرون
ملک مرغالڑائی رکوانے کے لیے کوئی نہ کوئی طریقہ ضرور اختیار کرنا چاہیے۔ |