پاکستان میں جاری حکومت مخالف
دھرنے حکومت گرانے کے بلند و بانگ نعرے اور پھر ایک دھرنا پارٹی کے سربراہ
کا دھرنا ختم کرنے بیرون ملک جانے کا سن کر مجھے نہ جانے کیوں چانکیہ اور
میکاولی یاد آگئے،چانکیہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بادشاہ کے دربار میں
گیا اور اس نے حکومت کی خامیاں گنوانا شروع کر دیں اور اس کے بعد بادشاہ کو
مشورہ دیا کہ اگر اسے وزیر اعظم بنا دیا جائے تو وہ ریاست کی تمام خرابیاں
دور کر سکتا ہے ،بادشاہ نے اس سے کہا کہ اس کا فیصلہ کل کریں گے لہذہ وہ آج
آرام کرے ،بادشاہ نے خدمت گزاروں کو اسے مہمان خانے میں لے جانے کا کہا ،وہ
بادشاہ اور درباریوں کی نگاہوں کامفہوم بھانپ چکا تھا کہ آج رات ہی اسے قتل
کر دیا جائے گا لہذہ وہ فرار ہو گیا اور ایسی جگہ پہنچا جہاں زہریلی گھاس
اگی ہوئی تھی اور وہ گھاس اتنی زہریلی تھی کہ انسان اسے چھوتے ہی مر جاتا
اس نے اپنے سامان کے تھیلے سے گڑ نکالا اور اس کا شیرہ بنا کر گھاس کی جڑوں
میں ڈال دیا ایک شخص یہ دیکھ رہا تھا اس نے اس سے پوچھا کہ تم نے یہ کیوں
کیا؟َاس نے کہا کہ میں نے زہریلی گھاس کی جڑوں میں شیرہ ڈال دیا ہے ابھی
چیونٹیاں آئیں گی اور جب وہ شیرہ نوچیں گی تو اس کے ساتھ گھاس کی جڑیں بھی
کھود دیں گی اور اس کے بعد اس گھاس کو دھوپ سکھا دے گی اور ہوا اڑا کر لے
جائے گی اس کے بعد اس کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ملے گا ،وہ شخص جس نے
سوال کیا تھا وہ اسی سلطنت کا ولی عہد تھا اور گھاس کی جڑوں میں شیرہ ڈالنے
والے کو تاریخ چانکیہ کے نام سے جانتی ہے،چانکیہ کا دور حضرت عیسیؑ سے ایک
سو پچاس برس پہلے کا تھا مگر اس کے باوجود اس کی کتاب ’’ارتھ شاستر‘‘آج بھی
اصل حالت میں موجود ہے ،چانکیہ کے بعد اس کے روحانی شاگرد میکاولی نے اپنی
مشہور زمانہ تصنیف میں ’’دا پرنس‘‘ لکھی،داپرنس میں میکاولی لکھتا ہے کہ
ایک سیاستدان کو عوام میں ایسا مقبول ہونا چاہیے کہ وہ دن کو رات کہے تو
قوم مان لے۔لیڈر کو شعلہ بیان مقرر،مذہبی ملمع کار،اور عوام کو سبز باغ
دکھانے والا ہونا چاہئیے۔
ہمارے سارے سیاستدان نہ صرف چانکیہ اور میکاولی کی پیروی کرتے ہیں بلکہ
اکثریت کے بارے میں تو مشہور ہے کہ وہ میکاولی کی مشہور زمانہ کتاب داپرنس
تکیہ کے نیچے رکھ کر سوتے ہیں،انہی سیاستدانوں کی حکمت کے طفیل قوم ہر شہر
میں موت اور خوف کا راج ہے ،اورعوام نان شبینہ کے محتاج ہو چکے ہیں اور وہ
آئے دنوں سیاسی افق پر ہونیوالے تماشوں کو دیکھتے رہتے ہیں۔کسی کو فکر ہی
نہیں کہ ملکی افق پر کیا ہو رہا ہے ؟کیو ں ہو رہا ہے ،ساری قوم ہاتھ پر
ہاتھ دھرے بیٹھی ہوئی ہے ، اور جب افلاس، ناداری، بیکاری، ہوشربا مہنگائی ،معاشی
پسماندگی اور انتشار کا شکار قوم اپنے حال پر صبر کر کے بیٹھ جائے تو اس
معاشرے میں انقلاب نہیں عذاب آتے ہیں اور آج پاکستانی قوم بم دھماکوں اور
اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کی شکل میں اس عذاب کا سامنا کر رہی
ہے بدامنی مہنگائی اور غربت نے مڈل کلاس خصوصاغریب طبقے کو زندہ درگور کر
دیا ہے، ملک میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کا یہ عالم ہے کہ رواں مہینے
300سے زائد خاک نشینوں کا لہو زرق خاک ہو چکا ہے دوسری طرف مہنگائی کی یہ
صورتحال ہے کہ ٹماٹر ،انڈو،گوشت، آٹا، چاول اور سرخ مرچ کی قیمتوں میں
22.53فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ملک میں نظام تعلیم عملا برباد ہو گیا ہے ، نجی
تعلیمی اداروں نے ملک میں تعلیم کو کاروبار بنا کر رکھ دیا ہے ،یہ تعلیم کے
سوداگر اپنی جیبیں بھرنے کیلئے نوجوان نسل کا مستقبل تباہ کر رہے ہیں مگر
ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں دوسری جانب گرانفروشوں کا جب دل چاہے اشیائے
خوردونوش کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کردیتے ہیں اور انہیں روکنے والا
کوئی نہیں ہوتا جبکہ امن و امان کی ناقص صورتحال سے بے نیاز، عوامی مسائل
کے بے بہرہ سیاستدان حسب معمول اپنے مشغلوں یعنی دوسروں کی حکومت گرا کر
اپنی حکومت قائم کرنے اور حزب اقتدار اپنی حکومت قائم رکھنے کی فکر میں لگی
ہوئی ہے ،دھرنوں کی سیاست نے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔مگر
اس کے باوجود تمام سیاستدان یہ شور کر رہے ہیں کہ ملک ترقی کر رہاہے اور
عوام باشعور ہورہے ہیں
وطن عزیز کی آج جو صورتحال ہے اور جو مسائل ہیں ان کا حل ہمارے سیاستدانوں
کے پاس ہے ہی نہیں،انہوں نے ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ اب واپسی کا
کوئی راستہ نہیں ہے ،اسلام کے نام پر قائم ہونیوالے اسلامی جمہوریہ پاکستان
کے آئین کی تمہید میں یہ تحریر ہے کہ پاکستان میں جمہور کی منشا ہے کہ ایسا
نظام قائم کیا جائے جس میں مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب
کردہ نمائندوں کے ذریعے استعمال کریگی۔ مگر عملا حالات اس کی مکمل نفی کرتے
ہیں آج پارلیمانی انتخابات پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا کاروبار ہیں جو
جتنی سرمایہ کاری کرتا ہے اس کے جیتنے کے امکانات اتنے ہی روشن ہوتے ہیں ،چور،
ان پڑھ، غنڈہ، اسمگلر،ڈاکو و موروثی سیاستدان غنڈہ گردی ،دھونس و دھاندلی
اور جعلی ووٹ بھگتا کر اسمبلی میں جاتے ہیں اور قانون سازی کرتے ہیں ،یہاں
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ایک ان پڑھ جرائم یافتہ شخص جو کہ کسی سرکاری
دفتر میں چپراسی کی ملازمت کا اہل نہ ہو وہ اسمبلی میں جا کر ملک و قوم
کیلئے قانون سازی کرتا ہے ،اس قانون کی تشریح کرنا عدلیہ کا م ہوتا ہے ،جو
قانون ان پڑھ، چور، اسمگلر، ڈاکو و قومی لٹیرے بناتے ہیں اس کی تشریح کر کے
عدلیہ عوام کو کس طرح ریلیف دے سکتی ہے؟ اس لئے ہمیشہ مقدمات بھی سالوں
التوا کا شکار رہتے ہیں اور عوام انصاف کی خاطر دربدر کی ٹھوکریں کھاتے
رہتے ہیں ، اور ججز کو چونکہ اپنی نوکری پیاری ہوتی ہے اس لئے وہ ہمیشہ
نظریہ ضرورت کو فروغ دیتے ہیں ، جس کی واضح مثال سپریم کورٹ میں زیر سماعت
مشرف کا غداری کیس ہے،کیا دو جڑواں بچوں میں ایک جائز اور دوسرا ناجائز ہو
سکتا ہے؟اگر نہیں تو جنرل․(ر) پرویز مشرف کے جاری کردہ پہلے پی سی او اور
ایل ایف او جائز اور آخری ناجائز کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ اپنی نوکری بچانے اور
عوام کو الجھانے کی ایک چھوٹی سی مثال ہے،عدلیہ شروع دن سے ہی ایسے فیصلے
دیتی آئی ہے جس سے طبقہ اشرافیہ کو ریلیف ملے اور عام آدمی ذلیل و خوار ہو
،،پارلیمنٹ سے قانون بننے کے بعد اس کی تشریح کرنا انتظامیہ کا کام ہوتا ہے
،بیوروکریٹس کو چونکہ اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں انہیں پیسہ اور ترقی درکار
ہوتی ہے اس لئے وہ عوام کا استحصال کرتے ہیں ،اپنے مفادات کی خاطر وہ عوام
کو ایک فائل سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور اشرافیہ کے مفادات کی تکمیل کرتے
ہیں اور انہیں بھرپور تحفظ فراہم کرتے ہیں ،انتظامی امور میں قانون نافذ
کرنے کی بنیادی اکائی کا ادنی ترین اہلکار یعنی ایک پولیس اہلکار ریاستی
وردی میں وہ طاقت رکھتا ہے فرعون، چنگیز خان اور ہلاکو خان بھی اگر زندہ
ہوتے تو اس پر رشک کرتے۔یہ وطن عزیز کے بارے میں ایک کڑوا سچ ہے مگر یہ
حقیقت ہے اور حقیقت کسی بھی صورت تبدیل نہیں ہوتی ،سیاستدانوں کی بے غیرتی
، قوم کی بے عملی اور بے حسی نے ملک کو آج ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے
جہاں سے آگے بڑھنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔آج ملک و قوم کا ہر طبقہ
اخلاقی زوال کا شکار ہو چکا ہے۔ اسلامی افکار اور اقدار کا ہر آئے روز
جنازہ نکل رہا ہے۔ قومی خودمختاری، غلامی میں ڈھل چکی ہے۔ غربت کے ہاتھوں
ہر آئے روز خود کشیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور اب قوم کو دیانت امانت اور
حب الوطنی کا درس دینے والے اور اپنے آپ کو ریاست کے چوتھے ستون کے طور پر
متعارف کروانے والے میڈیا کے بھی کئی چہرے بھی بے نقاب ہو چکے ہیں، مفادات
اور پیسے کے کھیل نے قوم کے اس چہرہ کو بھی داغدار کر دیا ہے۔ یہ اجتماعی
زوال اس لئے ہے کہ عوام کی اجتماعی سوچ، انفرادی سوچ میں ڈھل چکی ہے۔
مہنگائی نے عوام کی سوچ کو قومی مسائل کی طرف دیکھنے سے محروم کر دیا ہے۔
عوام کی بے حسی، بے غرضی، چشم پوشی، مفاد پرستی اور اپنے حقوق سے لاعلمی اس
کرپٹ اور فرسودہ نظام کی بقا کا باعث بن رہی ہے۔ کیا ہم اس کرپٹ اور فرسودہ
سیاسی نظام اور نظام انتخابات کے ذریعے ہی نجات کو تلاش کرنے کی کوشش کریں
گے یا نظام کو بدلنے کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کریں گے۔ اگر ہم نے ملک و
قوم کی تقدیر اسی نام نہاد جمہوری نظام کے ساتھ وابستہ کر دی تو ہمیں اس
پہلو پر ضرور سوچنا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری آنے والی نسلیں
ہمارے خلاف تاریخ کی عدالت میں ہماری نااہلی کی گواہی دیں۔ |