قوم کے لئے 16دسمبر 1971مایوسی
اور16 دسمبر2009 خوشی کا دن ہے
اَب زندہ ہوگیا ملک میں واقعی انصاف زندہ ہوگیا
یہ دسمبر کا مہینہ ہے اور دسمبر کے مہینے کو پاکستان میں خاص کر ایک لحاظ
سے بڑا مایوس کن مہینہ تصور کیا جاتا ہے مگر میرے نزدیک یہ ضروری نہیں ہے
کہ کسی بھی ملک اور قوم کے لئے ہمیشہ کوئی ایک ماہ اپنی ایک جیسی تاریخ میں
ہر بار ایک جیسے مایوسی اور خوشی کے حوادث لیئے خود کو دہرائے ہماری قوم کو
آج بھی 16دسمبر 1971 کا وہ افسوسناک سانحہ یاد ہے جب ہمارا ایک حصہ مشرق
پاکستان ہم سے کٹ گیا تھا جبکہ اِسی ماہ کی اِسی تاریخ کو گزشتہ دنوں این
آر او کے خلاف سپریم کورٹ کے آنے والے تاریخ ساز فیصلے کے بعد اَب ہمیشہ
ہماری قوم کو 16دسمبر2009 کا وہ خوشی کا عظیم دن بھی یقیناً یاد رہے گا کہ
جب سپریم کورٹ نے ملک کے ایک آمر صدر کا بنایا گیا این آر او کا قانون ختم
کیا اور یوں سپریم کورٹ کے اِس تاریخ ساز فیصلے کے بعد قوم کو آئندہ سال
یعنی سن دو ہزار دس کو آنے والا سولہ دسمبر مایوس نہیں کرے گا کیوں کہ اُس
وقت ہم ملک میں قانون کی بالادستی کے بعد ایک زندہ قوم کے زندہ فرزند ہونے
کا اعزاز حاصل کرچکے ہوں گے اور یوں 2010 میں آنے والی 16دسمبر کی تاریخ
ملک اور قوم کے لئے ایک نیا عزم اور نیا ولولہ لئے ہوئے ہوگی۔
یہ یقیناً ملک اور قوم کے لئے حوصلہ افزا امر ہے کہ ملک کے سابق صدر
آمرجنرل (ر) پرویز مشرف کا بنایا گیا قومی مفاہمتی آرڈیننس جِسے این آر او
یا کالا قانون کے نام سے بھی انتہائی حقارت سے پکارا جاتا ہے(یہاں میں اپنے
پڑھنے والوں سے یہ عرض کرتا چلوں کہ اِس کے علاوہ کسی کے ذہن میں اِس قانون
کا کوئی اور حقیر نام ہو تو آپ اُسے اُس نام سے بھی پکار سکتے ہیں) یہ
بدنام زمانہ قانون سرزمین پاکستان میں 2 سال 2ماہ اور11دن تک نافذالعمل
رہنے کے بعد بالآخر اپنے منطقی انجام کو اُس وقت پہنچ گیا جب چیف جسٹس مسٹر
جسٹس افتحار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 17رکنی بنچ نے7دسمبر
2009سے اِس کیس کی دو ہفتوں تک سماعت کی اور 16 دسمبر2009 بروز بدھ کی شب
10بجکر 10 اور 45 سیکنڈ پر اِسے 1973 کے آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے
کالعدم قرار دے دیا ہے کہ این آر او کا اجرا قومی مفاد کے منافی ہے اور یہ
آئین کی مختلف 8شقوں کی خلف ورزی کرتا ہے اور جس کے بعد اِس کالے قانون این
آر او کے تحت اُن تمام افراد (بشمول اور بالخصوص ہمارے صدر مملکت آصف علی
زرداری جن پر پچھلے ادوار میں کرپشن اور قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے
لوٹنے اور ملک سے باہر اپنا بینک بیلنس بڑھانے کے حوالے سے مختلف مقدمات
تھے وہ اِس قانون میں سرفہرست ہیں ) جن پر قائم مقدمات ختم کئے گئے تھے
سپریم کورٹ کے اِس فیصلے کے بعد اُن کے مقدمات ایک بار پھر این آر او کے
اجرا کے دن 5اکتوبر2007سے پہلے والی حالت میں بحال کردیئے گئے ہیں۔ سپریم
کورٹ کے اِس تاریخ ساز فیصلے سے یقیناً ملک میں جہاں ایوان صدر اور اِس
قانون سے متاثرہ افراد میں بظاہر نظر تو نہ آنے والی ایک سیاسی ہلچل پیدا
ہوگی تو وہیں آئندہ چند ایک دنوں میں ملکی سیاست پر بھی اِس کے مثبت اور
منفی دونوں ہی نوعیت کے جزوی اور مکمل اثرات مرتب ہونے کے قوی امکانات ہیں۔
جن میں حکومت کا چلنا اور رکنا سمیت صدر اور اِن کے اتحادیوں کا جانا اور
ٹھرنا دونوں ہی شامل ہیں۔
اگرچہ یہ ایک خوش آئندہ امر ہے کہ سپریم کورٹ کے اِس تاریخ ساز فیصلے پر
ملک کے قانونی ماہرین بھی خیر مقدم کر رہے ہیں اور اِسے ملک اور قوم کے
بہتر مفاد سے تعبیر کررہے ہیں تو اُدھر ہی دوسری طرف ملک کے سیاسی حلقوں کی
جانب سے اور عوامی سطح پر بھی سپریم کورٹ کے اِس فیصلے کو بے حد سراہا
جارہا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ قوم کو مبارک ہو کہ ملک میں
انصاف ابھی زندہ ہے اور عدل وانصاف نافذ کرانے والے اپنے عزم و ہمت سے پوری
طرح سے متحرک ہوچکے ہیں کہ ملک میں اَب ہر صورت میں عدل و انصاف کا بول
بالا کرا کر ہی دم لیں گے اور اَب اِس فیصلے کے بعد ملک میں بالا تفریق
انصاف ہر امیر و غریب، بادشاہ اور فقیر کو بھی ملے گا۔اور اِس کے ساتھ ہی
این آر او پر سپریم کورٹ کی جانب سے اپنی نوعیت کے اِس تاریخ ساز فیصلے کے
بعد یہ بات بھی پوری طرح سے قوم پر واضح ہوگئی ہے کہ قانون سے کوئی نہیں بچ
سکتا خواہ کوئی کتنا ہی بااثر اور چالاک کیوں نہ ہواور خواہ وہ ملک کا صدر
ہو یا ایک فقیر اگر اِس نے سرزمین پاکستان پر جرم کیا ہے تو وہ سزا کا
حقدار ہے اور بس......اُسے ہر حال میں سزا ملے گی۔
بہر کیف !یہ حقیقت ہے کہ آج سے38سال قبل 16دسمبر1971کو رونما ہونے والے
سانحہ سقوطِ ڈھاکہ کے المناک واقعہ نے قوم کے ماتھے اور دل پر ایک ایسا
سیاہ دھبہ لگا دیا ہے کہ اَب یہ دھبہ ہماری قوم کے ماتھے اور دل سے تاقیامت
نہیں چھٹ سکتا اور اِس المناک واقعہ کے بعد سے جب بھی ملک میں 16دسمبر آتا
ہے تو ہماری قوم کو 38سال قبل رونما ہونے والے اُس المناک سانحہ کی یاد
ستاتی ہے کہ جب ہمارا ایک بازو جو مشرق پاکستان کی صورت میں ہم سے جڑا ہوا
تھا وہ ہم سے کچھ ہمارے ہی اپنوں اور اغیار کی گٹھ جوڑ اور اُن کی سازشوں
کی وجہ سے کٹ کر جدا ہوگیا اِس سازش کے پیچھے کون سے عناصر ملوث تھے؟ اور
اُن کے کیا ناپاک عزائم تھے؟ اُن کے بارے میں گزشتہ 38سالوں میں ملک اور
بیرونِ ملک ہر زبان میں چھپنے والی انگنت کتابوں اور اخبارات و رسائل میں
اتنا کچھ لکھا گیا ہے کہ اِن کے صفحات کالے ہوئے پڑے ہیں اور اِس عرصے کے
دوران ہمیں اتنا کچھ سنایا گیا ہے کہ اَب تو ہمارے کان بھی سانحہ سقوطِ
ڈھاکہ پر سُن سُن کر سُن ہوگئے ہیں اور اِن کتابوں، اخبارات اور رسائل کے
صفحات جو سانحہ مشرق پاکستان کے حوالے سے ہیں انہیں پڑھ پڑھ کر ہماری
آنکھیں بھی پتھرا گئی ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ اِس المناک سانحہ پر ہماری
آئندہ آنے والی نسلیں بھی تاقیامت اپنے آنسوں بہاتی رہیں گی اور اپنے ہاتھ
کفِ افسوس سے ملتے رہیں گیں کہ مشرق پاکستان ہم سے کیوں علیحدہ ہوگیا؟ کیوں
کہ سقوطِ ڈھاکہ ایک ایسا سوال اور زخم بن کر رہ گیا ہے جس کا کوئی تسلی بخش
جواب نہیں ہے اور یہ ہماری قوم کے لئے ایک ایسا زخم ہے جوہمیشہ ہرا رہے گا
اور ہمیشہ اِس میں سے خون رستا رہے گا اور جو ہمیشہ ہمیں ہماری لاپرواہی
اور غلط حکمتِ عملی کا احساس دلاتا رہے گا۔
کہا جاتا ہے کہ لکھی ہوئی تاریخ بیتی ہوئی تاریخ سے بالکل مختلف ہوتی ہے
مگر جب ہم آج سے 38سال قبل اپنے ہی ملک میں رونما ہونے والے 16دسمبر1971کو
سقوط ڈھاکہ جیسے تاریخی واقعہ پر نظریں دوڑائیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
آج کتابوں میں لکھی ہوئی تاریخ اور بیتی ہوئی تاریخ میں کوئی فرق نہیں ہے
کیوں کہ تاریخ کے مؤرخ نے سقوط ڈھاکہ سے متعلق جو لکھا اور جتنا لکھا وہ سب
کا سب درست اور حقائق پر مبنی ہے یوں میرے خیال سے یہ کہنا کہ لکھی ہوئی
تاریخ بیتی ہوئی تاریخ سے بالکل مختلف ہوتی ہے غلط ہے۔
اِسی طرح ول ڈیورنٹ کا ایک قول ہے کہ اکثر تاریخ قیاس آرائی پر مبنی ہے اور
باقی ماندہ کی بنیاد تعصب پر ہے“ میں ول ڈیورنٹ کے اِس قول سے بھی متفق
نہیں ہوں کہ اکثر تاریخ قیاس آرائی پر مبنی ہے میرے نزدیک اگر اکثر تاریخ
قیاس آرائی پر مبنی ہے تو اول میں پھر وہ تاریخ ہی نہ ہوئی جو قیاس آرائی
پر مبنی ہے وہ تو پھر کوئی طلسماتی کہانی ہوگئی کیوں کہ عموماً قیاس
آرائیوں پر تو طلمساتی کہانیاں ہی ہوا کرتی ہیں اور اگر بقول ول ڈیورنٹ کے
باقی ماندہ کی بنیاد تعصب پر ہے“ تو پھراِس لحاظ سے یہ بھی تاریخ نہ ہوئی
کیوں کہ تاریخ نہ تو قیاس آرائی پر مبنی ہوسکتی ہے اور نہ کسی تعصب کی
بناپر لکھی جاتی ہے کیوں کہ میری سمجھ کے مطابق تاریخ خود ایک حقیقت ہے۔اِس
کا ثبوت کسی تاریخ کے طالبعلم کو دیکھنا ہے تو وہ پاکستان کے 38سال قبل
رونما ہونے والے16دسمبر1971کے حقیقی واقعہ سے لے اور اِس کے بعد
16دسمبر2009 کے این آر او کے خلاف آنے والے حقیقی اور اٹل اِس فیصلے سے جو
پاکستان کے سپریم کورٹ نے پاکستان کی تاریخ کا یہ فیصلہ دے کر پاکستان اور
دنیا کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔
اَب یہ اور بات ہے کہ این آر او کے خاتمے کے بعد مقدمات کے شکنجے میں جکڑے
یہ افراد اپنی صفائی میں کیا کچھ کہتے اور بیان کرتے ہیں؟ اور اپنے آپ کو
اَب عدالتوں میں پیش ہو کر کس طرح صحیح طریقے سے مقدمات سے بری کراتے ہیں؟
اور لوٹی گئی قومی دولت کو کس طرح سے ملک اور قوم کو واپس کرتے ہیں؟ اَب یہ
اِن پر ہے کہ یہ لوگ کتنے بڑے ملک کے خیر خواہ ہیں۔جو اپنی اتنی سی قربانی
دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہوجاتے یا اِس کے باوجود بھی ملک و قوم کی
لوٹی گئی دولت پر یوں ہی ........ بن کر بیٹھے رہنا پسند کریں گے۔؟ |