عدالت عظمیٰ کا تاریخ ساز فیصلہ۔ ۔ ۔ ۔

عوامی امنگوں کا آئینہ دار اور اک نئے پاکستان کا مظہر

سولہ دسمبر سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے ہماری ذلت و رسوائی کی تاریخ کا ایک تاریک دن ہے، گزشتہ 38برس سے قوم اِس دن کو اپنی شکست و ر ریخت کی تلخ یادوں کے حوالے سے یاد رکھے ہوئے ہے اور وہ اُن وجوہات کی متلاشی ہے جو قیام پاکستان کے صرف 21برس بعد ہی پاکستان کے دو لخت ہونے کا سبب بنیں، لیکن آج یہ دن پاکستان کی تاریخ میں اِس حوالے سے بے انتہا تاریخی اہمیت کا حامل ہوگیا کہ ِاس دن پاکستان کی سب سے بڑی عدالت عظمیٰ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے دیئے گئے تاریخ ساز فیصلے نے ایک ایسی روشن صبح کی نوید پیدا کردی جس کی اُجلی، شفاف اور چمکدار روشنی میں ایک نئے اور کرپشن سے پاک پاکستان کا ظہور ہوگا، آس و اُمید کے نئے چراغ جلیں گے اور دکھوں کی ماری قوم کو اُس اعتماد اور یقین کی روشنی ملے گی کہ ابھی ہمارے اسلاف کی جدوجہد اور قربانیوں کے ثمر مدینہ ثانی پاکستان پر اللہ اور اُس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمتوں کا سایہ موجود ہے اور وہ ہم سے ابھی مایوس نہیں ہوئے، یوں پاکستان کی تاریخ میں یہ دن یوم سقوط ڈھاکہ کے ساتھ قومی دولت لوٹنے والے چوروں ڈاکووں اور لیٹروں کو تحفظ دینے والے سیاہ قانون این آر او کے خلاف” انصاف کی جیت“ کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

اِس دن وطن عزیز کے 17رجال عظیم نے تاریخ ساز فیصلہ دے کر نہ صرف اپنے منصب انصاف کی لاج رکھی ہے بلکہ عدلیہ کے صاف اور اُجلے دامن پر لگے نظریہ ضرورت کے بدنما داغ کو دھو کر طاقت کے بجائے قانون کی حکمرانی کی راہ بھی ہموار کی ہے اور امیر کیلئے الگ اور غریب کیلئے الگ قانون کے چور دروازے بند کرنے کے روشن امکانات پیدا کردئے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کی عدلیہ کا یہ تاریخ ساز فیصلہ، عوام کا انصاف کی فراہمی کے اداروں پر اعتماد کی بحالی کے ساتھ، اُن میں نئی امنگوں اور جذبوں کے ابھار اور ایک نئے مضبوط، خوشحال اور پراُمن پاکستان کی تخلیق کی بنیاد بنے گا، یہ درست ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے حکومت یا ارباب اختیار کی مرضی و منشا یا نظریہ ضرورت کے تحت فیصلہ نہیں دیا بلکہ کسی بھی عہدے اور شخصیت کی پرواہ کیئے بغیر انصاف کا بول بالا کیا ہے اور ملک و قوم کی دولت لوٹنے اور چوری کرنے والوں کی استثنائی حیثیت کو سوالیہ نشان بناکر مستقبل میں عام چوروں، لیٹروں اور ڈاکووں کے برابر انصاف کے کہٹرے میں کھڑا کرنے کی نئی راہ عمل بھی متعین کی ہے، آج اِس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عدالت عظمیٰ کو 9مارچ 2007ءسے 16مارچ 2009ء تک وکلاء، عوام، سول سوسائٹی اور میڈیا کے ساتھ نہایت ہی مشکل، صبر آزماء اور کٹھن سفر سے گزرنا پڑا، تب جاکر کہیں آزاد عدلیہ کی یہ منزل نصیب ہوئی اور مستقبل میں آئین و قانون کی حکمرانی کے آثار پیدا ہوئے۔

سپریم کورٹ کے اس تاریخ ساز فیصلے کے اثرات و عوامل کا جائزہ لینے سے پہلے اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ سابقہ دور آمریت میں 12 اکتوبر1999ء سے پہلے احتساب بیورو کی جانب سے عوامی اور سرکاری عہدے رکھنے والوں کے خلاف عدالتوں میں زیرِ التواء مقدمات کے خاتمے کے لیے جنرل پرویز مشرف نے 5اکتوبر 2007ءکو قومی مصالحتی آرڈیننس یا این آر او جاری کیا تھا، لیکن دو دن بعد ہی8 اکتوبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رکن، ممتاز سیاستدان اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن اور سینئر بیوروکریٹ روئیداد خان نے اسے آئین سے متصادم قرار دینے کیلئے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا لیکن 8اکتوبر 2007ء سے 16مارچ 2009ء کو معزول عدلیہ کی بحالی تک، متعدد تاریخی واقعات ظہور پزیر ہوئے، جن میں بے نظیر بھٹو پر مقدمات کی واپسی،18 اکتوبر2007 ءکو بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی اور قاتلانہ حملہ، 3 نومبر2007ء کو ایمرجنسی کا نفاذ اور چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت عدلیہ کی معزولی، عبدالحمید ڈوگر کو سپریم کورٹ کا نیا چیف جسٹس مقرر کیا جانا،27دسمبر2007ءکو بے نظر بھٹو کی شہادت، 18 فروری2008ء کے عام انتخابات، وفاق سمیت چاروں صوبوں میں پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کا قیام،28فروری2008ءکو ڈوگر کورٹ کی طرف سے قومی مصالحتی آرڈیننس کے خلاف حکم امتناعی کی واپسی اور بحالی،4مارچ 2008ء کو سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے آصف علی زرداری کے خلاف مختلف ممالک میں دائر احتساب ریفرنسرز کے خاتمے کا حکم ،18 اگست2008ءکو پرویز مشرف کا استعفیٰ ،6 ستمبر2008ءکو آصف علی زرداری کا صدر منتخب ہونا اور 16مارچ 2009ءتک بار بار وعدوں کے باوجود معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور معزول عدلیہ کو بحال نہ کرنا خاص طور پر قابل زکر ہیں۔

سولہ مارچ 2009ء کو چیف جسٹس کی بحالی کے بعد دیگر معاملات کے علاوہ ایک سوال جو سب سے زیادہ عوام کے ذہنوں میں گردش کررہا وہ یہ تھا کہ کیا جسٹس افتخار محمد چودھری این آر او پر نوٹس لیں گے، لیکن 31جولائی 2009ء کو حالات میں اس وقت تبدیلی آئی جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے 3 نومبر 2007ء کے بعد اعلیٰ عدالتوں میں تعینات ہونے والے پی سی او ججز اور سندھ ہائی کورٹ کے دو ججوں کی برطرفی کے حوالے سے آئینی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے3 نومبر کو لگائی گئی ایمرجنسی کو ماورائے آئین قرار دیا اور موجودہ حکومت کو سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے ایمرجنسی اور اس سے پہلے جاری کئے گئے37 آرڈیننس کو چار ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے منظور کرانے کا حکم دیا، جس کے بعد حکومت نے اس متنازع آرڈیننس کو قانونی تحفظ دینے کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بحث کے لیے پیش کیا، لیکن مسلم لیگ ن کی شدید مخالفت اور حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے عدم تعاون کے ساتھ صدر اور اُن کے ساتھیوں کو جمہوریت کے لیے قربانی دینے کے مشورے سے جب حکومت کی ناکامی یقینی نظر آنے لگی تو حکومت کو اسے پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا،28 نومبر کو سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی مدت ختم ہونے کے بعد اس متنازعہ آرڈیننس کی قانونی حیثیت بھی ختم ہوگئی، چنانچہ یکم دسمبر کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے این آر او کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے ایک فل بینچ تشکیل دے دیا، جس نے 16 دسمبر 2009ء کو این آر او کے بارے میں دائر درخواستوں کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے اسے آئین سے متصادم اور این آر او کے تحت ختم کیے گئے تمام مقدمات پہلی پوزیشن پر بحال کر دیئے، یوں عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ اللہ نواز خان کے بقول”چوروں کی حکومت،چوروں کے ذریعے اور چوروں کے لیے“بنایا گیا امتیازی سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا۔

اس مقدمے کی سماعت کے دوران حکومت نے اپنی سابقہ بد انتظامی کی روایات کو ایک بار پھر برقرار رکھا، دوران سماعت حکومتی وکلاء کی مایوس کن کارکردگی کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کے پاس این آر او کی وجہ سے معاف ہونے والے مقدمات اور بیرون ملک عدالتوں دائر کیسوں کے بارے میں مکمل معلومات تک نہیں تھی، یہ وکلاء اس قدر بوکھلائے ہوئے اور منتشر الذہن تھے کہ معزز جج صاحبان کو بار بار یہ کہنا پڑا کہ آپ جس صدر کا دفاع کر رہے ہیں، اس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا نقصان ہوسکتا ہے، عدالت بار باران سے پوچھتی رہی کہ سوئس مقدمات کس طرح اور کس کے حکم پر واپس لئے گئے، مگر تمام سرکاری وکلاء کوئی واضح جواب نہ دے سکے، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ یا تو انہیں اس بات کا علم ہی نہ ہو یا وہ جان بوجھ کر چھپا رہے تھے، حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں این آر او کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران ہر موقع پر صدر زرداری کیلئے مشکلات بڑھتی گئیں، گو کہ اس سے قبل ان پر لگائے گئے الزامات کو بہت سے لوگ مسترد کرتے رہے مگردوران سماعت ان پر قائم مقدمات اور بیرون ملک بنک اکاؤنٹس میں موجود رقوم کا جو ریکارڈ اور تفصیلات عدالت میں پیش کی گئیں،اس نے صدر کی غیر متنازعہ حیثیت اور سیاسی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا، اسی طرح وفاق کی طرف سے بیرسٹر کمال اظفر کو عدالتی جنگ میں اتارنے کا فیصلہ بھی حکومتی بدحواسی کا مظہر اور ساکھ کیلئے نقصان دہ ثابت ہوا،گو کہ اس تعیناتی کا مقصد عدالت کو صدر آصف زرداری کے خلاف فیصلہ دینے سے روکنا تھا مگر وہ سوائے عدالت عظمیٰ کو ناراض کرنے کے، کوئی کام نہ کرسکے،سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو کی کارکردگی بھی اس وقت کھل کر سامنے آگئی جب بہت سے معاملات پر عدالت نے نیب کے چیئرمین کو وارننگ دی اور ان سمیت کئی ذمہ داران کو ہٹانے کی ہدایت جاری کی، اسی طرح این آر او کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران صدر کا یہ بیان کہ جمہوریت کا عدالتی قتل نہیں ہونا چاہئے، عدالت کے نوٹس کا سبب بنا،شاید صدر کے بیان کا مقصد عدالت کو یہ پیغام دینا تھا اگر وہ عدالتی فیصلے کی وجہ سے نااہل قرار دیئے جاتے ہیں تو یہ جمہوریت کا عدالتی قتل ہوگا،لیکن دوران سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے واضح کردیا کہ عدلیہ ایوان صدر کا احترام کرتی ہے، اسے اِس سے کوئی غرض نہیں کہ وہاں کون بیٹھا ہوا ہے، حقیقت یہی ہے کہ روز اول سے ہی حکومت کا کیس بڑا کمزور اور مؤقف بڑا حیران کن تھا کہ این آر او تو ایک غیر آئینی قانون ہے مگر اس کی وجہ سے لئے گئے فوائد درست اور صحیح ہیں، این آر او پاکستان کی تاریخ کا وہ منفرد اور بد نصیب سیاہ قانون تھا جس کے دفاع اور صفائی کیلئے خود اس سے فائدہ اٹھانے والے بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے، بلکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ انہوں نے خود عدالت سے اسے غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی۔

اس لحاظ سے موجودہ حالات میں این آر او کے خلاف عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ایک تاریخ ساز فیصلہ اور ایسا سنگ میل ہے جس کو جتنا بھی سراہا جائے اتنا ہی کم ہے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے پاکستان پر دور رس اثرات مرتب ہونگے، آج عدالت عظمیٰ کی جانب سے این آر او کو آئین سے متصادم اور کالعدم قرار دیے جانے سے عدل انصاف سرخرو ہو گیا اور اس سے نہ صرف عوام کے سر فخر سے بلند ہوگئے بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کے وقار میں بھی اضافہ ہوا، اس تاریخ ساز فیصلے سے ملک میں کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کی سیاست کا خاتمے اور بد عنوان افراد کی حوصلہ شکنی کا دور شروع ہوگا، جمہوریت کی فتح اور آئین کی بالادستی قائم ہوگئی، ملک میں کرپشن اور لوٹ مار کرکے غیر قانونی تحفظ کے تمام دروازے بند ہوجائیں گے جس سے قومی مجرموں کو قرار واقعی سزا ملنے کی امید پیدا ہوگی، یقیناً سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ملک کے 17کروڑ عوام کے دل کی آواز، عدلیہ بحالی کی جدوجہد میں دی گئی قربانیوں کا ثمر اور پوری قوم کیلئے فتح و کامرانی اور صبح نو کی نوید ثابت ہوگا، آج عدالت عظمیٰ کے فیصلے نے جہاں یہ ثابت کردیا ہے کہ قانون امیر و غریب اور ادنیٰ و اعلیٰ سب کیلئے برابر ہوگا، وہیں اس فیصلے سے این آر او سے مستفید ہونے والے وزراء اور بالخصوص صدر زرداری کے مستقبل پر بھی کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں اور اس فیصلے نے اُن کے اپنے عہدوں پر موجود رہنے کا اخلاقی جواز ختم کردیا ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ اس اخلاقی جواز کے آگے کون کون سر تسلیم خم کرتا ہے، گو کہ اس کے امکانات بہت ہی کم ہیں لیکن وہ دن دور نہیں جب حکومتی کرپشن اور لوٹ مار کو بے نقاب کرتا میڈیا اور آئین و قانون کی حرمت اور تقدس کا تحفظ کرتی ہوئی عدلیہ کے فیصلوں سے بیدار ہوتی ملک کی رائے عامہ ایک مؤثر عوامی تحریک میں ڈھل کر یہ مطالبہ کرتی نظر آئے کہ کرپٹ اور بدعنوان افراد کی اب ہمارے سسٹم میں کوئی جگہ اور گنجائش نہیں ہے اور اگر مجرم خود ہتھیار نہیں ڈالیں گے تو آئین و قانون کے رکھوالے اور ملک کے محب وطن عوام اُن کے ہاتھوں سے جرائم کے تمام ہتھیار چھین لیں گے۔

اک نیا باب کہ دیتا ہے یہ آواز ہمیں
آؤ سفاک اندھیروں کی چٹانیں توڑیں
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 357721 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More