محرم الحرام اور خوف کے سائے

یہ ہمارا المیہ ہے کہ محرم الحرام کا مقدس مہینہ آتے ہی ہمارے ملک میں ایک خاص قسم کی کشیدگی اور تناو کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ،علمائے کرام اور رہبران ملت ــامن کا درس دینے لگتے ہیں ،پولیس ،رینجرز اور ملکی سلامتی کے ادارے ہائی الرٹ ہو جاتے ہیں ،سڑکوں پر فلیگ مارچ شروع ہو جاتا ہے ،اور پاکستانی شہریوں کو ذہنی ،فکری اور عملی طور پر اس قدر مفلوج کر دیا جاتا ہے کہ وہ 10,9 محرم کو گھروں میں محصور ہو کر رہ جاتے ہیں ،کئی شہر سرینگر اور بغداد کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں ،بچے خوفزدہ ہو جاتے ہیں ،لوگ باہر نکلنے میں خوف محسوس کرتے ہیں ،ہر مرد و زن کی زبان پر'' یا اﷲ خیر'' کے کلمات ہوتے ہیں ،آخر کیوں؟َ؟؟

یہ وہ سوال ہے جو آج پاکستان کے بچے بچے کی زبان پر ہے ,اہل پاکستان اپنے ارباب اقتدار سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا دنیا کے دیگر ممالک میں بھی محرم الحرام میں خوف و دہشت کی یہی کیفیت ہوتی ہے یا دیگر کئی چیزوں کی طرح تنہا پاکستان ہی اس سے متاثر ہوتا ہے۔ شیعہ سنی تو پوری دنیا میں آباد ہیں‘ محرم کے جلوس تو پوری دنیا میں نکلتے ہیں۔ لیکن کہیں خوف ہوتا ہے نہ دہشت‘ کاروبار زندگی معطل ہوتے ہیں نہ مارکیٹیں بند ہوتی ہیں، کرفیو لگتا ہے نہ فوج آتی ہے ،آخر پاکستان میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟

اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ سنی تنازعہ صدیوں پرانا ہے لیکن گزشتہ صدی سے پہلے اس تنازعہ نے کبھی فسادات کی شکل اختیار نہیں کی تھی ‘ خونریزی ہوتی تھی نہ قتل و غارت یہ تنازعہ کبھی علمی بحث و مباحثے اور مناظرے سے آگے نہیں بڑھا تھا‘ 1908 ء میں پہلی بار لکھنؤ میں شیعہ سنی فساد ہوا جس پر برصغیر پر قابض انگریزوں نے محرم الحرام میں عزاداروں کے جلوسوں کے روٹس اور اوقات کا تعین کر دیا‘ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق انگریزوں نے ان روٹس کا تعین بدنیتی کی بنیاد پر کیا جو بعد میں فسادات کی بنیاد بنتے رہے۔

پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے پندرہ برس بعد 1962 ء میں پہلی مرتبہ شیعہ سنی فسادات ہوئے لیکن وہ صرف لاہور تک محدود رہے جن میں صرف ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے، حکومت اور ذمہ دار اداروں نے اس معاملے کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی اور بعد ازاں اشتعال انگیز تقاریراوربیان بازیوں نے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ کر دیا‘ اندر ہی اندر یہ چنگاری سلگتی رہی یہاں تک کہ ہمارے پڑوس میں ایران کا انقلاب آگیا ایت اﷲ خمینی کی طرف سے اس انقلاب کو ایکسپورٹ کرنے کے اعلان نے پاکستان میں موجود انقلاب کے حامیوں کو جری کر دیا جس کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعات میں ایک دم اضافہ ہوگیا۔

جیسا کہ ہم پہلے تحریر کر چکے کہ محرم کے جلوسوں کے روٹس کا انگریزوں نے بدنیتی کے ساتھ تعین کیا تھا اور اہل تشیع نے ان روٹس کو عملی طور پر مقدس قرار دیا اور ان میں کسی قسم کی تبدیلی کو گناہ تصور کرنے لگے ،ان روٹس میں کئی مقامات پر مخالف فرقے کی اہم مساجد اور دینی مرکز بھی واقع ہیں جہاں ہر سال تصادم کا خطرہ رہتا تھا ، گزشتہ سال راجہ بازار راولپنڈی میں اسی سبب تنازعہ ہوا جو شدت اختیار کر گیا اور کئی
قیمتی جانیں لے بیٹھا ‘ حکومت کو حالات کنٹرول کرنے کے لئے فوج طلب کرنی پڑی اور کرفیو لگانا پڑا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شیعہ سنی تصادم کروانا امریکہ کے گلوبل ایجنڈے کا حصہ ہے ،جس کے تحت پوری دنیا میں اس مسئلے کو شہ دی جاتی ہے اور کئی ممالک کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہے ،لیکن مملکت خدا داد میں ہماری حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کے باعث شیعہ سنی تنازعہ میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے ،اگر انصاف کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو محرم الحرام میں آج سے 10 سال قبل اس طرح کے حالات نہیں ہوتے تھے جو اب ہیں ۔حالانکہ ان حالات کی شدت اور حدت میں کمی آنی چاہیے تھی ،ہماری دانست میں حکومت کو اس حوالے سے چند انقلابی اور فوری اقدامات کرنے ہوں گے جن سے حالات کو کنٹرول کیا جا سکے ورنہ یہ کشیدگی پھر کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔
٭……تمام مسالک کی قابل احترم شخصیات کی توہین اور تنقیص کو قابل سزا جرم قرار دیا جائے ،صحابۂ کرام اور اہل بیت عظام کے خلاف لٹریچر کو ضبط کر کے ذمہ داروں کو کڑی سزا دی جائے
٭……تمام جلسوں،جلوسوں اور مذہبی رسومات کو یا تو عبادتگاہوں تک محدود کیا جائے یا ان کے لئے جگہ اور روٹس کا تعین متعلقہ فریق پر چھوڑنے کے بجائے حکومت اور انتظامیہ خود کرے
٭……محرم الحرام کے دوران ایسے اقدامات کو سختی سے روکا جائے جس سے خوف اور دہشت میں اضافہ ہو اور معصوم شہری گھروں میں محصور ہو کر رہ جائیں
٭……تمام تر اقدامات ہر قسم کے بیرونی دباؤ سے بالا تر ہو کر مکمل آذادی اور خود مختاری کے ساتھ کیے جائیں اور کسی بھی ملک کو اپنے اندرونی اور مسلکی معاملات میں مداخلت اور فنڈنگ سے باز رکھا جائے
٭……حکومتی ادروں اور اہلکاروں کو اپنی جانبدارانہ پالیسی پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے تا کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو

اس سلسلے میں اگر مخلصانہ کوششیں کی جائیں تو وہ بار آور ثابت ہو سکتی ہیں اور اس سلگتی ہوئی چنگاری پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔
Abdul Rauf Muhammadi
About the Author: Abdul Rauf Muhammadi Read More Articles by Abdul Rauf Muhammadi: 5 Articles with 3763 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.