نان الیون میں امریکی ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد
امریکہ تمام تر صہونی قوت کوجمع کر کے نہتے افغانیوں پر آبرسا۔غداروں کے
تعاون سے عارضی فتح حاصل کرنے کے بعد امریکہ نے جو مسلمانوں پر ظلم و ستم
کے جو پہاڑ توڑے انہیں دیکھ کر انسانیت کانپ اٹھتی ہے۔نام نہاد مہذب امریکی
قوم کا اصل چہرہ سامنے آگیا ہے قرآنِ مجید نے تو بہت پہلے اعلان کر دیا تھا
کہ یہ یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے ۔جہاں تک ان کا بس چلے گا یہ
تمہاری مخالفت کریں گے۔
امریکی فوجیوں نے عراق و افغانستان میں ظلم و ستم کی جو داستان رقم کی ہے
اسے دیکھ کر انسانیت شرما اٹھتی ہے چنگیر اور ہلاکو خان کی روحیں بھی کانپ
اٹھتی ہوں گی۔لیکن آفرین ہے ان مجاہدین کے لیے جو پسِ زنداں ،ہتھکڑیاں اور
بیڑیاں پہنے ہوئے استقامت کے ساتھ صحابہ کرام ،امامِ اعظم ابو حنیفہؒ امام
احمد بن حنبلؒ شیخ الہند ،شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ شیخ الاسلام
مولانا حسین احمد مدنیؒ کی یاد تازہ کر رہے ہیں جن کے اورستم کا ہر وہ
طریقہ آزمایا گیا جو ظالم سامراج کے ذہن میں ابھرا۔
ذیل میں چند واقعات امتِ مسلمہ کی بیداری کے لیے پیش کیے جاتے ہیں تا کہ ہم
اپنے آپ میں جھانک کر یہ دیکھ سکیں کہ کیا ایسے وقت میں ایک مسلمان کی حثیت
سے جو ہماری ذمہ داری بنتی ہے کیا ہم اسے نبھا رہے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
امریکہ جب افغانستان پر حملہ آور ہوا تو غداروں کا ایک بہت بڑا گروہ چند
ڈالروں پر امریکہ کے ساتھ ہو گیا قندوز میں مجاہدین جب محصور ہو گے تو ملا
محمد فضل نے مذاکرات کی پیش کش قبول کر لی۔چنانچہ کچھ دنوں بعد ملا محمد
فضل اور جنرل دوستم کے مابین ایک طویل ملاقات ہوئی ان مذاکرات کے دوران یہ
طے ہوا کہ طالبان قندوز سے انخلا کریں گے ،انہیں غیر مشروط طور پر ہرات تک
جانے کی راہداری فراہم کی جائیگی۔جہاں سے وہ آسانی سے قندھار پہنچ سکتے ہیں
۔جب مجاہدین نے انخلا کیا تو غداروں نے گھیر کر اسلحہ جمع کرنا شروع کر دیا
جو معائدہ کی سراسر خلاف ورزی تھی۔ مزار شریف کے قریب یہ اسلحہ جمع کرنے کا
یہ سلسلہ جاری تھا کہ شام کا وقت ہو گیا ان مجاہدین کو قلعہ جنگی میں قید
کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ۔قیدی مجاہدین کے ہاتھ پیچھے باندھ کر انہیں قلع
جنگی میں قید کرنا شروع کر دیا ۔
قیدیوں نے شمالی اتحاد کے فوجیوں سے اسلحہ چھین کر ان پر فائرنگ شروع کر
دی۔ الغرض یہاں پر مجاہدین نہتے قیدیوں اور ظالم سفاک امریکیوں کے درمیان
خونریز معرکہ شروع ہوا ۔ ہیلی کاپٹر سے قلعہ پر بمباری کی گئی ۔ٹینکوں سے
بھی قلعہ پر مسلسل گولا بھاری کی گئی۔قلعہ کا جنوبی حصہ منہدم ہو گیا ۔جہاں
مسلمان قیدیوں کی اب لاشیں بکھری ہوئی تھیں ۔
قلعہ کے تہہ خانے میں موجود مجاہدین قیدیوں کو مارنے کیلیے امریکی خصوصی
فورسز نے اپنی انسانیت سوزی ،جلادی ،سفاکی کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے تہہ
خانے کے دھانے پر آگ لگا دی۔ اور دھواں تہہ خانے کے اندر چھوڑ دیا۔جس سے
بہت سے قیدی شہید ہو گئے ۔
ظالم صہونیوں نے اس پر بس نہ کیاتہہ خانے کے اندر جسم کو شل کر دینے والا
ٹھنڈا پانی ایک میٹر تک بھر دیا ۔ پوری رات مجاہدین اس میں کھڑے رہے جس سے
ان کے اعضا ء شل ہو گئے ۔چنانچہ انہیں اسی حالت میں گرفتار کر دیا گیا
،قندوز سے آنے والے اس قافلے میں شامل جن مجاہدین کو گرفتار کیا گیا تھا ان
کی تعداد چھ صد تھی جن میں سے 237مجاہدین قلعہ جنگی خونریز معرکے میں شہید
ہو ئے۔86گرفتار ہوئے لیکن باقی 177مجاہدین کہاں غائب ہو گے،اس بات کا
انکشاف کچھ عرصہ بعد غیر ملکی صحافیوں نے کیا کہ قلعہ جنگی میں جب پہلی رات
ایک مجاہد نے فدائی حملہ کر کے دو دشمنوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا
اسوقت 177مجاہدین کو قلعہ جنگی کی جانب لے جایا جا رہاتھالیکن جب دشمن کو
اس دھماکے کا پتہ چلا تو وہ ان مجاہدین کو قلعہ میں لے جانے کی بجائے مزار
شریف کے قریب واقع ایک صحرا میں لے گے اور وہاں انہیں تاریک کنٹینروں میں
بند کر دیا گیا۔ یہ مجاہدیں انہی کنٹینروں میں بھوک پیاس کے عالم میں دم
گھٹنے کے باعث جامِ شہادت نوش فرماگئے
(تلخیص ہمارے قیدی بھائی)
دشتِ لیلیٰ میں تقریباََتین ہزار مجاہدین کو کنٹینروں میں بند کر کے ہلاک
کیا گیا۔جہاں سے آئے روز انسانی ڈھانچے برآمد ہو رہے ہیں۔
بدنام زمانہ عقوبت خانہ گوانتا ناموبے میں مسلمان قیدیوں پر کیا بیت رہی ہے
جن کو جسم پر کپڑا پہننے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ انسانیت سوز ستم اور بد
ترین تشدد قیدیوں پر کیا جاتا ہے یہاں جسمانی اور ذہنی تشدد کا ہر وہ حربہ
اور طریقہ استعمال کیا جاتا ہے جو اس دنیا میں موجود ہے،۔ یہاں قیدی ہر ستم
کا جوانمردی سے مقابلہ کرتے ہیں ظالم امریکیوں سے انسانی حقوق کی بات کی
جائے تو جواب ملتا ہے ہمارے یہاں کوئی حقوق نہیں ۔یہاں قیدیوں کو بات بات
پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
قارئین کرام! صرف گوانتا ناموبے ہی نہیں عراق کی ابو غریب جیل میں کیا نہیں
ہوا گزشتہ سالوں میں وہاں ایک قیدی خاتون جسکا نام فاطمہ ہے امتِ مسلمہ کے
بھائیوں کو خط لکھتے ہوئے لکھتی ہے کہ کوئی دن یا کوئی رات ایسی نہیں ہوتی
جب ہمیں جنسی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جاتا ۔۔ظالم امریکی ہمارے جسمون کو
نوچتے ہیں وہاں قیدیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ زبردستی غیر فطری عمل پر مجبور
کر کے تصاویر بنا کر ویب سائٹس پر جاری کی جا رہی ہیں فاطمہ نے مزید لکھا
کہ ہمیں کپڑے پہننے کی اجازت نہیں ہے۔( فاطمہ کا خط آج بھی یو ٹیوب پر
دیکھا جا سکتا ہے)
سرزمینِ فلسطین میں جنم لینے والا امریکہ کا ناجائز بچہ اسرائیل کی جیلوں
کا احوال سن لیں جہاں قیدیوں سے ملنے کو آنے والے ملاقاتیوں کا حشر ایسا
ہوتا ہے تو ان قیدیوں پر کیا کیا ستم ٹوٹتا ہو گا-
ماہنامہ بیدار ڈائجسٹ 1995 ء کی ایک رپقرٹ کے مطابق ’’دار الحق و
قانون‘‘(The house of Rights &Organization)جو غزہ کی پٹی میں تشکیل شدہ
ایک انسانی حقوق کی ایک تنظیم ہے اس نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے
کہ وہ اسرائیلی حکام کے خواتین کے ساتھ غلط رویے اور قیدیوں سے ملاقات کے
راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے پر اسرائیل کی مذمت کرے۔تنظیم نے تفصیلی رپورٹ
بھی جاری کی جس میں تفصیل سے بتایا گیا کہ ایک ملاقاتی خاتون رشتہ دار کو
اپنے عزیز و اقارب سے ملاقات کرنے کے لیے کس کس قرب اور ذلت سے گزرنا پڑتا
ہے-
ملاقات کرنے کیلیے سب سے پہلے اسرائیلی حکام سے اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا
ہے۔اس میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے۔اکثر اوقات درخواست مسترد کر دی جاتی ہے۔
جن کو اجازت مل جاتی ہے ان کے راستے میں بھی رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں
4جون 1995بروز جمعۃالمبارک کو نافہ جیل میں بعض قیدی افراد کے 100رشتہ دار
وں کو ملاقات کا اجازت نامہ دیا گیا مگر صرف 11خاندان ملاقات کرنے میں
کامیاب ہوئے ملاقاتیوں کے ساتھ کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ آپ ذیل کے واقعہ
سے لگائیں-
’’ رات کو دو بجے ریڈ کراس کی بس غزہ سے ملاقاتیوں کے گروپ کو لیکر روانہ
ہوئی پہلے فوجی چیک پوائنٹ پر بس کو روک لیا گیا،چار گھنٹے تک انتظار
کروایا گیا پھر جانے کی اجازت دی۔
فوجیوں نے مسافروں سے کہا کہ تمام افراد کی مکمل جسمانی تلاشی لی جائے گی۔
اس کے لیے تمام کپڑے اتار کا ننگا ہونا پڑے گاطویل مذاکرات کے بعد
فلسطینیوں نے اسرائیلی فوجیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تاکہ وہ اپنے عزیز
رشتہ دار قیدیوں سے مل سکیں اس گروپ میں فلسطینی خواتین بھی شامل تھیں ۔جن
کو تلاشی کے دوران اسرائیلی فوجی خواتین سے مسلسل گندی گالیاں سننا پڑیں
کپڑے اتارنے کے دوران میں یہودی فوجی خواتین نہایت فحش مذاق کرتی رہیں اور
فلسطینی خواتین کو چھیڑتی رہیں۔تلاشی کے دوران مزید شرمناک حرکت یہ کی
گئیکہ مرد فوجی بھی ننگی خواتین کے پاس مسلسل آتے رہے اس اذیت اور شرمناک
تلاشی کے بعد سفر کی اجازت دی گئی۔جب قیدیوں کو بتایا گیا کہ ان کے رشتہ
داروں کے ساتھ کیسا شرمناک سلوک کیا گیا تو قیدیوں نے بطور احتجاج ملاقات
منسوخ کر دی تاکہ یہاں بھی ملاقاتیوں کو دوبارہ ایسی شرمناک تلاشی کے مرحلے
سے نہ گزرنا پڑے۔قیدیوں نے بھوک ہڑتال بھی شروع کر دی۔
(تلخیص ہمارے قیدی بھائی)
قارئین کرام ! حالات کے اس مختصر سے تذکرے کو سامنے رکھ کر ذرا سوچیے کہ ان
قیدیوں کو کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے ۔ صرف اور صرف مسلمان ہونے کی۔؟؟ جی
ہاں صرف مسلمان ہونے کی ۔ ۔۔ اللہ کا نام بلند کرنے کی سزا دی جارہی ہے کیا
ہ قیدی ہمارے کچھ نہیں لگتے۔ کیا ان کے بارے میں ہم سے کوئی سوال و جواب
نہیں ہو گا۔
یقیناًہو گا ۔قرآنِ مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
’’اور تمہیں کیا ہو گیا کہ کہ تم اللہ کے راستے میں نہیں لڑتے ان کمزور
مردوں ، عورتوں اور بچوں کیلیے جو دعا کر رہے ہیں اے ہمارے پروردگار ہم کو
اس بستی سے باہر نکال جس کے رہنے والے ظالم ہیں ‘‘ (النساء)
معروف مفسر عالم دین امام محمد المالکی القرطی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے
ہیں
’’ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وقیدیوں کو رہا کروائیں خواہ قتال کے ذریعے ہو
یا مال و دولت خرچ کرنے کے ذریعے،پھر اس کے لیے مال خرچ کرنا زیادہ واجب ہے
کیونکہ اموال جانوں سے کمتر ہیں (تفسیر قرطبی ج۵ ص ۲۶۸)
دوسری جگہ رقمطراز ہیں ’’ہمارے علماء کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو رہا کروانا
واجب ہے اگرچہ ایک درہم بھی باقی نہ بچے۔( تفسیر قرطبی ج۲ص۲۶)
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓسے رویت ہے کہ آقا مدنی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ بھوکے کو
کھانا کھلاؤ، مریض کی عیادت کرو ،قیدی کو رہا کرواؤ‘‘ صحیح البخاری حدیث
نمبر۴۳۷۳
امام ابو بکر الحنفی ؒ لکھتے ہیں
’’ یہ حکم کہ قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑوایا جائے ہمارے لیے بھی ثابت ہے
رسول اللہ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان یہ دستاویز لکھی تھی کہ ایک
دوسرے کی دیت ادا کریں گے اور قیدیوں کا فدیہ ادا کریں گے موافق دستور کے‘‘
(احکام القرآن ۱/۸۵)
علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں
قیدیوں کو چھڑوانا بڑے واجبات میں سے ہے اس سلسلہ میں وقف شدہ اور دیگر مال
کو خرچ کرنا بہترین نیکیوں میں سے ہے۔
اللہ کے نبی ﷺ کا ارشاد مبارک ہے جس نے دشمن کے ہاتھوں سے کسی مسلمان قیدی
کو فدیہ دے کر چھڑایا تو میں (محمدﷺ) وہی قیدی ہوں‘‘ (طبرانی مجمع الزوائد
بحوالہ فضائل جہاد ص ۵۰۴)
او مسلمانو غور کرو ! کیا ان مصائب میں گرے ہوئے اللہ کی دین کی سر بلندی
کے لیے مسلمان قیدیوں کا ہم پر کچھ حق نہیں ہے ۔یہ لٹتی عزتیں ، یہ گرتے
آنسو ء یہ دریدہ آنچل ،یہ لہو کے قطرے یہ معصوم بچوں کی چیخیں ،یہ بہن
عافیہ صدیقی کی آہیں اور سسکیاں ہم سے اس بڑھیا کی طرح راستہ روک کر پوچھ
رہی ہیں جس نے سلطا ن محمد تغلق کو ایک پل پر روک کر پوچھا تھ اکہ ’’میرا
فیصلہ اس پر پر کرو گے یا قیامت کے دن پل صراط پر ؟‘‘آج ہمارے قیدی بھائی
ہماری انتظار میں ہیں مگر صد افسوس کہ مسلمان کو ملت سے زیادہ مفاد عزیر ہو
گیا ۔
ملالہ پر حملہ یقیناََ انتہائی دہشت گردی ہے ۔ ایک معصوم کا قتل دل کو ہلا
دینے والا ہے لیکن ذرائع ابلاغ کو ایک نظر ان معصوموں اور بے گناہ قیدیوں
پر بھی ڈالنی چاہیے جو مسلمان ہونے کے جرم میں دنیا کابد ترین تشدد سہہ رہے
ہیں ۔ایک ملالہ پر اتنا شور اور تیس ہزار بے گناہ برمی مسلمانوں کے قتل پر
خاموشی چہ معنی ؟؟؟؟
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کاروں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
اے مسلمان ! تجھے تیرے مظلوم بھائی آواز دے رہے ہیں کہ ’’ہمارا فیصلہ اس
پَل کرو گے پُلِ صراط پر‘‘
|