ایک اور خونریز سانحہ

اتوار کے شام کو اچانک موبائل پر ایک میسیج ایا کہ واہگہ بارڈر لاہور میں ایک خود کش دھماکہ ہوا ہے۔ یہ ایک ایسی خبر تھی جس کو ماننے کیلئے ذہن تیار ہی نہیں تھا۔ کیونکہ ایک طرف تو وقت ہی ایسا تھا کہ اگر یہ سچ ہو تو قیامت صغریٰ برپا ہوچکا ہوگا۔ کیونکہ یہ تقریب کے ختم ہونے کا وقت تھا اور ہزاروں لوگ وہاں تقریب میں موجود ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسری وجہ یقین نہ آنے کی یہ تھی کہ واہگہ جیسی حساس جگہ پر اتنی سیکورٹی ہوتی ہے کہ وہاں پرندہ بھی پر نہیں ہلا سکتا۔ خیر چند لمحوں بعد اور میسیجز بھی آگئے جنہوں نے اس خبر کو یقین میں بدل دیا۔ اور چند لمحوں میں 50 سے زائد افراد کی شہادت کی خبر موصول ہوگئی۔ جبکہ 150 سے زائد زخمی ہوگئے۔ ابھی اتنی تصدیق تو ہوگئی کہ واقعی دھماکہ ہوا ہے مگر یہ ذہن میں نہیں آرہا تھا کہ خود کش یا پھر بارودی مواد اتنی سیکورٹی کے باوجود کیسے اندر پہنچ گیا۔جب اپنے قریبی دوست واصف محمود چوہدری کو کال کی جوکہ اے آر وائی لاہور سے وابستہ ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ خود اس وقت جائے وقوعہ پر ہے اور پچاس سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔ جبکہ دھماکہ سٹیڈیم سے باہر اس وقت ہوا جب تقریب ختم ہوگئی اور لوگ باہر آنے لگے۔ گویا خود کش بمبار اس جگہ پہنچ چکا تھاجہاں سے آگے سخت سیکورٹی شروع ہونی تھی۔ دھماکہ نے بہت سے خاندانوں کو اجاڑ دیا ۔ شہید ہونے والوں میں مختلف علاقوں کے لوگ شامل ہیں۔ سمندری سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے 8 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ جبکہ ایک دوسرے خاندان کے 6 افراد کے زندگی کے چراغ گل ہوگئے۔شہید ہونے والوں میں کراچی، چکھر اور خیبر پختونخواہ کے لوگ شامل ہیں۔ زخمیوں میں کئی ایک کی حالت خطرے میں ہے۔ ہمارے سیاست دان اور انتظامیہ ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ ہر ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہا ہے۔ پنجاب حکومت نے شہیدوں کیلئے 5 لاکھ جبکہ زیادہ زخمیوں کیلئے 75 ہزار اور معمولی زخمیوں کیلئے 25 ہزار روپے فی کس کا اعلان کردیا۔ ساتھ ہی کالعدم تنظیم جند اﷲ نے خود کش حملے کی ذمہ داری بھی قبول کرلی ہے۔ جنہوں نے چند روز پہلے کوئٹہ میں مولانا فضل الرحمن پر ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی تھی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے دھماکے کی مزمت کی ہے جبکہ چند ایک اس موقع پر سیاسی دکان چمکاتے نظر آئے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں دھماکوں کا سلسلہ آخر کب تک چلتا رہے گا اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ پاکستانی عوام کا کیا قصور ہے؟ ہر جگہ ان کو کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے؟ ان پر دنیا کیوں تنگ کر دی گئی ہے؟ ان سے جینے کا حق کیوں چینا جا رہا ہیں؟ یہ چند ایسے سوالات ہیں جن کا جواب شائد کسے کے پاس بھی نہیں۔ ہمارے عوام ہمیشہ بے وقوف بن کے دھوکے میں آجاتے ہیں اور سیاسی دکان چمکانے والوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ کوئی دھرنوں کے پیچھے بھا گ رہا ہے تو کوئی حکمران جماعت کی تعریفیں کرتے ہوئے نہیں تھکتا۔ ہم اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ اپنے نفع و نقصان کو بھول ہی چکے ہیں۔ بس جو شخص کسی بھی چیز کا نعرہ لگائے ہم اس کے پیچھے روانہ ہوجاتے ہیں۔ کبھی اپنے بارے میں نہیں سوچا۔

پاکستان میں عوام کو جتنی بے دردی سے مارا جارہا ہے ان کی ذمہ دار سیاسی جماعت اور سیکورٹی ادارے ہر گز نہیں۔ ذمہ دار صرف اور صرف عوام ہیں۔ جو اپنی بے حس میں اس حد تک گزرچکے ہیں کہ ان کا کسی چیز کا احساس تک نہیں۔ اج ہمارا جتنا بھی نقصان ہو رہا ہے، بد امنی پیدا ہورہی ہے، دھماکے ہورہے ہیں ، ٹارگٹ کلنگ کی جارہی ہے۔ یہ سب کے سب سیاسی لبادے میں کئے جارہے ہیں اور ذمہ دار صرف اور صرف عوام ہیں۔ کیونکہ عوام ہی ایسے ہاتھوں کو مضبوط کر دیتی ہے جو عوام کا خون چوس کر انکی زندگی جہنم بنادیتے ہیں۔ آج ہمیں جاگنا ہوگا۔ ہم نے اپنے کل کو بدلنے کیلئے اج سوچنا ہوگا۔ نہ حکمران کے پیچھے بھاگنا ہے نہ انقلاب کے پیچھے بھاگنا ہے۔ صرف اور صرف اپنے ضمیر کو جگانا ہے۔ اور پرامن طریقے سے ایسے تمام عناصر کے خلاف اواز بلند کرنی ہے جو ہمارے جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں سیکورٹی اداروں کو درخواست کرنی ہے کہ وہ ملک کی سرحدوں اور ہماری جانو مال کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ اس کیلئے ہر ممکن طریقہ کار کو اختیار کرے۔ کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ حکمرانوں سے عرض ہے کہ ایسے عناصر کے گرد گھیرا تنگ کرے جو ملک و قوم کے دشمن ہیں اور عدلیہ سے التجاء ہے کہ آج اگر کوئی بھی شخص چاہے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہوں ملک اور عوام کو میلی انکھوں سے دیکھتا نظر آئے تو ان کی انکھوں کو نکال کر نشان عبرت بنائے تاکہ آئندہ کوئی ایسی جرأت نہ کرسکے۔

آخر میں تمام پاکستانیوں سے اپیل ہے کہ وطن عزیز میں امن کا ماحول بنانے کیلئے ہر ممکن کو شش کرے۔ اگر آس پاس کوئی مشکوک چیز نظر آئے یا کوئی مشکوک شخص نظر آئے تو پورا نزدیکی سیکورٹی اداروں کو مطلع فرمائے۔ جبکہ سیکورٹی اداروں کا بھی فرض بنتا ہیں کہ ہر عوامی جگہ پر ایسی ہدایات کے بورڈ اویزان کرے اور ایمرجنسی رابطہ نمبرز ہر جگہ مہیاں کرے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آنے سے پہلے ہی تدارک ہوسکے۔
Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 83181 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.