بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ نوبل
انعام ان شخصیات کو دیا جاتا ہے جنھوں نے زندگی کے کسی بھی شعبے میں گراں
قدراور عظیم خدمات سر انجام دی ہوں۔اور جس کی دنیا گواہی دے چاہے وہ طب ہو،
سائنس ہو،لٹریچرہو، تعلیم کا شعبہ ہو یا فلاحِ نسانیت میں خدمات ہوں ،وغیرہ
وغیرہ۔اور یہ بھی سنتے رہے ہیں کہ یہ ایوارڈ بلا کسی تفریق یا رنگ و نسل یا
قومیت سے مبرا دیا جاتا ہے۔اس کی مثال نوبل پیس پرائز حا صل کرنے والوں میں
چندمشہورمسلم،ہندو اور کرسچئین شخصیات جن میں فلسطین کے لیڈر یاسر عرفات
امن ایوارڈ ، مصر کے انور سادات امن ایوارڈ ،محمد البرادی امن ایوارڈ،
پاکستان کے مایہ ناز سائنسدان عبدالسلام کو فزکس میں خدمات پر نوبل ایوارڈ
دیا گیا۔کرسچئین کمیونٹی میں نوبل پرائز حاصل کرنے والوں میں انڈیا سے مدر
ٹریسا،امریکہ کے صدر باراک اوباما نے امن نوبل ایوارڈ جیتا۔ہندو کمیونٹی
میں انڈیا سے سبرامینین چندراشیکر نے فزکس میں ،رابندر ناتھ ٹیگور نے
لٹریچر میں نوبل پرائز حاصل کیا۔ اس کے علاوہ نیلسن مینڈیلا، کوفی
عنان،جارج برنارڈ شا،ونسٹن چرچل،الیگزینڈر فلیمنگ،مارٹن لوتھر کنگ اور اس
کے علاوہ بیشمار افراد نے نوبل ایوارڈ حاصل کیا۔
اگر آپ نوبل پرائز حاصل کرنے والوں کی فہرست پر غور کریں تو اس میں ایک چیز
بہت اہم ہے کہ زیادہ تر نوبل ایوارڈ ان شخصیات کو دیا گیا جنھوں نے واقعی
سائنس،طب ،امن یا لٹریچر میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی اور اپنی محنت کے
بل بوتے پر اس انعام کے حقدارقرار پائے اور وہ تمام لوگ واقعی قابلِ تعریف
اور قابلِ قدر ہیں جن کی کوششوں سے آج لوحِ انسانیت فائدہ اٹھا رہی ہے۔چا
ہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔میرے خیال کے مطابق چند لوگوں کو
نکال کر باقی جنھوں نے نوبل پرائز حاصل کیا وہ واقعی اس کے حقدار تھے اور
انھوں نے انسانیت کے بہت کچھ کیا۔
جن چند لوگوں کے نکالنے کا میں نے ذکر کیاوہ اس انعام کے حقدار نہیں تھے ان
میں امریکہ کے موجودہ صدر باراک اوبامہ کو بین الاقوامی روابط کی مضبوطی
میں غیر معمولی کارکردگی اور لوگوں کے درمیان روابط بڑھانے پر امن نوبل
پرائز دیا گیا ۔حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے پوری دنیا کا امن اس
وقت تہہ و بالا ہو چکا ہے۔امریکہ اپنی طاقت کے نشہ میں بدمست ایک ہاتھی کی
طرح جو اس کے راستے میں آ رہا ہے اس کو اپنے پاؤں تلے روندتا جا رہا ہے۔سو
ایسے شخص کو جس کے ہاتھ میں اس بدمست ہاتھی کی کمان ہو جس کو وہ جب اور جس
کی طرف چاہے موڑ لے اور اسے پاؤں تلے کچل کر رکھ دے۔ وہ کیسے امن کا حقدار
کہلا سکتا ہے۔
اسی طرح کوفی عنان کو جودنیا کے نام نہاد منصف ادارے اقوامِ متحدہ کا
سیکریٹری جنرل رہا ہے ۔جس ادارہ کے ذمہ دنیا کا امن برقرار رکھنا ہے۔جس کی
حیثیت ایک ثالثی ادارے کی ہے اور جو ایک کٹھ پتلی کی طرح امریکہ بہادر کے
اشارے پر ناچ رہا ہے لہذا جس ادارے یا شخص نے آج تک امن کے لئے کوئی خاطر
خواہ کام ہی نہیں کیا۔ توپھروہ امن کے نوبل پرائز کا حقدار کیسے ہو سکتا
ہے۔ ؟ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہیں بھی دو ملکوں کے درمیان سیاسی، معاشی
یا معاشرتی مسائل کو حل کرنے میں اقوامِ متحدہ کا کوئی کردار نہیں
رہا۔عالمی جنگیں ہوں یا مشرقی مغربی کوریا کا تقسیم کا مسئلہ ہو،پانی کا
مسئلہ ہو یا کشمیر کا مسئلہ ہو ،اسرائیل کا غزہ میں فلسطینیوں پر ظلم و
بربریت کا معاملہ ہو یاروس کی افغانستان میں یلغار ہویابرما میں مسلمانوں
پر انسانیت سوز مظالم کی داستان وغیرہ وغیرہ
اب بات آتی ہے پاکستان کی بیٹی ملالہ یوسف زئی کی اس میں کوئی شک نہیں کہ
پاکستان کے لئے نوبل پرائز ایک بہت اعزاز کی بات ہے ۔کہ اس بچی جس کی عمر
تقریباََ سولہ سال ہے ایک ایسے علاقے میں کہ جہاں بچیوں کی تعلیم حاصل کرنے
میں بہت سی رکاوٹیں ہیں وہاں اس نے بچیوں کی تعلیم کے سلسلے میں کچھ کام
کیا ہو گا پھر اسی جدوجہد میں اس نے انتہا پسندوں سے گولیاں بھی کھائیں اور
موت سے لڑی بھی مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک سولہ سالہ بچی کی سوات کی
بچیوں کی تعلیم کے لئے اس قدر خدمات ہو سکتی ہیں ۔۔؟جو بچی ابھی خود ہائی
سکول کی طالبعلم ہے جس کی سوچ ابھی اتنی پختہ نہیں ہوئی جو ابھی خود سیکھنے
کے مراحل سے گزر رہی ہے اس کی عمر کو مدِنظر رکھ کر زرا اندازہ لگائیں کہ
اتنی چھوٹی عمر میں اس بچی نے کتنی جدوجہد کی ہو گی کہ اس کو نوبل پرائز کا
حقدار قرار دے دیا گیا۔۔؟ہم نے تو سنا تھا کہ اس انعام کو حاصل کرنے کے لئے
سالوں کی جدوجہد درکار ہوتی ہے پھر آپ کے کام کو جانچنے اور پرکھنے کے
بعدجیوری اس بات کا فیصلہ کر تی ہے کہ آپ نوبل پرائز کے حقدار ہیں یا
نہیں۔لیکن ملالہ تو پھر بالکل بھی اس انعام کی حقدار نہیں ٹھہرتی۔ملالہ سے
آشنائی ہونے سے پہلے میری طرح دیگر عالم بھی اس بات سے ناآشنا ہے کہ ملالہ
یوسف زئی نے آخرایسا کیا کر دیا اوراس کی جدوجہد کتنے سالوں پر محیط ہے کہ
اس کو نوبل پرائز سے نوازا گیاجبکہ اس کی عمر ابھی صرف سولہ سال ہے ۔
اس نے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے بچیوں کی تعلیم ، مشکلات اور اپنے علاقے
سوات کے حالات و واقعات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ہو گا میں نے ذاتی طور پر
اس کتاب کا مطالعہ نہیں کیا۔اس لئے اس پر کوئی رائے نہیں دے سکتا۔کتاب بھی
وہی لکھ سکتا ہے جس نے زمانے سے اور زندگی سے بہت کچھ سیکھا ہو۔بھلا سولہ
سال کی بچی نے ابھی زمانے سے کیا سیکھا ہو گا۔(لیکن چلیں یہ خداداد صلاحیت
بھی ہو سکتی ہے۔ ) لیکن ایک بات ضرور سمجھ میں آتی ہے جو کہ ملالہ کے نوبل
انعام کا باعث لگتی ہے کہ ملالہ کے والد جناب ضیاء الدین یوسف زئی "گلوبل
پیس" کے نام سے ایک این جی او چلا رہے تھے جس کو سی آئی اے فنڈز فراہم کرتی
تھی۔اور سی آئی اے نے ضیاء الدین سے مل کر ملالہ پلان ترتیب دیا۔ جس کا
ڈراپ سین تمام دنیا نے دیکھا لہذا امریکہ بہادر سے اسی وفاداری کے صلے میں
ملالہ یوسف زئی کو اس ایوارڈ سے نوازا گیاہو گا ۔بات ہو رہی تھی نوبل
ایوارڈ کی ۔اگر ایوارڈ دینا ہی تھا تواس بچے کو دیا جانا چاہئے تھا جس نے
اپنے سکول میں ہونے والی دہشت گردی کو ناکام بنایا اوربچوں اور اساتذہ کو
بچاتے ہوئے خود کش حملہ میں شہید ہو گیا۔ اگر ایوارڈ دینا ہی تھا تو اس
سکول ٹیچر کو دیا جانا چاہئے تھا جوجلتی گاڑی میں سے بچوں کو نکالنے کی
کوشش میں شہید ہوئی۔مگر سوال یہ ہے کہ آخر اس بچی کو نوبل انعام سے نوازنے
کے پیچھے مقصد کیا ہے کیا طالبان کو کوئی پیغام دیا گیا ہے ۔۔؟یا مسلمانوں
اور اسلام کو بدنام کرنے کے لئے اور یورپ ،امریکہ میں عورتوں میں تیزی سے
اسلام پھیلنے سے خوف زدہ ہو کر ایسی مذموم حرکتیں کر رہے ہیں اور اسلامی
معاشرے میں عورت پر ہونے والے نام نہاد مظالم کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے
ہیں تاکہ ان کی عورتیں اسلام کی طرف مائل نہ ہوں ۔لیکن ایک بات طے ہے کہ اس
سے نوبل پرائز حاصل کرنے کے خواہشمند دنیا کے بہترین صلاحیت مند اور مستحق
افراد کے لئے ایک پیغام گیا ہے کہ نوبل انعام حاصل کرنے کے لئے کسی محنت یا
تجربے کی کوئی ضرورت نہیں صرف امریکہ بہادر سے وفاداری کافی ہو گی۔
درج بالا متنازعہ شخصیات کو نوبل پرائز کا حقدار قرار دینا نوبل کمیٹی کی
ساکھ کو متاثر کرتا ہے اور اس انعام کی افادیت مشکوک ہو جاتی ہے۔ اگر
پاکستان کی ہی کسی شخصیت کو دینا تھا تو اس کا اصل حقدار تھا عبدالستار
ایدھی۔جس کی فلاحِ انسانیت کے لئے دنیا بھر میں 65سالہ جدوجہد اور خدمات کا
سارا عالم گواہ ہے۔ جس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی فلیٹ ایمرجنسی میڈیکل سروس
جس میں تقریباََ 1800 کے قریب ایمبولینس،28 کے قریب جان بچانے والی کشتیاں،
اور دو ہوائی جہاز موجود ہیں جو دن رات انسانیت کی خدمت کے لئے کوشاں ہیں
اس کے علاوہ بے شمار میڈیکل ڈسپنسریاں جو چوبیس گھنٹے کام کر رہی ہیں بے
شمار زچگی سینٹرز،اولڈ ہومز،نرسنگ سکولز،بے گھر افراد کے لئے جائے
پناہ،بحالی سینٹرز، لاوارث لاشوں کی تدفین، گمشدہ افراد کے لئے ہاٹ لائن
اور پاکستان میں سب سے بڑا مردہ خانہ قائم کیا جہاں لاوارث اور حادثاتی موت
کے باعث مرنے والوں کی لاشوں کو وقتی طور پر رکھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ
ایدھی فاؤنڈیشن نے امریکہ کے سونامی کے متاثرین،بنگلہ دیش کے طوفان
زدگان،جاپان کے زلزلہ زدگان کے لئے بے پناہ خدمات انجام دیں۔اس کے علاوہ
امریکہ،جاپان،متحدہ عرب امارات،کینیڈا اور برطانیہ میں ایدھی ویلفئیر سنٹرز
قائم کئے ہیں۔اور اس کے علاوہ ناجانے کہاں کہاں کیا کچھ کیا۔
انصار برنی کی ہیومن رائٹس کے لئے خدمات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پچیس
سال سے انصاف کے متلاشی مظلوم اور غریب افراد کی مدد کے لئے کوشاں۔پوری
دنیا سے ان پچیس سالوں میں تقریباََ سات لاکھ بیگناہ افراد کو رہائی
دلوائی۔انسانی سمگلنگ ،عورتوں کی سمگلنگ ،غلامی سے نجات اور غلطی سے بارڈر
کراس کر جانے والے افراد کی رہائی کے لئے بہت کام کیا۔صومالیہ کے قذاقوں سے
قیدیوں کی رہائی ہو یا عرب ممالک سے اونٹوں کی دوڑ میں استعمال ہونے والے
معصوم بچوں کی رہائی۔وغیرہ غیرہ۔ یہ ہیں اصل حقدار نوبل انعام کے۔۔
چہرے سے تعصب کی ذرا عینک تو اتارو
ہم ہی نظر آئیں گے دیکھو گے جدھر تم
ارے دنیا کے منصفو ،عقل کے اندھو ۔۔کیوں انسانیت کا مذاق اڑاتے ہو۔ نوبل
پرائز کے بانی الفریڈ نوبل کی روح بھی بیچاری اس ناانصافی پر تڑپتی ہو گی۔
اگرکسی کو نوازنا ہی ہے تو اس کی عمر اور تجربے کا ہی خیال کر لیا کرو اور
کم سے کم اس میں کوئی ایک گُن تو دیکھ لو۔ اس میں زیادہ نہیں تو کوئی تھوڑی
بہت قابلیت تو پرکھ لو۔۔ آخر کوئی پیمانہ تو ہو گا نا تمھارے پاس جانچنے
پرکھنے کا ۔ یا یوں ہی اندھیرے میں سوئی میں دھاگہ ڈالتے رہو گے۔ |