بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔
اس کا رقبہ 347190 مربع کلو میٹر ہے، جو پاکستان کے کل رقبے کا 43.6 فیصد
حصہ بنتا ہے۔ اس صوبے کی آبادی ایک محتاط اندازے کے مطابق 90 لاکھ سے ایک
کروڑ کے درمیان ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان محل وقوع کے لحاظ سے
انتہائی زیادہ اہمیت کا حامل صوبہ ہے۔ اس کی سرحدیں پاکستان کے باقی تمام
صوبوں سے بھی ملتی ہیں، جبکہ بین الاقومی لحاظ سے مغرب میں اس کی سرحد
ایران سے خلیج فارس کے عین سامنے اور شمال میں جنوبی افغانستان سے ملتی ہے۔
قدرتی وسائل اور معدنیات کے لحاظ سے صوبہ بلوچستان پاکستان کا سب سے امیر
ترین صوبہ ہے۔ یہاں گیس، لوہے، سونے، کاپر اور کوئلے کے بہت بڑے ذخائر
موجود ہیں۔ بلوچستان میں ریکوڈک ضلع چاغی کا پسماندہ ترین علاقہ ہے۔ ایک
سروے کے مطابق دنیا کے دوسرے بڑے ذخائر پاکستان کے ان دور دراز اور پسماندہ
ترین علاقوں میں موجود ہیں، جہاں سے سونا نکالنے کا کام 2006 سے جاری ہے۔
پاکستان کی زیادہ تر ساحلی پٹی بھی بلوچستان میں ہے، جس کی سمندر کے ساتھ
گہرائی ایک ہزار میٹر سے تین ہزار میٹر تک ہے اور اس طرح یہ نہ صرف بڑے
تجارتی بحری جہازوں بلکہ ہنگامی حالات میں پاک بحریہ کے جہازوں کی نقل و
حمل کے لیے بھی سود مند ہے۔ اس طرح دفاعی لحاظ سے بھی اس کی اہمیت کسی طور
کم نہیں۔ یہاں بیک وقت 26 جہاز لنگر انداز ہو سکیں گے۔ بلوچستان گوادر پورٹ
کی وجہ سے مزید اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ گوادر پورٹ کی تعمیر کے بارے میں
پاک چین اشتراک دنیا بھر کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے اور پاکستان دشمن غیر
ملکی ایجنسیاں بلوچستان کو بدامنی کی بھٹی میں جھونکے رکھنا چاہتی ہیں۔
گوادر پورٹ کی تعمیر میں چین نے بھرپور تعاون کیا ہے اور اس کا فائدہ دونوں
ممالک کو پہنچے گا۔ چین کی بڑی تجارتی سرگرمیاں اس کی مشرقی ساحلی پٹی کے
ساتھ ہو رہی ہیں۔ چینی جہازوں کو خلیج عدن تک پہنچنے کے لیے بحر ہند کے
ساتھ ساتھ اسٹریٹس آف ملاکہ کے راستے جانا پڑتا ہے، جہاں پہنچنے کے لیے
انہیںتقریبا پانچ ہزار میل کا طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے، جبکہ گوادر سے
خلیج عدن صرف 11 سو میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان
شاہراہ قراقرم اورگوادر تک براہ راست ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بھی طے
ہے۔ اس طرح مستقبل میں چین کی تجارت اس کے مغربی حصے میں ہوگی اور وہاں سے
گوادر کے ذریعے اس کے سامان کی ترسیل ہوگی۔ وسط ایشیائی ممالک بھی گوادر کے
راستے کا بھرپور فائدہ اٹھا سکیں گے۔ یہی بات پاکستان دشمن عناصر کو کھٹکتی
ہے اور وہ پاکستان کی ترقی کے ان منصوبوں خصوصاً گوادر پورٹ کو کسی صورت
کامیابی سے ہمکنار ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔
مبصرین کے مطابق بلوچستان میں بے شمار قدرتی وسائل و معدنیات کی بدولت
پاکستان کا یہ صوبہ عالمی سازشوں کا مرکز بن چکا ہے۔ بلوچستان میں روزانہ
بیسیوں تخریبی واقعات مختلف حصوں میں رونما ہوتے ہیں، جس سے یہاں بدامنی
بڑھتی ہے اور اس تخریب کاری کے پس پردہ ایک بہت ہی منظم قوتوں کی سازشوں کا
پتا بھی چلتا ہے۔ یہ قوتیں پاکستان کے اس اہم ترین صوبے میں ہر گز امن نہیں
چاہتیں۔ یہ قوتیںبلوچستان میں شورش برپا کرکے پاکستان کی معاشی اور تجارتی
خوشحالی پر چھری پھیرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بلوچستان کی اسٹریٹجک
اہمیت کی وجہ سے یہاں متعدد ممالک کی خفیہ ایجنسیاں منفی سرگرمیوں میں ملوث
پائی گئی ہیں اور تخریب کاری میں شدت اس وقت سے دیکھی جارہی ہے، جب معاہدے
کے تحت چین نے گوادر کے ساحل پر بندرگاہ کی تعمیر کا آغاز کیا۔ قدرتی گہرے
سمندر کے ساحل پر بندرگاہ کی تعمیریوں تو عالمی طاقتوں کے لیے ناقابل قبول
تھی، مگر بھارت نے اس کی تعمیر کو رکوانے کی لیے فوری طور پر ریشہ دوانیوں
کا لا متناہی سلسلہ شروع کیا۔ حتیٰ کہ مئی2008ءکوبھارتی پارلیمنٹ میںایک
قرارداد پاس کی گئی، جس میں گوادر کو بھارت کی سلامتی کے لیے خطرناک قرار
دیتے ہوئے اس کے تدارک کا فیصلہ کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق بھارت اور دیگر
ممالک کی جانب سے تخریبی واقعات کے شواہد کئی بار سامنے آچکے ہیں اور
بلوچستان میں غیر ملکی دشمن عناصر کی جانب سے اپنی سازشوں کا سلسلہ جاری
ہے۔ بلوچستان پولیس کے انسپکٹر جنرل محمد آملیش نے کہا ہے کہ بلوچستان کے
موجودہ واقعات میں تین ممالک کی مستعد جاسوس ایجنسیاں اپنے مفادات کے لیے
سرگرم عمل ہیں، جن میں انڈین را، کے جی پی اور افغان انٹیلی جنس شامل ہیں۔
یہ تینوں ایجنسیاں ایک دوسرے کی براہِ راست مددگار رہیں۔ اسلحہ، گولہ بارود
اور لاجسٹک مدد میں مشترکہ طور پر کام کر رہی ہیں۔ بلوچستان میں پاکستانی
فورسز کا سدرن زون جنرل جنجوعہ کی کمان میں پولیس اورایف سی کے ذریعے
دشمنوں کے عزائم بھرپور طور پر ناکام بنا رہا ہے۔ پاکستان کی تمام سیکورٹی
فورسز دشمنوں کے عزائم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر عزائم ناکام بنا
رہی ہیں۔ بلوچستان میں پراکسی وار جاری ہے، ہماری ایجنسیوں کی رپورٹ سے
ثابت ہے کہ تین ممالک کی ایجنسیاں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ایک ٹیم کے
طور پرکام کر رہے ہیں اور یہاں سادہ لوح لوگوں کو بہکا کر اپنے عزائم حاصل
کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے بلوچستان میں ایک کارروائی کے
دوران بڑی تعداد میں دھماکاخیزمواد، گولہ بارود اور اسلحہ برآمد کیا گیا
تھا۔ اسلحہ و گولہ بارود میں 25 مارٹر گولے، 100 سے زاید میزائل، راکٹ
لانچرز اور 30 کلاشنکوفیں، 18خود کش جیکٹس، 107 راکٹ گولے اور تقریباً 2 ٹن
دھماکا خیز مواد بھی برآمد کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ چار ہزار کلو گرام
دھماکا خیز مواد،8 خود کش جیکٹس ،31 سب مشین گنیں اور 101 میزائل،106 مارٹر
گولے اور ایک ہزار پراما ریکارڈ برآمد کیاگیا ہے۔ گزشتہ ہفتے صوبائی وزیر
داخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ بعض ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیز بارود
واسلحہ مہیا کرتی ہیں، ہمارے ملک اور بلوچستان میں بڑے پیمانے پر تباہی
پھیلائی جاسکے۔ ہمارے بلوچ بھائی امن پسند ہیں، بیرون ممالک کی ایجنسیز
کوشش کررہی ہیں کہ بلوچستان کے امن کو خراب کیاجائے، لیکن ہم حکومت اور
اپنے سیکورٹی اداروںکے تعاون سے ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے
کامیابیاں حاصل کرتے رہیںگے۔ قیام امن اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے
کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ صوبے میں ہونے والی دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ
ملوث ہے۔ جبکہ دو سال قبل آئی جی ایف سی میجر جنر ل عبیداللہ خان بھی یہ
کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان میں 20 دیگر ممالک کی ایجنسیاں اپنے مقاصد کے حصول
کے لیے سرگرم ہیں۔ ایسی کارروائیوں میں ملک کے اندر اور ملک سے باہر بیٹھے
ہوئے عناصر ملوث ہیں۔ اسی طرح امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے گزشتہ روز
کہا ہے کہ افغانستان میں نیٹو افواج کی موجودگی سے بلوچستان کے حالات خراب
ہوئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق بلوچستان میں ایک عرصے سے غیرملکی عناصر انارکی
پھیلا رہے ہیں، جبکہ بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کے بہت سے ثبوت خفیہ
ایجنسیوں کے ذریعے حکومت کے پاس موجود بھی ہیں۔ صوبے میں دشمن ممالک کی
خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کو کسی طور بھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتا، یہ
ایجنسیاں پیسوں کا لالچ دے کر قومیت پرست تحریکوں کو اپنے مذموم مقاصد کے
لیے استعمال کرتی ہیں، بلوچستان میں چونکہ سرادار وں قابض ہیں اور غربت و
پسماندگی انتہائی زیادہ ہے، جس سے وہاں کا غریب طبقہ آسانی سے غیرملکی
ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ کر اپنے ہی ملک کے خلاف استعمال ہوجاتے ہیں، لہٰذا ان
حالات میںحکومت کو چاہیے کہ بلوچستان کے تما م مسائل کو حل کرکے بلوچ قوم
کو قومی دھارے میں واپس لائے اور دشمن عناصر کی سرکوبی کرے۔ |