پھر سنا ہے بم پھٹا ہے شہر میں
(Tajamul Mehmood Janjua, )
آٹھ محرم الحرام کو ایسی خوفناک
صورت حال پیدا ہوئی کہ پورا ملک لرز اٹھا۔ سکیورٹی اداروں میں کھلبلی مچ
گئی۔ سکیورٹی کو فول پروف بنائے جانے کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
واہگہ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب کے بعد جیسے ہی محب وطن پاکستانی
گھروں کو واپس جانے کے لئے نکلے ،گھس بیٹھئے نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنا
کام کر دکھایا۔اس واقعہ میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق انسٹھ افراد شہید
جبکہ سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ شہید ہونے والوں میں ایک خاندان کے آٹھ
افراد جبکہ ایک کے پانچ افراد شامل ہیں۔تین رینجرز اہلکاروں نے بھی جام
شہادت نوش کیا۔ آہ!کتنا دل دہلا دینے والا واقعہ تھا۔
اتوار کا دن ہونے اور اتوار کے بعد محرم الحرام کی تعطیلات کے باعث شہریوں
کی بڑی تعداد واہگہ بارڈر پر قومی پرچم اتارے جانے کی تقریب میں شریک تھی۔
شام تقریباً 05:40 کا وقت تھا اور رینجرز مارکیٹ کے سامنے یعنی باب آزادی
سے پانچ یا چھ سو گز پیچھے یہ خودکش حملہ کیا گیا۔پولیس حکام کے مطابق حملہ
آور کی عمر اٹھارہ سے بیس سال کے درمیان تھی اور حملہ میں آٹھ سے دس کلو
گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ سی سی پی او لاہور کا کہنا تھا کہ جائے
وقوعہ سے بال بیرنگ بھی ملے ہیں اور یہ بال بیرنگ ہی شہریوں کی بڑی تعداد
میں شہادتوں کا سبب ہیں۔
محرم الحرام یا دیگر اہم دنوں میں دہشتگردی کے خدشات تو موجود ہوتے ہی ہیں
لیکن اس بار لاہور پولیس کی جانب سے ممکنہ حملہ آور کا خاکہ بھی جاری کیا
گیا اور واہگہ بارڈر پر دہشتگردی کا خطرہ بھی ظاہر کیا گیا ۔ یہاں سوال یہ
پیدا ہوتا کہ جب ممکنہ دہشتگردی کی اطلاعات پہلے سے ہی موجود تھیں تو ایسے
اقدامات کیوں نہ کئے گئے کہ دشمن کے ناپاک عزائم کو ناکام بنایا جا سکے۔
اسی حوالہ سے بات کرتے ہوئے رینجرز حکام کا کہنا تھا کہ اگر پنجاب پولیس
تعاون کرتی تو اس سانحہ سے بچا جا سکتا ہے۔ یقینا واہگہ سانحہ اور رینجرز
حکام کا یہ بیان سکیورٹی کو فول پروف بنانے کے دعویداروں ( پولیس کے کرپٹ
اور پیٹو اہلکاروں ) کے منہ پر زبردست طمانچہ ہے اور دشمن کی طرف سے اشارہ
بھی کہ ہم تمہارے حساس ترین علاقوں تک بھی با آسانی پہنچ سکتے ہیں، لہذا
کسی خوس فہمی میں نہ رہنا۔
لیکن سلام ہے ان رینجرز اہلکاروں پر جن کے مناسب انتظامات کے باعث خود کش
حملہ آور اپنے ٹارگٹ تک نہ پہنچ سکا۔ شہید ہونے والے رینجرز کے اہلکاروں
میں سے ایک کا تعلق میرے شہر منڈی بہاؤالدین سے تھا۔ لانس نائیک محمد شبیر
چار سال سے واہگہ بارڈر پر تعینات تھا۔
میجر (ر) غلام مصطفیٰ نے واہگہ سانحہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سمیت دیگر
بہت سے واقعات میں دشمن ملک بھارت کا ہاتھ ہے اور پاکستان کو دوستی کی
پتنگیں بڑھانے کی بجائے سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ قیادت کی کمزوری ہے کہ
بھارت کو اس قدر شہہ ملی ہوئی ہے۔ جبکہ وزیر داخلہ پنجاب نے بھی اسی طرف
اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حملہ میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کے امکان کو رد
نہیں کیا جا سکتا۔
ہمارا دشمن ہمیں للکار نہیں رہا بلکہ ہم پر کئی بار وار بھی کر چکا ہے۔
کتنے ہی معصوم شہریوں کو بلااشتعال فائرنگ کر کے بھی شہید کیا گیا ہے۔ مگر
ہمارے حکمران اقتدار کے نشے میں اس قدر مست ہیں کہ انہیں اپنے بے گناہ شہری
مرتے نظر ہی نہیں آ رہے۔ میں سمجھ نہیں پا رہا کہ ہمارے حکمران اپنی
عیاشیوں کو قائم رکھنے کے لئے ہمیں واہگہ جیسے اور کتنے سانحات کا شکار
کروائیں گے۔
عابد جمیل عابد کی شاعری میں اگر میں واہگہ سانحہ کو بیان کرنا چاہوں تو ان
کے الفاظ کچھ اس طرح تھے کہ
موت کا پہرہ لگا ہے شہر میں
ہر کوئی سہما ہوا ہے شہر میں
چیتھڑے اجسام کے تھے چار سُو
پھر سُنا ہے بم پھٹا ہے شہر میں
بوڑھی ماں کے سامنے بیٹا رہو
چاند میرے، کیا رکھا ہے شہر میں
پھر کسی چوراہے میں گولی چلی
پھر کوئی لاشہ پڑا ہے شہر میں
امن کی باتیں فقط باتیں ہی ہیں
امن عابدؔ کب رہا ہے شہر میں۔۔۔۔
بلاشبہ درد دل رکھنے والے ہر شخص کے لئے یہ سانحہ خون کے آنسو رلا دینے
والا تھا مگراک لمحے کو تصور کیجئے کہ ان پر کیا بیتی ہو گی جن کے پورے
خاندان دہشتگردوں کے ناپاک منصوبے کی نذر ہو گئے۔ ان معصوم بچوں پر کیابیتی
ہو گئی جن کی انکھوں کے سامنے ان جیسے معصوم فرشتے ، ان کے پیارے خون میں
لت پت پڑے تھے۔ان کچے اذہان پر کیا نقش ہوا ہو گا جو دل میں پاک فوج کی
محبت اور آنکھوں میں پاک فوج میں شمولیت کا سپنا سجائے واہگہ پر قوم کے
سپوتوں کو خراج تحسین پیش کرنے گئے تھے۔او اقتدار کی حوس کے مارے حکمرانو!
محض بیانات کی سیاست کرنے والو! روز قیامت ان معصوموں کو کیا جواب دو گے۔۔۔۔۔۔ |
|