اے وطن جاگ کہ کچھ جا پسند

منقسم ریاست جموں کشمیر کے تینوں حصوں میں موجود مسند اقتدار کے پجاری و حواری جو چھ عشروں سے اس مظلوم و محکوم قوم کے فکری انتشار کے زمہ دار اور اس سے مستفید ہوتے ہوئے اغیار کے دربار یوں اور دربانوں سے دادتحسین سمیٹنے کے ساتھ ساتھ دولت کی بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں بلکہ ننگے نہاتے رہے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جن کا شجرہ نصب عمر عبداﷲ ،شیخ عبداﷲ ،افضل بیگ ،بخشی غلام محمد ،چوہدری غلام عباس ،ابراہیم خان ،سکندر حیات ،فاروق حیدر ،سلطان چوہدری ،ممتاز راٹھور،کے ایچ خورشیدسے ہوتا ہوا ،محبوبہ مفتی ،مفتی سعید تک اور پھر ان سے پنڈت بیر بل سے ہوتا ہوا میر مقیم و خواجہ ظہیر تک اور پھر ان سے شیخ یعقوب صرفی و بابا داؤد خاکی سے جا ملتا ہے جنہوں نے اس دیس میں غیر ملکی آقا درآمد کرنے کی وہ بنیاد رکھی کہ آج اکیسویں صدی میں بھی قوم اس سے نجات ناں پا سکی اور ہر دور میں اس قبیل سے وابستہ لوگ اس دنیا فانی سے گزر جاتے ہیں ان کی اس روائت و مشن کو آگے بڑھانے کے لئے ایک بڑی کھیپ ہمہ وقت تیاررہتی ہے ۔اور ان کا مشن۔۔۔ صرف ایک پر آسائش زندگی کے لئے لفظ ’’کشمیر‘‘ کو بیچنا ۔۔۔ چاہے جتنے دام ملیں ۔یہ وہ مخلوق ہے جس کے لئے یقینا ازازیل ہر روز خدائے بزرگ و برتر کے دربار میں حاضر ہو کر یہ التجا کرتا ہو گا کہ ائے میرے رب !آپ نے روح زمین پر واقع اس جنت العرضی ’’کشمیر‘‘میں ایسے لوگ مسلط کرکے میرے ساتھ بڑی نا انصافی کی ہے اگر ایسا کرنا ہی تھا تو مجھے ’’ابلیس ‘‘ نام سے کیوں نواز دیا؟ ۔۔۔اے میرے رب یا مجھے کوئی اور کارہائے نمایاں تفویض کر۔۔۔ یا انہیں میرے راستے سے ہٹا دے ۔اے رب العالمین مجھ سے نا جانے کون سی ایسی خطا، یا اس بد قسمت قوم سے کوئی گستاخی سرذد ہوئی تو اسے درگزر فرما ۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایک بار نہیں صدیوں سے اس قوم کا چین و سکون لوٹاہے اس قوم کی غیرت کو اغیار کے قعبہ خانوں میں بیچا ،ناجانے رب العزت نے حرس و لالچ سے مرصع کس مٹی سے انہیں تخلیق کیا کہ صدیوں سے مادر وطن کا ’’ماس‘‘ نوچ نوچ کر کھا گئے اس کا خون چوس لیا لیکن ناں تو ان کی بھوک ہی ختم ہوئی ناں پیاس بجھی ۔

یہ زمانے کے وہ جھوٹے و بدکردار لوگ ہیں جن کا’’ تحریک آزادی کشمیر‘‘ سے کبھی دور کا واسطہ نہ رہا لیکن آئے روز اسی نام سے کشمیر باسیوں کو زخم دئے جاتے ہیں ۔۔۔لوٹ لیتے ہیں ۔۔۔ان کے جذبات کا خون کرتے ہیں ۔۔۔جب جب سادہ لوح انسان ان کی قسموں وعدوں پہ یقین کر کے باہر نکلتے ہیں یہ ان کے سروں کی گنتی کر کے اغیار سے اس کی قیمت وصول کرتے ہیں ۔ان لوگوں کے ارمانوں و خوابوں کو سر بازار بیچ دیتے ہیں ۔

جب جب عوام نے ان پر اعتماد کیا جواباً دھوکا کھایا ۔دھوکے و منافقت کا یہ کھیل صدیوں سے جاری ہے جب کہ موجودہ صدی میں اس منافقت نے ایک بھیانک روپ دھار لیا ہے جس کے نتیجہ میں دیس تین ٹکڑوں میں بٹ گیا اور منقسم دیس کے باسی جو باہمی اتفاق و اتحاد کی مثال تھے ان کی راہیں جدا ہو گئیں ،انہیں اپنے ہی دیس کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں آنے جانے پر روک لگا دی گئی ،انہیں بزدلی کے طعنے دئے گئے ۔ان سے ان کا اقتدار اعلیٰ چھین لیا گیا اور بے بسی و مجبوری کی مثال بنے ان لوگوں کی آواز تقسیم کی آسمان سے اونچی دیواروں کے جیسی لکیروں میں بند ہو کر رہ گئیں ،اور ان ظلاموں کو اس قوم پر زرہ ترس نہ آیا تو اس کی اسی مجبوری کو ہی اپنا کاروبار زندگی بنا لیا اور پھر ہر گلی ہر چورہے پر ان کی غیر ت ،آزادی وخودمختاری کی بولی لگنے لگی اور جب کبھی محب وطنوں کی کوئی جماعت سامنے آئی جس نے اپنے گرم لہو سے حق آزادی کے چراغ جلائے تو اس تحریک کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی بنے۔آج ان جیسوں کی ملک بھر میں بھر مار ہے ’’بیک ٹو بیک‘‘آقاؤں کی خوشنودی و وفاداری میں ایک دوسرے پر بازی لیجانے کے لئے ہمہ وقت تیار ۔۔۔بے شمار ۔۔۔یہ لوگ اپنے آپ کو آقا کی نظر میں لانے کے لئے دیس کے معصوم لوگوں کو ’’ایموشنل بلیک میلنگ‘‘ و دھوکے سے تحریک آزادی کا خوش کن نعرہ دے کر جمع کرتے ہیں اور پھر شروع ہوتا ہے ’’ہیڈ کاؤنٹنگ‘‘ کا شرمناک کھیل ۔۔۔ایسا ہی ننگ انسانیت کا ایک گھناؤنا کھیل 26اکتوبر کو کھیلا گیا ۔ایک روائتی سیاستکار جسے آقا بدلنے کا عالمی ریکارڈ رکھنے کے باوجود اس بدبو دار سیاست میں کامیابی ناں ملی تو اس نے ایک پلان تیار کیا اور برطانیہ میں مقیم منقسم ریاستی باشندوں کو فریب دینے پہنچا اور’’ ملین مارچ‘‘ کے نام سے ایک پروگرام کا علان کیا ۔وہ ہر شخص کے پاس گیا اور اسے برادری ازم ،علاقہ ازم اور دوسرے تمام زرائع جو اسے مناسب لگے استعمال کئے اور لوگوں کو آمادہ کرنے کی کوشش کی جب کہ لوگ زیادہ تر ’’کشمیر کاز ‘‘کے نام سے ہی شرکت کے لئے راضی ہوئے ۔اس نے وہاں پر موجود تنظیموں سے بھی رابطے کئے اور انہیں یقین دلایا کہ یہ پروگرام فقط کشمیر کاز کے لئے ہوگا اسمیں کوئی پارٹی جھنڈا یا نعرہ ناں ہوگا ناں کوئی غیر کشمیری متنازع شخص اس پروگرام میں لایا جائے گا ۔اور اس طرح انہوں نے لوگوں کے سامنے اپنے آزادی پسند ہونے کا ڈھونگ کیا ۔آخر کار لوگوں نے پروگرام میں شرکت کا فیصلہ کیا اور ہمیشہ کی طرح عوام بچے بوڑھے جوان مرد و خواتین دور دراز سے اپنے روز مرہ کے کام کاج کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس پروگرام میں پہنچے اس خواہش کے ساتھ کہ آج کے اس احتجاج کے باعث ان کی آزادی کا پیغام دنیا کے ایوانوں میں زیر بحث آئے گا ۔لوگوں کے جذبات دیدنی تھے ۔لیکن اس وقت سب لوگوں کے چہروں کا رنگ فق ہو گیااور منہ کھلے رہ گئے جب اس کا اصل چہرہ لوگوں کے سامنے بے نقاب ہوا۔۔۔وہ تمام تر وعدوں قسموں اور معائدوں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اپنے نومولود ’’آقا‘‘ کا ہاتھ تھامے سٹیج پر نمو دار ہوا۔۔۔اس پر دیس باسیوں کا رد عمل کیا ہوا ۔۔وہ تاریخ کا حصہ ہے اورساری دنیا نے دیکھا ۔لوگوں نے اس شخص اور اس کے سیاسی نومولود والد صاحب کی ٹماٹروں ،گندے انڈوں اور خالی بوتلوں سے توازع کی اور فضا ’’گو بلاول گو۔۔۔سلطان ۔۔۔ہائے ہائے۔۔۔مجید ۔۔۔ ہائے ہائے ‘‘ اور ایسے غیر مہذب نعروں سے جن کا یہاں اظہار نا مناسب فضا گونج اٹھی اور اس طرح دیس باسیوں نے یہ ثابت کر دیا کہ ہم مال مویشی نہیں زندہ و باشعور قوم ہیں ۔ہمیں اب کوئی بے وقوف بنانے کی جرات ناں کرے ۔۔۔خبردار کوئی ہماری تحریک آزادی کے ساتھ کھلواڑ کی کوشش نہ کرے ۔کہ ہم اپنا مقدر خود لکھیں گے ۔۔۔اپنا نصیب خودبنائیں گیاپنے دیس کے لئے جدوجہد خود کریں گے اس کے لئے ہمیں کسی ایرے غیرے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ’’اے وطن جاگ کہ کچھ جا پسند غیر کو ترے مقدر کا خدا کہتے ہیں ۔۔ ۔
Niaz Kashmiri
About the Author: Niaz Kashmiri Read More Articles by Niaz Kashmiri: 98 Articles with 82291 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.